
آج بھی جب کوئی پوچھتا ہے کہ ’چائے چاہیے‘ تو زبان سے خود بخود ’کون سی جناب‘ نکل ہی آتا ہے۔۔۔ بارش میں ’اے ابرِ کرم‘ گُنگنانا آج بھی بہت سے لوگوں کی عادت ہے اور ’کوکو کورینا‘ تو نوجوان نسل کو بھی زبانی یاد ہے۔ شاید ہی کسی نے سمندر پر جا کر ’ساتھی تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر‘ نہ گایا ہو اور پاکستان کا قومی ترانہ تو سکول میں سب ہی نے پڑھا ہو گا۔اِن سب گیتوں، جینگلز، نغموں اور ترانوں کے پیچھے احمد رشدی کی آواز ہے جنھوں نے 25 سال سے زائد عرصے تک گلوکاری کی دنیا میں دھوم مچا رکھی تھی۔پاکستان فلموں میں سو سے زائد اداکاروں پر ایک ہزار کے قریب گیت گانے والے احمد رشدی کا تعلق کسی موسیقی کے گھرانے سے نہیں تھا۔ احمد رشدی 24 اپریل 1934 کو حیدر آباد دکن میں ایک انتہائی مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔اُن کے والد پروفیسر منظور احمد ’دارالعلوم دیوبند‘ سے فارغ التحصیل تھے اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے۔ پروفیسر منظور جماعت اسلامی کے بانی ابولاعلیٰ مودودی کے استاد بھی تھے۔احمد رشدی ابھی نوعمر ہی تھے کہ اُن کے والد کی وفات ہو گئی۔ رشدی کی گلوکاری کے حوالے سے واحد درسگاہ وہ ’فائن آرٹس اکیڈمی‘ تھی جس کے بانی ممبران میں اُن کے بھائی ارسلان بھی شامل تھے اور اس اکیڈمی کو حیدر آباد شہر کے پڑھے لکھے اور ترقی پسند رجحانات کے نوجوانوں نے قائم کیا تھا۔کرشن چندر کی پیش گوئیگھر کا ماحول انتہائی مذہبی ہونے کی وجہ سے احمد رشدی کو ابتدا میں صرف جلسوں میں گانے کی اجازت تھی۔ یہ 1950 کی دہائی کی بات ہے جب مشہور ترقی پسند ادیب کرشن چندر پہلی مرتبہ حیدر آباد دکن آئے، جہاں ایک جلسے میں رشدی نے ’یہ جنگ ہے جنگِ آزادی، آزادی کے پرچم تلے‘ گا کر دل جیت لیے۔ اِسی جلسے میں کرشن چندر نے اپنی تقریر سے پہلے جلسے کی کامیابی کا سہرا احمد رشدی کے سر کر دیا جو 17 سالہ لڑکے (رشدی) کے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔اگلے دو برسوں تک رشدی ’فائن آرٹ اکیڈمی‘ کے پلیٹ فارم سے فلاحی کاموں اور سیاسی جلسوں میں پرفارم کرتے رہے۔ کہیں سیلاب آ جائے تو رشدی، جلسہ ہو تو رشدی اور دھیرے دھیرے وہ اخبارات کی زینت بنتے گئے۔رشدی کی شہرت میں اضافہ ہو رہا تھا اور اُن کے لیے آگے بڑھنے کی راہیں کُھل رہی تھیں مگر حالات انھیں خاندان کے ساتھ کراچی لے آئے، جہاں اِس 20 سال کے لڑکے کو اپنے آپ کو منوانے کے لیے دوبارہ سے محنت کرنا پڑی۔’بندر روڈ سے کیماڑی‘: 1954 اور کامیابیاںیہاں ریڈیو پاکستان کراچی سے شوقیہ گلوکاروں کا ایک پروگرام اُن کے لیے وسیلہ بنا۔انھوں نے ایک ایسے ہی پروگرام میں میر درد کی غزل ’تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا، برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا‘ گا کر ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر سلیم گیلانی کی توجہ حاصل کی۔اگرچہ اِس سے قبل رشدی انڈیا میں ایک کم لاگت سے بننے والی فلم ’عبرت‘ میں گانا بھی گا چکے تھے مگر یہ فلم باکس آفس پر ’عبرت کا نشان‘ ثابت ہوئی۔ریڈیو پاکستان (کراچی) میں رشدی کی صلاحتیوں کو دیکھ کر سلیم گیلانی نے انھیں مشہور کمپوزر اور شاعر مہدی ظہیر کے سپرد کیا جن کی نگرانی میں اُن کی صلاحتیوں میں نکھار پیدا ہوا۔ اُن کے پہلے ہی گیت ’بندر روڈ سے کیماڑی‘ نے انھیں کراچی سے لاہور تک مشہور کر دیا اور پھر اس ابتدائی کامیابی کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔یہ وہ وقت تھا جب کراچی کی فلم انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑی ہو رہی تھی اور یہاں سے بننے والی فلموں میں رشدی کو موقع ملنے لگا۔ فلمی دنیا میں رشدی کو پہلی بڑی کامیابی 1958 کی فلم ’انوکھی‘ سے ملی جب اُن کا گیت ’ماری لیلیٰ نے ایسی کٹار‘ ہٹ ہوا۔اس کے بعد رشدی فلموں کی ضرورت بن گئے۔ وہ کراچی سے لاہور منتقل ہوئے اور ہر فلم میں موجود ہوتے۔ انھوں نےاگلے سات برسوں میں دو نِگار ایوارڈز سمیت بہت سے اعزازات اپنے نام کیے اور اس وقت کے پروڈیوسرز اور ڈسٹریبیوٹرز کی پسند بن گئے۔’گول گپے والا‘: سٹریٹ سانگزپاکستان میں شاید ہی کوئی گیت کسی کاروبار سے اِس طرح منسلک ہوا ہو جیسے احمد رشدی کا ’گول گپے والا‘۔ سنہ 1962 کی فلم ’مہتاب‘ کا یہ گیت آج بھی مقبول ہے اور ایک زمانے میں ہر گول گپے والے کی ریڑھی پر یہی گانا ٹیپ پر بج رہا ہوتا تھا۔محمد رفیع اور کشور کمار کی طرح احمد رشدی کے بیشتر گانے ’سٹریٹ سونگ‘ بنے، جس میں ’اکیلے نہ جانا‘، ’بڑے سنگدل ہو‘، ’لیے آنکھوں میں غرور‘، ’کھڑکی سے دروازوں سے‘، اور ’سُن لے او جانِ وفا‘ وغیرہ شامل ہیں۔پاکستانی سنگر، موسیقار اور اداکار خالد انعم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’رشدی، پاکستانی پاپ سنگنگ کے بانی تھے اور سٹائل میں سِنگنگ کرتے تھے۔ پلے بیک کے لیے سٹائل اپنانا ضروری ہوتا ہے اور رفیع اور کشور کی طرح رشدی بھی اس کے مالک تھے۔‘خالد انعم کے مطابق رشدی کا انداز کشور اور رفیع کا ملاپ تھا۔ ’سچویشن جان کر، ہیرو کو دیکھ کر گانا گانا، صرف رشدی کا خاصا تھا۔ کیا مخرج تھا، کیا تلفظ تھا، ہم کہیں تو بندل لوڈ زبان سے نکلتا ہے، رشدی آرام سے بندررر روڈ کہہ گئے۔‘رشدی نے سب سے زیادہ دوگانے مالا کے ساتھ گائے تھے جن کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔ اُن میں ’کِیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا‘، ’جب رات ڈھلی تم یاد آئے‘، ’اے بہارو گواہ رہنا‘، ’دیکھا جو انھیں دل نے‘، ’موسم حسین ہیں لیکن‘، ’مجھے تلاش تھی جس کی‘، ’ہونٹوں پہ تبسم نظر سہمی سہمی‘، ’عید کا دن ہے گلے‘، ’لاکھوں حسین مجھے تم کیوں پسند ہو‘ جیسے گیت شامل ہیں۔اس کے علاوہ رشدی نے ناہید نیازی، نیرہ نور، نور جہاں، رونا لیلیٰ، مہناز اور پروین کے ساتھ بھی لاتعداد گیت گائے۔تصور خانم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’رشدی ملنسار اور اچھے اخلاق کے سنگر تھے جو نئے آنے والوں کی عزت اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ میں نے اُن کے ساتھ طربیہ گیت گائے لیکن رشدی کو المیہ گیت گانے میں بھی کمال حاصل تھا۔ ان کا زیادہ رجحان پاپ سنگنگ کی طرف تھا جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔‘محمد علی: پائلٹ بننے کا خواہشمند مذہبی گھرانے کا نوجوان ’شہنشاہِ جذبات‘ کیسے بنا’لیڈی کِلر‘ اور ’چاکلیٹی ہیرو‘ وحید مراد جو مولا جٹ کے بعد زوال سے سنبھل نہ سکےرفیع خاور ننھا، جن کی موت 37 سال بعد بھی ایک معمہ ہےسلطان راہی جنھوں نے ’گنڈاسا کلچر‘ سے 25 سال پنجابی فلموں پر راج کیاپروڈیوسر، ڈائریکٹر بننے سے پہلے کراچی کے ایسٹرن سٹوڈیو میں اقبال شہزاد چیف ریکارڈسٹ ہوا کرتے تھے۔ اقبال شہزاد نے فلم ’بنجارن‘، ’بیٹی‘، ’بدنام‘ اور ’بازی‘ جیسی شاہکار فلمیں بنائیں۔ وہ جب بھی کسی فلم کا گیت احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کرواتے تو فلم کے ہیرو کو ریکارڈنگ پر مدعو کرتے تاکہ ہیرو رشدی کے انداز کو سکرین پر اپنا سکے۔فلمسٹار ندیم پر کسی اور کی آواز میں پہلا گانا رشدی کا تھا۔ فلم ’انسان اور فرشتہ‘ میں مشہور گانے ’پپو یار تنگ نہ کر‘ میں ایک جگہ ندیم کے کیریکٹر کو گانے کے بول تہت لفظ میں کہنے تھے۔ ایک لمبے عرصے تک بحث چلتی رہی اور بہت سے لوگوں کا ماننا تھا کہ وہ ریکارڈنگ ندیم نے کی تھی جبکہ دراصل وہ بول بھی رشدی نے ہو بہو ندیم کے انداز میں ہی ادا کیے تھے۔ندیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے احمد رشدی کو ایک ’مکمل پلے بیک سنگر‘ قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’احمد رشدی کی آواز فلم کے لیے بہت موزوں تھی۔ اُن کی آواز میں ایکسپریشن بھرے ہوتے تھے، بحیثیت اداکار، ہمیں گانا فلمانے میں کافی آسانی ہوتی تھی۔‘رشدی اور وحید مراداحمد رشدی کے گانوں کی سب سے زیادہ تعداد وحید مراد پر فلمائی گئی۔ ’سوچا تھا پیار نہ کریں گے‘، ’دل تم کو دے دیا ہے‘، ’جانِ بہار جانِ تمنا تم ہی تو ہو‘، ’دل کو جلانا ہم نے چھوڑ دیا‘، ’کچھ لوگ روٹھ کر بھی‘ اس میں شامل ہیں۔وحید مراد، موسیقار سہیل رعنا، شاعر مسرور انور اور ہدایتکار پرویز ملک کی ٹیم کی بدولت رشدی کے بہترین گانے سامنے آئے۔ ’کوکو کورینا‘، ’اکیلے نہ جانا‘، ’جب پیار میں دو دل‘، ’تمہیں کیسے بتا دوں‘، ’وعدہ کرو ملو گے‘، ’بھولی ہوئی ہوں داستان‘ اور ’ہاں اِسی موڑ پر‘ اس میں شامل ہیں۔بہت سے ناقدین کہتے ہیں کہ اگر وحید مراد پاکستانی فلموں کا انداز نہ بدلتے تو شاید رشدی اور اُن کے گانے کے سٹائل کو کوئی نہ پوچھتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وحید مراد کے 1963 میں فلم ’اولاد‘ کے مختصر کردار سے پہلے ہی رشدی اپنے کیرئیر میں ملنے والے چار میں سے دو نِگار ایوارڈ حاصل کر چکے تھے۔ صحافی اور فلمساز علی سفیان آفاقی کی کتاب ’فلمی الف لیلیٰ‘ کے مطابق سنہ 1965 کی فلم ’کنیز‘ کے ایک سین میں رشدی اور وحید مراد نے آمنے سامنے کھڑا ہونا تھا۔ رشدی کو ایکسٹرا کے طور پر کھڑا کر رہے تھے جس پر وحید مراد نے مذاق میں یہ کہہ کر سین کرنے سے منع کر دیا کہ اگر اس سین میں رشدی ہو گا، تو انھیں کوئی نہیں دیکھے گا۔ گلوکار اور موسیقار تنویر آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’رشدی فلموں میں اداکاری کے غرض سے آئے تھے۔ انھوں نے متعدد فلموں میں ایکٹنگ بھی کی مگر انھیں زیادہ کامیابی گلوکاری میں ملی۔ اُن کے گانوں میں ہیرو پر جچنے والی بات، اُسی اداکاری کی دین تھی۔‘ملک میںٹیلیویژن کے آنے سے رشدی کو ادکاری کے جوہر دکھانے کا موقع ملا اور انھوں نے 1974 کے پروگرام ’بزمِ رشدی‘ میں ’ٹویسٹ اور راک اینڈ رول‘ انداز میں گانوں کو پیش کیا۔ پاکستان ٹی وی پر ناچ ناچ کر گانے کا طریقہ احمد رشدی نے متعارف کروایا جس کو بعد میں عالمگیر، شہکی، خالد وحید نے اپنایا۔رشدی نے اپنی آواز سے کبھی ٹیٹھ دیہاتی، کبھی شہری نوجوان، کبھی شہزادہ، کبھی شرابی اور کبھی دل شکستہ مریضِ عشق کے انداز میں گایا۔ رشدی نے نثار بزمی، سہیل رعنا، ایم اشرف ، اے حمید، ناشاد اور نذیر علی کے لیے کافی گیت گائے اور امر کر دیے۔بالی وڈ کے مشہور گلوکار سونونگم نے 2004 میں کراچی کا ایک دورہ کیا تھا اور ایک کنسرٹ بھی کیا ۔ جیو ٹی وی کے اہتمام سے ان کا ایک انٹرویو ہوا تھا اور اگلے روز اداکار فیصل قاضی کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے رشدی کا مشہور گیت ’تمہیں کیسے بتا دوں‘ گنگنایا تھا اور ساتھ ہی کہا تھا کہ یہ گانے ہمیں وہاں سننے کو نہیں ملتے اس لیے یہاں ہی سُن کر گایا ہے۔فلموں میں نوے کی دہائی میں ہر قسم کے گیت گانے والے تحسین جاوید احمد رشدی کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ اسی کی دہائی میں وہ ’رشدی بھائی‘ کو ساتھ لیے موٹر بائیک پر گھوما کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’رشدی بھائی نے میرے ابتدائی دنوں میں مجھے کافی سراہا اور خاص کر جب میں کشور کمار کا گیت ’مائی نیم از انتھونی گونزیلوس‘ گاتا تھا وہ بڑے محظوظ ہوتے تھے۔‘رشدی پر بُرا وقتاحمد رشدی پر بُرا وقت سنہ 1975 کے بعد آیا جب کراچی کی فلم انڈسٹری ختم ہونا شروع ہوئی۔ بُرا وقت تو محمد رفیع پر بھی آیا تھا مگر اُن کے وہی موسیقار جنھوں نے اُن کی گائیکی کی مدد سے اپنا مقام بنایا تھا، رفیع کو واپس لانے میں کامیاب ہوئے۔ مگر رشدی کے معاملے میں کہانی الٹی تھی۔لاہور میں ساٹھ کی دہائی کے بیشتر موسیقار یا تو فلمی میوزک چھوڑ کر ٹی وی کی طرف آ گئے تھے یا ریٹائر ہو گئے تھے۔ اس کے بعد جس نئی نسل کے ہاتھ موسیقی کا شعبہ آیا وہ ’سُن‘ کر متاثر ہونے پر زیادہ یقین رکھتے تھے۔ نئے سنگرز نے پرانوں کی جگہ لے لی اور رشدی بھی کراچی لوٹ آئے جہاں انھوں نے ٹی وی انڈسٹری میں جگہ بنانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ’یاماہا جاپانی‘ اور ’فوکسلور سگریٹ‘ کے اشتہاروں کے جنگلز بھی گائے۔یہ بات مشہور ہے کہ سنہ 1976 کی پاکستان، نیوزی لینڈ سیریز میں لوگ میچ سے زیادہ اُس وقت کا انتظار کرتے تھے جب رشدی کی آواز میں ’یاماہا جاپانی، ہار نہ اس نے مانی‘ کمرشل ٹی وی پر چلتا تھا۔طبیعت کی خرابی اور پے درپے ہارٹ اٹیکس نے انھیں گانے سے دور کر دیا۔ انھوں نے آخری دنوں میں میوزک ڈائریکٹر بننے کی کوشش بھی کی مگر صحت نے اجازت نہ دی۔ 10 اور 11 اپریل 1983 کی درمیانی شب، رشدی اُسی خاموشی سے وفات پا گئے جتنی خاموشی سے وہ 30 سال قبل ہجرت کر کے اس شہر میں آئے تھے۔اُن کا ریڈیو پر پہلا گیت ’بندر روڈ سے کیماڑی‘ تھا اور آخری ’آنے والوں سُنو، میرے پیارو سُنو، ہم نہ ہوں گے مگر ہو گی روح سفر‘ تھا۔رشدی کے قریبی دوست اور معروف کمپئیر معین اختر نے رشدی کی وفات پر اُن کی زندگی کو انھی کے گانے ’کیا پتہ زندگی کا، کیا بھروسہ ہے کسی کا، دل نثار کیے جا، سب سے پیار کیے جا، پیار ہی کام ہے آدمی کا‘ سے مماثلت دی تھی۔’لیڈی کِلر‘ اور ’چاکلیٹی ہیرو‘ وحید مراد جو مولا جٹ کے بعد زوال سے سنبھل نہ سکےمحمد علی: پائلٹ بننے کا خواہشمند مذہبی گھرانے کا نوجوان ’شہنشاہِ جذبات‘ کیسے بنانذیر سے ندیم بیگ تک کا سفر: اسلامیہ کالج کراچی کا شرمیلا گریجویٹ، جو کرکٹ بھی اتنی ہی اچھی کھیلتا، جتنا اچھا وہ گاتا تھارفیع خاور ننھا، جن کی موت 37 سال بعد بھی ایک معمہ ہےعمر شریف: وہ فنکار جس کا جادو 14 برس کی عمر میں چل گیا تھاشبنم: اُردو سے نابلد بنگالی اداکارہ جو پاکستانی فلم انڈسٹری میں کامیابی کی ضمانت بنیں