
آپ نے بالی وُڈ کے سدا بہار ہیرو دھرمیندر کو بہت سی فلموں میں دیکھا ہو گا اور انہیں کامیڈی کرتے بھی دیکھا ہو گا جن میں سے بعضے میں وہ بہت پھوہڑ نظر آئے ہوں گے لیکن اگر بات فلم ’چپکے چپکے‘ کی کی جائے تو دھرمیندر نے امیتابھ بچن کو ان کی فلم ’نمک حلال‘ سے بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس فلم میں امیتابھ بچن بھی اپنی مزاحیہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت کا پہلی بار اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔فلم ’چپکے چپکے‘ نے کئی نسلوں کو تفریح کا سامان بہم پہنچایا ہے۔ لیکن اس کو چپکے چپکے 50 سال بیت گئے اور پتا بھی نہیں چلا۔ یوں لگتا ہے ابھی کل ہی کی تو بات ہے لیکن سچ پوچھیں تو یہ فلم آج سے 50 سال قبل آج ہی کے دن یعنی 11 اپریل 1975 کو پردۂ سیمیں پر آئی تھی اور اس نے اُس سال آنے والی ’شعلے‘ ، ’آندھی‘، ’موسم‘ اور ’دیوار‘ جیسی بڑی فلموں میں بھی اپنا حصہ وصول کیا۔تو آخر فلم ’چپکے چپکے‘ میں ایسا کیا خاص ہے جو آج بھی لوگوں کو بھرپور تفریح فراہم کر رہا ہے۔اس میں دھرمیندر، امیتابھ بچن، اسرانی اور جیا بہادری کی کئی فلموں میں نظر آنے والی جوڑی موجود ہے جبکہ اس میں اضافہ اداکارہ شرمیلا ٹیگور اور اوم پرکاش ہیں۔ اوم پرکاش اپنی کامیڈی اور کامک ٹائمنگ کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن اس فلم میں اداکار دھرمیندر نے ان کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔رشیکیش مکھر جی کی فلمیں یوں تو بہت سادہ کہانی پر مبنی ہوتی ہیں لیکن وہ دراصل بہت ہی حسب حال ہوتی ہیں۔ انڈیا کی سرکردہ فلم نقاد سمپدا شرما نے لکھا ہے کہ رشیکیش مکھرجی نے ’اینگری ینگ مین‘ کے دور میں ایک ایسی فلم دی جسے بہت سے لوگ آج بھول گئے ہیں۔جہاں آج پٹھان، جوان، پشپا، کے ایف جی اور آر آر آر جیسی فلمیں کامیابی کا بنچ مارک سمجھی جاتی ہیں وہیں ’چپکے چپکے‘ اور ’انداز اپنا اپنا‘ نے ایک توازن برقرار رکھا ہے اور انڈین فلم انڈسٹری کو تنوع بخشا ہے۔فلم ’چپکے چپکے‘ کی کہانی بہت معمولی ہے لیکن اس میں کچھ موضوعات ایسے ہیں جو ہمیشہ سے سماج کا حصہ رہے ہیں۔ جن میں ایک جیجا-سالی یعنی بہنوئی اور سالی کا رشتہ ہے، ایک محبت کی شادی ہے اور ایک زبان کے خالص ہونے کی بحث ہے۔ااس فلم میں دھرمیندر، امیتابھ بچن، اسرانی اور جیا بہادری کی کئی فلموں میں نظر آنے والی جوڑی موجود ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)چنانچہ جیجا سالی پر ہم متعدد فلمیں دیکھتے ہیں اسی طرح کردار کے بدلنے پر ہمیں کافی فلمیں نظر آتی ہیں جبکہ ’ہندی میڈیم‘ اور ’انگلش ونگلش‘ جیسی فلمیں زبان کے مسئلے سے نمٹتی نظر آتی ہیں۔ ’چپکے چپکے‘ میں سب کچھ چپکے چپکے ہوتا ہے لیکن اس کی بازگشت یا گونج بہت زور سے دیر تک سنائی دیتی ہے۔فلم میں باٹنی یا علم نباتات کے ایک پروفیسر پریمل داس یعنی دھرمیندر ہیں جن کی کتابیں نصاب کا حصہ ہیں اور وہ نوجوان اور خوبصورت پروفیسر ہیں جو ایک گیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر ہیں۔ وہاں کے بوڑھے مالی اور رکھوالے کو انہوں نے چھٹی دے دی ہے تاکہ وہ گاؤں جا کر اپنا کام نمٹا سکے۔ وہ ان کی جگہ مالی کا کام کر رہے ہیں جبکہ اسی دوران کالج کی طالبات کا ایک گروپ تعلیمی سفر پر وہاں پہنچتا ہے جس میں باٹنی کی طالبات بھی ہوتی ہیں۔ ان طالبات میں ایک سولیکھا دیوی بھی ہیں جن کا کردار اداکارہ شرمیلا ٹیگور نے ادا کیا ہے۔طالبات پروفیسر صاحب کو مالی جان کر ان سے اسی طرح کا سلوک کرتی ہیں اور ان سے اپنا کام کرواتی ہیں لیکن جب سولیکھا دیوی وہاں پریمل داس کی کتاب دیکھتی ہیں تو وہ مالی سے پوچھتی ہیں کہ کیا وہ پریمل داس کو جانتے ہیں تو دھرمیندر جو کہ اس وقت مالی کے کردار میں ہیں از راہ تفنن ان سے کہتے ہیں کہ ’سنا ہے کہ وہ کوئی گھاس پھوس کے ڈاکٹر ہیں‘ جس پر سوریکھا مالی اس کو سخت و سست کہتی ہیں۔مالی کی وجاہت سے وہ متاثر ہو جاتی ہیں لیکن جب اصل مالی آتا ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ دراصل دھرمیندر ہی پروفیسر پریمل ہیں تو محبت پروان چڑھتی ہے اور دونوں بغیر کسی خاندانی تقریب کے شادی کر لیتے ہیں۔دھرمیندر کو الٰہ آباد کے کسی کالج کا پروفیسر بتایا گيا ہے۔فلم میں پروفیسر پریمل عرف دھرمیندر عرف پیارے موہن اپنا تعارف پیارے موہن الٰہ آبادی کے طور پر کراتے ہیں اور اپنا پیشہ ’واہن چالک‘ یعنی ڈرائیور بتاتے ہیں۔ (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)شادی سے پہلے اور شادی کے بعد ہر بات میں سولیکھا دیوی اپنے بہنوئی راگھویندر شرما کی ذہانت اور ان کی تعلیم کی بہت تعریف کرتی ہیں بلکہ ان کی گرویدہ نظر آتی ہیں۔ اس پر دھرمیندر کو رشک کے ساتھ حسد کا احساس ہوتا ہے اور وہ راگھویندر شرما (یہ کردار اوم پرکاش نے ادا کیا ہے) کا بلبلہ پھوڑنے کے لیے ڈرائیور بن کر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔سولیکھا کا کہنا ہے کہ ان کے جیجا لوگوں کی بو سونگھ کر انہیں پہچان جاتے ہیں تو ان کے اسی مردم شناسی کے ہنر کو آزمانے کے لیے پروفیسر پریمل پیارے موہن ڈرائیور بن کر الٰہ آباد (اب پریاگ راج ہے) سے بمبئی (اب ممبئی ہے) پہنچ جاتے ہیں۔سولیکھا کی معرفت پروفیسر صاحب کو پتہ چلتا ہے کہ جناب راگھویندر صاحب شدھ (خالص) ہندی کے مداح ہیں اور انگریزی زبان سے انہیں خاصی چڑھ ہے۔پھر کیا ہے کہ اسی کشمکش میں دونوں زبانوں کی بھد پٹ جاتی ہے۔ پروفیسر پریمل عرف دھرمیندر عرف پیارے موہن اپنا تعارف پیارے موہن الٰہ آبادی کے طور پر کراتے ہیں اور اپنا پیشہ ’واہن چالک‘ یعنی ڈرائیور بتاتے ہیں۔پروفیسر پریمل کا پورا گروپ مل کر اوم پرکاش کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس میں ان کے بمبئی کے دوست اسرانی اور ان کی سالی جیا بہادری بھی بعد میں شامل ہو جاتے ہیں جبکہ امیتابھ بچن جو سوکمار سنہا ہیں اور انگریزی کے پروفیسر ہیں، وہ پریمل بن کر بمبئی پہنچتے ہیں لیکن اسرانی کے گھر ٹھہرتے ہیں۔اس دوران سوریکھا پیارے موہن ڈرائیور کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں اور اوم پرکاش اپنی عزت بچانے کے لیے اسرانی سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے دوست کو اپنے گھر ہی لے جائيں، جہاں اسرانی کی سالی جیا بہادری یہ جان کر کہ وہ باٹنی کے پروفیسر ہیں، ان سے باٹنی پڑھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن مسٹر کمار یا امیتابھ بچن تو ادب کے پروفیسر جن کا باٹنی کے ’بی‘ سے بھی تعلق نہیں، انہیں محبت کا سبق پڑھانے لگتے ہیں کیونکہ وہ اپنا دل ہار بیٹھتے ہیں جبکہ انہیں جیا بہادری یعنی وسودھا شادی شدہ سمجھتی ہیں اور اپنی جانب ان کے رویے کو ان کی بدکرداری سمجھتی ہیں۔فلم کے آخر میں دھرمیندر نے زبان کا مذاق اڑانے پر معافی بھی مانگی ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)یہی حال اسرانی کی اہلیہ کا بھی ہے لیکن جب وسودھا کو اصلیت کا علم ہو جاتا ہے تو وہ بھی ان کی جانب مائل ہو جاتی ہیں۔ادھر دھرمیندر نے اپنی ہندی سے جیجا جی کے ناک میں دم کر رکھا ہے اور وہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’یہ شکل و صورت سے ڈرائیور نہیں کسی فلم کا ہیرو لگتا ہے‘ لیکن وہ اخیر تک یہ نہیں جان پاتے کہ ان کے ساتھ بہت بڑا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔بہرحال رشی کیش مکھرجی کی ہدایت اور گلزار کی سکرپٹ نے وہ جادو جگایا ہے جو آج تک فلم بینوں کو ہنسنے پر مجبور کرتا ہے اور شاید ہی کوئی ایسا ناظر ہو جسے یہ فلم پسند نہ آئی ہو۔ اس میں مزاحیہ کردار ادا کرنے والے کیشٹو مکھرجی بھی ہیں لیکن دھرمیندر ان پر بھی بھاری نظر آتے ہیں۔اگرچہ فلم کے آخر میں دھرمیندر نے زبان کا مذاق اڑانے پر معافی بھی مانگی ہے لیکن رشیکیش مکھرجی جو بات کہنا چاہتے تھے وہ کہہ گئے ہیں۔ یہ شیکسپیئر کے معروف ڈرامے کامیڈی آف ایررز سے متاثر نظر آتی ہے اور دھرمیندر اپنی وجاہت کے شباب پر نظر آتے ہیں۔فلم میں گیت زیادہ نہیں ہیں لیکن سارے گیت بہت مشہور ہوئے جن میں ’چپکے چپکے چلے رے پرویا‘ اور 'اب کے برس ساون میں۔۔۔‘ بے حد مقبول ہوئے۔فلم ’چپکے چپکے‘ کی کہانی بہت معمولی ہے لیکن اس میں کچھ موضوعات ایسے ہیں جو ہمیشہ سے سماج کا حصہ رہے ہیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)معروف فلمی نقاد ضیاء السلام نے دی ہندو اخبار میں فلم کے بارے میں لکھا کہ رشیکیش مکھرجی نے دھرمیندر اور امیتابھ کی مزاحیہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں’رشیکیش مکھرجی عام فلم ساز نہیں تھے۔ انہوں نے دھرمیندر اور امیتابھ کی امیج سے آگے بڑھ کر کئی فلمیں کیں اور ان دونوں کی مزاحیہ صلاحیتوں کو استعمال کیا۔‘انہوں نے مزید لکھا ’چپکے چپکے ایک ایسی فلم کی بہترین مثال ہے جہاں آپ تقریباً تمام راستے مسکراتے ہیں۔ کوئی بھی اپنا پاجاما نہیں گراتا۔ کیلے کے چھلکے پر کوئی نہیں پھسلتا۔ کوئی بھی طعنوں اور طنز میں ملوث نہیں ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی فلم ہے مزاح جس کی شہ رگ ہے۔ اس کے ہندی-انگریزی مقابلے شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں، اس کے ون لائنرز لازوال ہیں۔‘