
"میں حیدرآباد سے ہوں۔ بچپن سادہ نہیں تھا۔ والد بہت جلدی دنیا سے چلے گئے تھے، پھر ایک رشتہ دار نے پالا جنھیں میں اماں کہتی تھی۔ وہی میرا گھر، وہی میرا خاندان تھا۔ جب میں بڑی ہوئی اور واپس اپنی ماں کے پاس آئی تو مجھے ایک نئے ماحول میں ڈھلنا پڑا۔ آٹھویں جماعت تک میں بہت لاپرواہ طالبہ تھی کیونکہ جس گھر میں پلی بڑھی وہاں مجھے شہزادی کی طرح رکھا جاتا تھا، لیکن اس کے بعد میں نے خود کو بدلا، پڑھائی میں سنجیدہ ہوئی اور پھر زندگی نے مجھے آگے بڑھنے کے راستے دیے۔"
حال ہی میں نشر ہونے والے ڈرامے "پامال" سمیت "پیار کے صدقے"، "بسمِل"، "نور جہاں" اور "شہر" جیسے کامیاب ڈرامے لکھنے والی زنجبیل عاصم شاہ نے اپنی زندگی کے وہ پہلو کھول کر رکھ دیے جن کے بارے میں شائقین زیادہ نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا سفر محض نام اور کامیابی تک نہیں بلکہ کٹھن حالات، شخصی تعمیر اور حوصلے کی کہانی بھی ہے۔
"میری شادی 21 سال کی عمر میں ہوئی۔ اس وقت شاید سمجھ نہیں تھی کہ یہ عمر کتنی کم ہوتی ہے۔ میرا شوہر بہت محبت کرنے والا تھا۔ وہ میری زندگی میں اعتماد، تحفظ اور حوصلے کا ستون تھا۔ مگر بارہ سال بعد جب ہماری دو بیٹیاں تھیں، وہ کینسر میں مبتلا ہو گئے اور کچھ ہی عرصے میں دنیا سے چلے گئے۔ آخری دنوں میں انہوں نے مجھے دنیا کا سامنا کرنا سکھایا۔ گاڑی چلانا، گھر کے خرچے، جنریٹر ٹھیک کرنا، چیک لکھنا… سب وہ مجھے سکھا گئے۔ ایک دن میں گھر آئی اور بتایا کہ ایک ڈرائیور بدتمیزی سے دیکھ رہا تھا تو انہوں نے کہا: ‘واپس دیکھو۔ کبھی پیچھے نہ ہٹو۔’ انہوں نے سکھایا کہ کسی سے ڈرنا نہیں، خود کو کمزور نہیں سمجھنا۔"
بچپن میں والد کے سائے سے محرومی، پھر مختلف گھروں اور ماحول میں ڈھلنے کی جدوجہد… اور جب زندگی نے اُن کے قدم مضبوط کیے تو ازدواجی زندگی نے انہیں ایک اور سبق دیا۔ کم عمری میں شادی، محبت بھری زندگی، دو بیٹیاں، اور پھر اچانک شوہر کا کینسر سے لڑتے لڑتے دنیا سے رخصت ہو جانا۔ لیکن جدائی سے پہلے شوہر نے انہیں وہ ہمت، خود اعتمادی اور مضبوطی دی جو آج ان کے ہر لفظ اور ہر کامیابی میں جھلکتی ہے۔
زنجبیل نے بتایا کہ ان کے شوہر نے ہمیشہ کہا تھا کہ اپنے حق پر کھڑی رہو، پیچھے مت ہٹو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ڈرامے لکھتی ہیں تو ان کرداروں میں حقیقت، درد، رشتہ، ہمت اور خودداری دکھائی دیتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کہانی وہی ہوتی ہے جو دل سے نکلے، اور ان کی تحریروں میں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے زندگی کو صرف دیکھا نہیں، جیا ہے، برداشت کیا ہے اور اس سے سیکھا ہے۔
زنجبیل عاصم شاہ کی زندگی اس بات کی گواہی ہے کہ عورت اگر چاہے تو دکھ کو بھی طاقت بنا سکتی ہے۔ ان کا سفر مایوسی کے اندھیروں سے نکل کر روشنی تک پہنچنے کا ہے خاموش طاقت اور عزم کی ایک مثال۔
یہ گفتگو نہ صرف ان کے فن کی گہرائی بتاتی ہے بلکہ یہ بھی دکھاتی ہے کہ کامیاب کہانی کار وہی ہوتا ہے جس کی اپنی زندگی خود ایک داستان ہو۔