
غیرقانونی طور پر پاکستان میں مقیم بہت سے افغان شہری ایک ایسے افغانستان میں واپس پہنچ رہے ہیں جس کی زمین پر وہ خود کو مکمل طور پر اجنبی سمجھتے ہیں۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق پاکستان میں بغیر قانونی دستاویزات کے مقیم افغان شہریوں پر بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن جاری ہے۔رواں سال کے آغاز میں پاکستان کی وزارت داخلہ نے تمام ’غیر قانونی غیرملکیوں‘ اور ’افغان سٹیزن کارڈز‘ رکھنے والوں سے کہا تھا کہ وہ 31 مارچ تک ملک سے واپس چلے جائیں۔پاکستان نے غیرملکی شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ بصورت دیگر انہیں اپریل میں ملک بدر کر دیا جائے گا۔لیکن ان میں سے بہت سے پناہ گزینوں کے لیے افغانستان ایسا ملک ہے جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے کیونکہ وہ پیدا ہی پاکستان میں ہوئے تھے۔ایسے افغان شہریوں میں سے ایک میر علی ہیں جو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر مری میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنا بچپن اور ابتدائی زندگی یہیں گزاری لیکن ان کے پاس کوئی سرکاری پاکستانی شناخت یا دستاویز نہیں۔افغانستان کے ساتھ پاکستان کے طورخم بارڈر کراسنگ پوائنٹ پر کھڑے میر علی دوسری طرف جانے سے گریزاں تھے۔بارڈر کے پار جانے کے ایک ٹرک پر چڑھتے ہوئے 23 سالہ میر علی نے کہا کہ ’میں یہاں (چیک پوائنٹ پر) آنے اور یہاں سے افغانستان جانے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن یہ لازمی تھا۔ میرے بھائی نے مجھے وہاں (افغانستان) واپس جانے اور اپنی قومیت کے کاغذات حاصل کرنے پر آمادہ کیا۔ اگر میں دونوں قومیتیں کھو دیتا ہوں تو یہ ایک مسئلہ ہو گا۔‘جمعرات کو شائع ہونے والی یو این ایچ سی آر اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق اپریل کے پہلے 12 دنوں میں 63 ہزار سے زائد غیرقانونی مقیم افغان یا مہاجرین پاکستان سے افغانستان واپس پہنچے۔میر علی نے مزید کہا کہ گرفتاری کا خوف افغانستان جانے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ میر علی اور اُن کے بڑے بھائی عصل میر نے کہا کہ وہ اپنی مرضی سے واپس جا رہے ہیں۔چھوٹے بھائی نے کہا کہ ’ہم پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں، تو ہمیں یہاں کی شہریت کیوں نہیں ملی؟ شاید اس میں میں بھی بھلائی ہوگی کہ اب ہم افغانستان واپس جا رہے ہیں۔‘یہ بھائی ان لاکھوں پناہ گزینوں میں سے صرف دو تھے جنہوں نے کئی دہائیاں پاکستان میں گزاریں اور اُن کے خاندان اس ملک میں رہے اور مقامی کمیونٹیز کی ترقی میں شراکت کے باوجود انہیں کبھی شہریت نہیں دی گئی۔عصل میر نے اپنی زندگی کی چار دہائیاں پاکستان میں گزاریں۔ افغانستان جاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے پاکستانی حکومت کی جانب سے اُن کی ملک بدری کا حکم جاری کیا گیا اس سے وہ بری طرح متاثر ہوئے۔انہوں نے کہا کہ وہ اب مدد کے لیے افغان حکومت کی طرف ہی دیکھ سکتے ہیں۔ افغانستان اس وقت ایک ایسا ملک ہے جو تباہ حال معیشت اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے۔پاکستان میں مقیم بہت سے پناہ گزینوں کے لیے افغانستان ایسا ملک ہے جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے۔ فائل فوٹو: اے ایف پیعصل میر نے کہا کہ ’صورتحال تشویشناک ہے۔‘ مستقبل اور اپنے بچوں کی تعلیم کے بارے میں غیریقینی صورتحال سے دوچار افغان شہری نے مزید کہا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ بچے (افغانستان میں) اپنی تعلیم مکمل کریں۔‘ننگرہار پہنچنے کے بعد میر علی نے اردو کے بجائے پشتو زبان گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے کابل میں ہمارے لیے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے اور وہ وہاں ہماری مدد کریں گے۔‘میر علی نے بتایا کہ ’ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں زمین، مکان اور روزگار فراہم کرے۔‘