
حالیہ کچھ عرصے سے کوئٹہ میں پراپرٹی کے شعبے کو بحران کا سامنا ہے۔ زمینوں کی قیمتوں میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی ہے جس کے باعث سرمایہ کاروں کے کروڑوں روپے ڈوب چکے ہیں۔پراپرٹی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ جائیداد کی منتقلی پر حکومتی ٹیکسز، امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور حالیہ دنوں میں افغان پناہ گزینوں کے انخلا نے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔پراپرٹی ڈیلرز اینڈ بلڈرز ایسوسی ایشن کے صدر امیر حمزہ نے بتایا کہ صوبے میں بدامنی نے نہ صرف پراپرٹی بلکہ دیگر تمام کاروباری شعبوں کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔ان کے مطابق ’پہلے شہریوں نے کوئٹہ کے بجائے ملک کے دیگر پُرامن شہروں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینا شروع کی، پھر اکتوبر 2024 میں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کی جانب سے ٹیکسز میں اضافے نے صورتحال کو مزید خراب کیا۔ اب افغان پناہ گزینوں کے انخلا نے پراپرٹی مارکیٹ کی رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں 40 سے 50 فیصد تک کمی آ چکی ہے۔ پراپرٹی ڈیلر احتشام الحق بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے مارکیٹ میں مندی کا رجحان ہے جس کے باعث شہر کی اہم ہاؤسنگ سکیموں میں پلاٹوں کی قیمتوں میں 30 سے 40 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔امیر حمزہ نے بتایا کہ جہاں پہلے پلاٹ کی قیمت چھ ہزار روپے فی مربع فٹ تھی وہاں اب یہی قیمت 3500 روپے فی مربع فٹ تک گر چکی ہے۔ ’شہر کے مرکزی علاقوں پر اتنا اثر نہیں پڑا، البتہ وہ نواحی علاقے جہاں افغان پناہ گزینوں دہائیوں سے آباد تھے، سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ نواحی علاقوں میں ایک کروڑ روپے مالیت کا مکان اب 60 لاکھ میں بھی فروخت نہیں ہو رہا۔‘اینٹ بھٹہ مالک لیاقت علی کے مطابق اینٹ، سیمنٹ، سریا اور دیگر تعمیراتی مواد کی طلب بھی کم ہوئی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے بتایا کہ لوگ بالخصوص افغان پناہ گزینوں اپنی جائیدادیں فروخت کرنا چاہتے ہیں، مگر انہیں مناسب خریدار نہیں مل رہے۔ خریداروں کی کمی نے مارکیٹ کو جمود کا شکار بنا دیا ہے۔ پراپرٹی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ پراپرٹی مارکیٹ کی سست روی سے نہ صرف خریدو فروخت رکی ہے، بلکہ اس سے منسلک تعمیراتی صنعتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔اینٹ بھٹہ مالک لیاقت علی نے بتایا کہ ’تعمیراتی سرگرمیوں میں نمایاں کمی کے باعث اینٹ، سیمنٹ، سریا اور دیگر تعمیراتی مواد کی طلب بھی کم ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سردیوں کے خاتمے کے باوجود کئی بھٹہ مالکان نے اپنی بھٹیاں دوبارہ بحال نہیں کیں۔‘