
BBCایکواڈور کے بندرگاہیں کوکین کی سمگلنگ میں سرفہرست ہیں'البانوی مافیا فون کرتا ہے اور کہتا ہے، ’ہم 500 کلو منشیات بھیجنا چاہتے ہیں۔ اگر نہیں مانے تو ہم تمھیں مار ڈالیں گے۔‘سیزر (جن کا فرضی نام استعمال کیا گیا ہے) لاطینی امریکی ملک ایکواڈور میں منشیات کے غیر قانونی مجرمانہ گروپ ’لیٹن کنگز‘ کے رکن ہیں۔ انھیں انسداد منشیات پولیس کے ایک بدعنوان افسر نے ہی البانوی مافیا کے لیے کام کرنے کے لیے بھرتی کیا تھا۔ البانوی مافیا کوکین کی یورپ سمگلنگ کرنے والے سب سے بڑے نیٹ ورکس میں سے ایک ہے۔البانوی مافیا نے حالیہ برسوں میں ایکواڈور میں اپنی موجودگی میں اضافہ کیا ہے کیونکہ اس ملک سے سمگلنگ کے اہم راستے گزرتے ہیں اور اب یہ جنوبی امریکہ سے یورپ تک کوکین کی زیادہ تر فراہمی کو کنٹرول کرتا ہے۔ایکواڈور کے صدر ڈینیئل نوبوا کا کہنا ہے کہ منشیات کی پیداوار نہ کرنے کے باوجود ایکواڈور کی بندرگاہوں سے دنیا کی 70 فیصد کوکین گزرتی ہے۔زیادہ تر منشیات پڑوسی ممالک کولمبیا اور پیرو سے سمگل کی جاتی ہیں اور یہ دنیا میں کوکین پیدا کرنے والے دو بڑے ممالک ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ سال ریکارڈ مقدار میں غیر قانونی منشیات پکڑی ہیں، جن میں سے زیادہ تر کوکین ہے۔اس کے نتائج مہلک ہیں۔ صرف جنوری سنہ 2025 میں781 قتل ہوئے جو کہ حالیہ برسوں میں سب سے مہلک مہینہ رہا۔ ان میں سے کئی کا تعلق منشیات کے غیر قانونی کاروبار سے تھا۔ہم نے سپلائی چین کے لوگوں سے یہ سمجھنے کے لیے بات کی کہ یہ بحران کیوں بڑھ رہا ہے اور یورپ میں کوکین کی بڑھتی ہوئی کھپت اس میں کیا کردار ادا کر رہی ہے۔BBCکولمبیا اور پیرو منشیات کی پیداور میں سب سے آگے ہیںپیسہ اور خوف36 سالہ سیزر نے کارٹیل کے ساتھ اس وقت کام کرنا شروع کیا جب وہ محض 14 سال کا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں ملازمت کے کم مواقع اس کی وجوہات میں سے ایک ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’البانیوں کو کسی کی ضرورت تھی۔ اور میں بندرگاہ کے محافظوں، ٹرانسپورٹ ڈرائیوروں، سی سی ٹی وی کیمرہ کے نگرانوں کو جانتا تھا۔‘وہ ایکواڈور کی بندرگاہوں میں منشیات کی سمگلنگ میں مدد کرنے کے لیے یا کبھی کبھار کیمرہ سے آنکھیں ہٹانے کے لیے انھیں رشوت دیتے تھے۔جب کوکین ایک بار کولمبیا یا پیرو سے ایکواڈور پہنچ جاتی تو اس کے بعد اسے گوداموں میں چھپا دیا جاتا اس وقت تک جب تک البانوی مافیا کو کسی ایسے شپنگ کنٹینر کا علم نہ ہو جاتا جو یورپ کے لیے دستیاب ہو جائے۔کوکین کو شپمنٹ میں سمگل کرنے کے لیے گینگ تین اہم طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ایک، منشیات کو بندرگاہ تک پہنچانے سے پہلے کارگو میں چھپانا، دوسرے یہ کہ بندرگاہ پر کنٹینرز کو کھول کر ان میں منشیات ڈالنا، یا سمندر کے اندر بحری جہازوں سے منشیات کے پیکٹوں کو منسلک یا چسپاں کرنا۔بعض اوقات سیزر نے ایک کام کے لیے 3,000 امریکی ڈالر تک کمائے۔ لیکن اس کی وجہ صرف پیسہ نہیں تھا بلکہ یہ خوف بھی تھا کہ ’اگر آپ البانیوں کے کہنے کے باوجود کوئی کام نہیں کرتے تو وہ آپ کو مار ڈالیں گے۔‘سیزر کا کہنا ہے کہ انھیں منشیات کی تجارت میں اپنے کردار پر کچھ پچھتاوا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے زیادہ قصور صارفین کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کھپت بڑھتی ہے تو سمگلنگ بھی بڑھے گی۔ یہ نہ رکنے والی چیز ہے۔‘انھوں نے مزید کہا: ’اگر وہ وہاں اس کا تدارک کرتے ہیں تو یہ یہاں ختم ہو جائے گی۔‘اس سپلائی چین میں نہ صرف گینگ کے اراکین بلکہ عام کارکن بھی پھنس جاتے ہیں۔BBCایکواڈور کی بندرگاہوں سے دنیا کی 70 فیصد کوکین گزرتی ہےٹرک ڈرائیور کی کہانیجوآن ( اصل نام نہیں) ایک ٹرک ڈرائیور ہیں۔ ایک دن انھیں بندرگاہ پر لے جانے کے لیے مچھلی کی کھیپ ملی۔ لیکن انھیں احساس ہو گيا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’خطرے کی پہلی گھنٹی اس وقت بجی جب ہم گودام میں گئے اور اس میں صرف وہ سامان تھا، اور کچھ نہیں تھا۔ یہ کرائے کا گودام تھا، اس پر کسی کمپنی کا کوئی نام نہیں تھا۔‘’دو ماہ بعد میں نے خبروں پر دیکھا کہ ایمسٹرڈیم میں منشیات سے بھرے کنٹینرز پکڑے گئے ہیں۔ ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا۔‘کچھ ڈرائیور انجانے میں منشیات لے جاتے ہیں جبکہ بعض کو مجبور کیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کرتے ہیں تو انھیں مار دیا جاتا ہے۔یورپی گروپس ایکواڈور کی طرف نہ صرف اس کے محل وقوع بلکہ برآمدات کے متعلق اس کے قانون کے لیے بھی متوجہ ہوتے ہیں جہاں غیر قانونی کارگو کو چھپانے کا ایک آسان طریقہ فراہم کیا جاتا ہے۔کیلے کی صنعت کے نمائندے ہوزے انتونیو وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ایکواڈور کے بندرگاہوں سے کیلے کی برآمدات میں 66 فیصد کنٹینرز ہوتے ہیں ان میں سے 29.81 فیصد یورپی یونین کو جاتے ہیں، جہاں منشیات کی کھپت بڑھ رہی ہے۔‘کچھ گروہوں نے غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے یورپ اور ایکواڈور میں جعلی فروٹ امپورٹ/ایکسپورٹ کمپنیاں بھی قائم کر رکھی ہیں۔BBCایکواڈور سے یورپ تک ہونے والی منشیات سمگلنگ رکنے کا نام نہیں لے رہیگہرے سمندر میں بھٹک جانے والا ملاح جو 95 دن تک ’کچھوے کھا کر‘ زندہ رہاٹرینڈی اراگوا: وینزویلا کا خطرناک گینگ جس سے ’امریکہ کو بھی خطرہ ہے‘’جورڈن گینگ‘: لاہور پولیس نے منشیات ’چاکلیٹ میں ملا کر‘ بیچنے والے گروہ کو کیسے پکڑا؟اداکار کی پُراسرار موت جس نے ہالی وڈ میں منشیات کے انڈر گراؤنڈ نیٹ ورک اور ایک ’ملکہ‘ کو بے نقاب کیاایک پراسیکیوٹر، جو منظم جرائم کے گروپس کو نشانہ بنا رہے ہیں، نے موصول ہونے والی دھمکیوں کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی ہے۔ یہاں ہم ان کا نام جوزے استعمال کر رہے ہیں جو ان کا اصل نام نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کام کو کرنے کے لیے ’یورپی سمگلر تاجروں کا روپ دھار لیتے ہیں۔‘اس کی ایک مثال ڈیٹان گیجیکا ہیں۔ انھیں ایکواڈور میں البانوی مافیا کے سب سے طاقتور لیڈروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔پراسیکیوٹر جوزے کا کہنا ہے کہ ڈیٹان ایکواڈور میں پھل برآمد کرنے والی کمپنیوں اور یورپ میں درآمدی کمپنیوں میں حصص رکھتے تھے، جن سے وہ کوکین کی تجارت کرتے۔ وہ بدستور فرار ہیں لیکن ان کے بہت سے ساتھیوں کو پولیس آپریشن کے بعد سزائيں سنائی گئی ہیں۔وکیل مونیکا نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ نیٹ ورک کیسے کام کرتے ہیں۔BBCمونیکا کا کہنا ہے کہ 2021 میں البانوی مافیا کی دراندازی شروع ہوئیبرآمدات کیوں بڑھ رہی ہیں؟ایکواڈور کی بندرگاہوں پر پولیس اور مسلح افواج صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔کشتیاں پانی میں گشت کرتی ہیں، پولیس کوکین کو پکڑنے کے لیے کیلے کے ڈبوں کو سکین کرتی ہے، یہاں تک کہ پولیس کے سکوبا غوطہ خور جہازوں کے نیچے چھپے ہوئے منشیات کی تلاش کرتے ہیں۔ہر کوئی بھاری ہتھیاروں سے لیس ہے، یہاں تک کہ وہ لوگ جو کیلے کے ڈبوں کو شپنگ کنٹینرز میں لوڈ کرنے سے پہلے ہی ان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تلاشی کے دوران منشیات پائی جاتی ہیں تو ممکنہ طور پر اس میں کوئی بدعنوان پورٹ ملازم ملوث ہو سکتا ہے اور اس وجہ سے وہاں کوئی پرتشدد واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ان کوششوں کے باوجود ایکواڈور سے کامیابی سے سمگل کی جانے والی کوکین کی مقدار ریکارڈ حد تک پہنچ گئی ہے۔ اور اس کے لیے بڑھتی ہوئی طلب اور معاشی عوامل کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ایکواڈور کی وزارت داخلہ کے مطابق، گذشتہ سال تقریباً 300 ٹن منشیات ضبط کی گئی تھیں جو کہ ایک نیا سالانہ ریکارڈ ہے۔نیشنل پولیس کے میجر کرسچن کا کہنا ہے کہ ’حالیہ برسوں میں یورپ کی طرف جانے والی کھیپوں میں تقریباً 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘کوکین کی ترسیل میں اس اضافے نے سپلائی چین میں ملوث لوگوں کے لیے اسے مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ٹرک ڈرائیور جوآن نے بتایا کہ اہلکاروں نے ایک دن پہلے دو ٹن منشیات کے ساتھ ایک کنٹینر پکڑا: ’پہلے یہ کلو میں ہوتا تھا، اب ہم ٹن کے بارے میں بات کرتے ہیں۔‘’آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو نوکری چھوڑ دیں یا پھر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔‘ویزا کے کمزور قوانین نے 2020 کے بعد یورپی گروہوں کی موجودگی کو وہاں آسان بنا دیا۔ مونیکا کا کہنا ہے کہ 2021 وہ سال تھا جب ’البانوی مافیا کی دراندازی شروع ہوئی۔‘وہ کہتی ہیں کہ یہ دور البانیہ کے شہریوں کی آمد اور کیلے کی برآمدات میں اضافے کے ساتھ منسلک ہے۔’یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے جو ایکواڈور کو نقصان پہنچاتا ہے اور مجرمانہ تنظیموں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ ایسے میں ہم پریشانیوں میں گھری معیشت کو کیسے قبول کر سکتے ہیں؟‘BBCمنشیات کے پکڑے جانے میں اضافے کا مطلب سمگلنگ میں اضافہ ہےیورپ کے لیے پیغامغیر ملکی کارٹیلز کے خلاف یہ غصہ حیران کن نہیں ہے۔ بطور خاص اس صورت میں کہ ان کا اس میں کتنا ہاتھ ہے۔لیکن ایک چیز ہے جس پر کچھ سمگلر اور ان سے لڑنے والے دونوں متفق ہیں۔ یہ تجارت بطور خاص یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے صارفین کی مانگ پر فروغ پا رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر کوکین کی کھپت ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس کے سروے بتاتے ہیں کہ برطانیہ دنیا میں کوکین کے استعمال میں دوسرے نمبر پر ہے۔برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کا اندازہ ہے کہ برطانیہ میں سالانہ تقریباً 117 ٹن کوکین کی کھپت ہے اور یورپ میں یہ اس کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ برطانیہ میں کھپت بڑھ رہی ہے۔برطانیہ کے ہوم آفس کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 2023 سے 2024 کے درمیان کوکین کی کھپت میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ این سی اے کے آپریشنز نے 2024 میں تقریباً 232 ٹن کوکین ضبط کیں جبکہ 2023 میں یہ تعداد 194 ٹن تھی۔’اگر میں مر بھی گیا تو یہ خدا کی مرضی ہو گی‘: ڈنکی لگا کر یورپ کے کنیری جزائر پہنچنے کا پُرخطر سفروہ عجیب اور نایاب پودے جنھیں ’وائرل‘ کر کے یورپ اور امریکہ سمگل کیا جاتا ہےسمندر میں تیرنے والی شارک مچھلیوں میں کوکین کہاں سے آئی؟گہرے سمندر میں بھٹک جانے والا ملاح جو 95 دن تک ’کچھوے کھا کر‘ زندہ رہامردہ قرار دی گئی خاتون تدفین سے قبل زندہ نکلی: ’موت کے وقت کوئی چیز مشکوک نہیں تھی‘’جورڈن گینگ‘: لاہور پولیس نے منشیات ’چاکلیٹ میں ملا کر‘ بیچنے والے گروہ کو کیسے پکڑا؟