
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے خبردار کیا ہے کہ اگر سرحد پار سے حملے جاری رہے تو پاکستان ’افغانستان کے اندر گہرائی تک‘ کارروائی کر سکتا ہے۔ ادھر افغان طالبان کا الزام ہے کہ پاکستان، امریکی مفادات کو فائدہ پہنچانے کی نیت سے دانستہ طور پرکشیدگی بڑھا رہا ہے۔طالبان نواز سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی پاکستان مخالف پیغامات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ افغانستان کے جنوبی صوبے زابل میں ایک حالیہ فوجی پریڈ کے دوران چلائے گئے ایک طالبان ترانے میں یہ عہد کیا گیا کہ وہ ’اپنا سفید جھنڈا لاہور میں لہرائیں گے اور اسلام آباد کو جلا ڈالیں گے۔‘ یہ ویڈیو طالبان حامی اکاؤنٹس سے بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی، جسے ’مزاحمت کی علامت‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔جنوب مشرقی صوبے خوست سے طالبان کے نائب وزیرِ داخلہ محمد نبی عمری کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی ہے، جس میں انھیں ’گریٹر افغانستان‘ کا نقشہ وصول کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان آج استنبول میں ہونے والے مذاکرات سے قبل لفظوں کی جنگ اور آن لائن پروپیگنڈا مہمات شدت اختیار کر گئی ہیں، جس سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ آیا بات چیت کا یہ تیسرا راؤنڈ نتیجہ خیز بھی ثابت ہو گا یا نہیں؟دونوں ہمسائیہ ممالک کے بیچ گذشتہ ماہ ہونے والی غیر معمولی سرحدی جھڑپوں نے حالیہ کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس میں پاکستان کے افغانستان کے اندر فضائی حملے بھی شامل تھے، جن میں مبینہ طور پر کابل اور قندھار میں بعض علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ترکی اور قطر کی ثالثی میں دونوں فریقین نے اکتوبر کے آخر میں کئی روزہ مذاکرات کے بعد جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، تاہم اب دونوں جانب سخت لب و لہجے کے باعث یہ سیز فائر خطرے میں اور مذاکرات میں کسی معاہدے پر پہنچنا غیر یقینی نظر آ رہا ہے۔پاکستان کا دوٹوک مؤقفاسلام آباد نے طالبان انتظامیہ کے خلاف اپنا مؤقف مزید سخت کر لیا ہے اور سرحد پار عسکریت پسندی کے خلاف ’ویریفائیبل ایکشن‘ (قابلِ تصدیق کارروائی) کا مطالبہ کیا ہے۔3 نومبر کو پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کابل پر تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی سرزمین سے حملے رکوانا پاکستان کا ایک ایسا مطالبہ ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے حالیہ سرحدی کشیدگی کے دوران افغان طالبان کے 206 اور ٹی ٹی پی کے 110 ’دہشتگروں‘ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ ان کے مطابق سرحد پار دراندازی کی کوششوں میں ہلاک ہونے والوں میں 60 فیصد افغان شہری تھے۔انھوں نے ٹی ٹی پی کو ’افغان طالبان کی ایک شاخ‘ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ گروہ اپنے جنگجوؤں کو حملوں سے بچانے کے لیے آبادی والے علاقوں میں منتقل کر رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر مذاکرات سے مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پاکستان کارروائی کا حق رکھتا ہے اور کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔استنبول میں ہونے والے گذشتہ مذاکرات کے بعد وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان نے کابل سے تحریری ضمانتیں طلب کی تھیں کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو پاکستان میں حملے نہیں کریں گے، تاہم ایسی کوئی یقین دہانی تاحال موصول نہیں ہوئی۔طالبان کا پاکستان پر اشتعال انگیزی کا الزامدوسری جانب طالبان نے پاکستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ امریکی مفادات کے لیے دانستہ طور پر کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کے خیبر ٹی وی اور کابل کے طلوع نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اسلام آباد کے فضائی حملے اور دھمکیاں ’افغانستان میں بحران پیدا کرنے کے ایک منصوبے‘ کا حصہ ہیں، تاکہ امریکہ کی بگرام ایئربیس پر واپسی کی راہ ہموار کی جا سکے۔یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند ہفتے قبل دعویٰ کیا تھا کہ واشنگٹن کابل کے شمال میں واقع اس اہم فضائی اڈے تک دوبارہ رسائی حاصل کرنے پر غور کر رہا ہے۔طالبان کے حمایتی آن لائن پلیٹ فارمز پر پاکستان کے خلاف تنقیدی مواد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق یہ آن لائن پراپیگنڈا مہمات بظاہر پاکستان کے ایک وائرل گانے ’نمک حرام‘ کے ردِعمل میں سامنے آئی ہیں جو گذشتہ ماہ جاری ہوا تھا۔ اس گانے میں افغان طالبان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے پاکستان کی دہائیوں پر محیط حمایت اور افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کا بدلہ ’غداری‘ سے دیا ہے۔اس بیان بازی، الزامات، بداعتمادی اور آن لائن پروپیگیڈا مہمات کے ماحول میں سوال یہ ہے کہ آخر آج کے مذاکرات سے کوئی عملی نتیجہ نکلے گا یا نہیں؟ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت کس نکتے پر رکی ہوئی ہے؟ پاکستان تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوالے سے افغانستان سے کیا توقع رکھتا ہے اور افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں گریزاں ہیں؟بات چیت آگے کیوں نہیں بڑھ پا رہی؟افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار اور خراسان ڈائری سے منسلک سینئیر صحافی افتخار فردوس کے مطابق پات چیت ٹی ٹی پی کے مسئلے پر اٹکی ہوئی ہے۔بی بی سی بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستانکا مطالبہ ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف ایسی قابلِ تصدیق کارروائی کریں جو واضح طور پر نظر آئے اور محض بیانات تک محدود نہ ہو۔۔‘ اور اس مطالبے کے تین پہلو ہیں:افغان طالبان خود ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریںاگر یہ ممکن نہ ہو اور افغان طالبان کہیں کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے تو اس صورت میں پاکستان کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی اجازت دی جائےاگر پہلے اور دوسرے پوائنٹ پر بھی اتفاق نہیں ہوتا تو افغان طالبان اور پاکستان مل کر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر اتفاق کریںافتخار فردوس کے مطابق افغان طالبان کا مؤقف یہ ہے کہ ’افغانستان ایک خودمختار ملک ہے اور ہماری سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔۔۔ پاکستان میں حملے 200-500 کلومیٹر اندر ہو رہے ہیں، ہم ان کے لیے کیسے ذمہ دار ہیں؟ یہ آپ کا اندرونی مسئلہ ہے، اپنے ملک کی سکیورٹی بہتر کریں۔‘افغان طالبان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے دوران انھوں نے کیسے اپنا دفاع کیا؟سکندر اعظم سے امریکی حملے تک: افغانستان ’سلطنتوں کا قبرستان‘ یا ’فتح کی شاہراہ‘؟استنبول مذاکرات ناکام: افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟پاکستان اور افغانستان کشیدگی: ’بے نتیجہ‘ مذاکرات کے بعد کیا معاملات ’کھلی جنگ‘ کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ افتخار فردوس کے مطابق دوسری جانب پاکستان کا موقف ہے کہ ’ٹی ٹی پی کی لاجسٹک سپلائی لائن، منصوبہ بندی اور قیادت نہ صرف آپ کے پاس بلکہ آپ کے کنٹرول میں ہے، آپ ان کے خلاف کارروائی کریں‘ اس کے جواب میں افغان طالبان کہتے ہیں ’ہمارے پاس ٹی ٹی پی نام کا کوئی گروہ ہے ہی نہیں، صرف مہاجرین ہیں جو ضربِ عزب جیسے فوجی آپریشینوں کے بعد سرحد پار کرکے یہاں آ بسے ہیں اور ہم انھیں مہاجرین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔‘افتخار فردوس کا ماننا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ’ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں موجود ہے‘ لیکن پاکستان کے اپنے ’سکیورٹی چیلینجز‘ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ’افغانستان میں پاکستان مخالف عناصر صرف تحریکِ طالبانِ پاکستان تک محدود نہیں، بلکہ بلوچ علیحدگی پسند عناصر بھی سرگرم ہیں۔‘ ’لہٰذا اسلام آباد مطالبہ کر رہا ہے کہ کابل ان عناصر کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائیاں کرے۔‘'جب تک افغان طالبان اس حقیقت سے انکاری ہیں کہ ٹی ٹی پی کی قیادت افعانستان میں ہے، آگے بڑھنا ممکن نہیں‘اس حوالے سے افغان امور اور سکیورٹی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے افغان صحافی اور تجزیہ کار تمیم باحث کا ماننا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین سب سے بڑی رکاوٹ افغان طالبان کا ’اس حقیقت سے انکار ہے کہ دہشت گرد گروہ افغانستان سے کارروائیاں کر رہے ہیں اور وہاں محفوظ ٹھکانے رکھتے ہیں۔‘بی بی سی بات کرتے ہوئے تمیم باحث کہتے ہیں کہ افغان طالبان بار بار یہی پالیسی دہرا رہے ہیں کہ ہم کسی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ’جب تک وہ اس بات سے انکاری رہیں گے، آگے بڑھنا ممکن نہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ افغان طالبان کو کم از کم عوامی سطح پر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا اور کچھ ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔مذاکرات میں رکاوٹوں کے متعلق مزید بات کرتے ہوئے تمیم باحث کہتے ہیں کہ دوسری چیز پاکستان کا ان گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ ہے۔ ’پاکستان کا رویہ حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ پاکستان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ وہ گروہ ہیں جنھوں نے طالبان کی بیعت کر رکھی ہے اور گذشتہ دو دہائیوں میں یہ افغان طالبان کے قریبی اتحادی رہے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ دونوں قریقین کے مطالبات کچھ حد تک غیر حقیقت پسندانہ ہیں اور اگر یہی رویہ برقرار رہا تو کوئی حل ملنا ناممکن ہے۔تمیم باحث دونوں ممالک کے حکام میں لفظوں کی جنگ اور عوامی سطح پر جاری پروپیگنڈا مہمات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مسائل کا حل تلاش کرے کے بجائے نفرت اور کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ وہ پچھلے کچھ سالوں میں پاکستان کے سول و فوجی حکام کے ٹی ٹی پی کے خلاف سخت کاروائیوں، گرفتاریوں اور انٹیلیجنس شیئرنگ جیسے بیانات کا حوالے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ افواہیں سننے کو مل رہی ہیں کہ بند دروازوں کے پیچھے طالبان نے کسی حد تک اسے قبول کر لیا ہے، لیکن عوامی بیان بھی اہمیت رکھتا ہے۔‘’افغان طالبان کے لیے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی، گرفتاریاں، یا انھیں کارروائیوں سے روکنا مشکل ہے کیونکہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ان کے تاریخی، ثقافتی اور نظریاتی تعلقات ہیں۔‘ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کا تعلقتمیم 1990 کی دہائی اور افغانستان میں موجود القاعدہ کی مثال دیتے ہیں: ’تب عرب ممالک کے لوگ افغانستان میں تھے اور انھیں ہمارے مہمان اور دوست سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت عرب غیر ملکی تھے، ان کی زبان، ثقافت اور نظریات طالبان سے مختلف تھے اور وہ اتنے قریبی نہیں تھے جتنے آج ٹی ٹی پی ہے، پھر بھی طالبان نے ان عربوں کے خلاف کارروائی یا انھیں حوالے کرنے سے انکار کیا۔‘’آج صورتحال پاکستان کے ساتھ تقریباً ویسی ہی ہے اور ٹی ٹی پی کے پاکستانی پشتون طالبان تو افغان طالبان کے زیادہ قریبی ہیں، اگر اُس وقت امریکہ جیسی طاقت کے مطالبے پر بھی طالبان نے عربوں کے خلاف کارروائی نہیں کی تو آج یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے قریبی ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے، حقیقیت پسندانہ نہیں ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’تاہم ایسی افواہیں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ افغان طالبان ممکنہ طور پر ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈال کر انھیں مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن عوامی سطح پر کارروائی نہیں کریں گے۔‘ اس سوال کے جواب میں کیا پاکستان کے مطالبات غیر منطقی ہیں؟ تمیم باحث کہتے ہیں کہ ’نہیں، اسلام آباد کے مطالبات جائز ہیں کیونکہ ان کی ملکی سکیورٹی، عوام کی حفاظت داؤ پر ہے اور ہر روز لوگ مر رہے ہیں۔‘ تاہم وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا رویہ کچھ حد تک غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر ہم پروکسیز کے ذریعے پروکسی کے ساتھ لڑتے ہیں۔ یہی طریقہ کار ہونا چاہیے۔ لیکن ابھی فرض کریں کہ افغان پروکسیز استعمال کر رہے ہیں، لیکن پاکستان پروکسی کے خلاف پروکسی کے ساتھ نہیں لڑ رہا۔ پاکستان براہِ راست تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے جو ایک نئی نوعیت کی زیادہ سخت یا ’ہیوی ہینڈڈ‘ اپروچ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’طالبان اس طرح کے رویے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ پاکستان میں شاید یہ رویہ لوگوں کو پسند آ رہا ہو لیکن افغانستان ایک مختلف ملک ہے، یہ بہت سی جنگوں سے گزرا ہے۔ اور پاکستانکو سمجھنا چاہیے کہ افغان طالبان کے لیے اس کے مطالبات قابلِ عمل نہیں ہیں۔‘Getty Imagesتمیم 1990 کی دہائی اور افغانستان میں موجود القاعدہ کی مثال دیتے ہیں: ’تب عرب ممالک کے لوگ افغانستان میں تھے اور انھیں مہمان اور دوست سمجھا جاتا تھا‘سرحدوں کی نگرانی اور حملوں کی تصدیق کا ’میکینزم‘گذشتہ جمعے کو ترکی اور قطر کی ثالثی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور کے اختتام پر میزبان ترکی کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ’تمام فریقین نے نگرانی اور تصدیق کا ایک ایسا ’میکینزم‘ (نظام) قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے جو امن کے قیام کو یقینی بنائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے فریق پر جرمانے عائد کرے گا۔‘افتخار فردوس کے مطابق آج بات چیت کا مرکز یہ ’میکینزم‘ ہو گا، کہ اسے قابلِ تصدیق کیسے بنایا جائے اور پاکستان، افغانستان، ترکی اور قطر کے علاوہ اور کون سے ممالک اس میں شامل ہوں۔اس ’میکینزم‘ کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے افتخار فردوس کہتے ہیں کہ:’میکینزم‘ یہ دیکھے گا کہ بارڈر کے اوپر سے تو پاکستان کے اندر کوئی موومنٹ نہیں ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ سب کو ’سرحد کی نگرانی کے ایک نظام‘ پر اتفاق کرنا ہو گا۔ اگر پاکستان میں یہ کسی بارڈر پوسٹ پر حملہ ہوتا ہے اور کوئی گروہ اس میں ملوث ہے تو اس کے متعلق انٹیلیجنس شئیرنگ کا نظام ہو گا اور پھر جس ملک سے یہ کارروائی ہوئی ہے، وہ ملک اس گروہ کے خلاف کارروائی کرنے کا ضامن ہو گاافتخار کے مطابق ابھی یہ زیرِ بحث ہے کہ ’قابلِ تصدیق کارروائی‘ سے کیا مراد ہو گی، جرمانے سے کیا مراد ہے اور اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ خلاف ورزی کرنے والے فریق پر جرمانہ عائد ہوتا ہے یا نہیں۔افتخار کے مطابق ترکی اور قطر نے ’شامی ماڈل‘ اپنانے کی تجویز دی ہے اور آج اسی پر بات ہو گی۔ ’شامی ماڈل‘ سے مراد وہ طریقۂ کار ہے جو شام میں متحارب گروہوں کے درمیان جنگ بندی اور مذاکرات کے لیے اپنایا گیا تھا۔ اس میں ترکی، روس اور ایران نے ضامن ممالک کا کردار ادا کیا تھا۔خیال رہے کہ شام میں مختلف ممالک کی افواج متحارب گروہوں یا سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کر رہی تھیں۔ بعد ازاں وہاں سیز فائر (جنگ بندی) کا ایک نظام قائم کیا گیا اور علاقوں کی تقسیم طے ہو گئی۔اسی ماڈل کے تحت یہ اصول وضع کیا گیا تھا کہ اگر کوئی فریق یہ دعویٰ کرے کہ اس کے علاقے میں کسی دوسرے گروہ نے حملہ کیا ہے، تو اس کے لیے ایک قابلِ تصدیق نظام ہونا چاہیے یعنی دعوے کے ساتھ انٹیلیجنس شواہد اور ٹھوس معلومات فراہم کی جائیں۔ مزید یہ کہ اگر اس نظام کے تحت یہ ثابت ہو جائے کہ کوئی گروہ واقعی ملوث تھا اور مخصوص علاقے سے حملہ کیا گیا ہے، تو اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔افتخار فردوس کا ماننا ہے کہ ’یہ الفاظ کی جنگ ہو گی۔۔۔ یعنی معاہدے کی زبان اور اصطلاحات پر اختلافات ہوں گے اور دونوں ممالک اپنی اپنی خودمختاری کے تقاضوں کے مطابق الفاظ پر زور دیں گے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’چونکہ طالبان ایک ہی چھتری کے تحت کام کرتے ہیں، اس لیے اس پر بھی بات ہو گی کہ پاکستانی طالبان اور افغان طالبان میں کس طرح تفریق کی جائے۔ اور القاعدہ اور داعش جیسے دیگر گروہوں کی شناخت اور درجہ بندی پر بھی گفتگو ہو گی۔‘افتخار کے مطابق پاکستان چاہتا ہے کہ افغان طالبان، پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے ’تمام عناصر سے باضابطہ اور اعلانیہ لاتعلقی‘ کا اعلان کرے۔Getty Imagesمذاکرات کی کامیابی کا کتنا امکان ہے؟افتخار فردوس کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم نظریاتی طور پر افغانستان کی ریاست کو دیکھیں اور جس طرح انھوں نے اپنے آپ کو امارات کے نظام کے تحت تشکیل دیا ہے، اس میں یہ مطالبہ کرنا کہ افغان طالبان اُن گروہوں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے ان کی بیعت کر رکھی ہے یا جو ان کے حمایتی ہیں، یہ ایسے ہی ہے کہ ’افغان طالبان کو کہنا کہ آپ اپنے خلاف ایکشن لیں۔‘‘انھوں نے کہا کہ ’اگر ان مذاکرات میں کوئی بریک تھرو ہو گیا تو میرے لیے یہ بہت حیران کن بات ہوگی کہ افغان طالبان اس پر راضی ہو گئے ہیں۔‘تاہم، ان کے مطابق الفاظ کے کھیل میں یہ ممکن ہے کہ ترکی اور قطر جیسی علاقائی طاقتیں ایک طویل جنگ بندی چاہیں گی تاکہ سرحد پر جتنا ممکن ہو سکے، کشیدگی کو روکا جا سکے۔افتخار کا کہنا ہے کہ ’مستقبل قریب میں مجھے نہیں لگتا کہ یہ گروہ حملے بند کریں گے، اس لیے تکنیکی طور پر یہ معاہدہ طویل مدت تک مؤثر رہنے والا دکھائی نہیں دیتا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں جانب سے جو بیانات آ رہے ہیں، اُنھیں دو طرح سے سمجھا جا سکتا ہے: ایک یہ کہ دونوں ممالک کو ’مذاکرات پر کوئی اعتبار نہیں‘ اور وہ جانتے ہیں کہ ’بالآخر ان کا ٹکراؤ لازم ہے‘، یا پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے قبل ’دونوں فریق ایک دوسرے پر دباؤ بڑھانے کی کوشش‘ کر رہے ہیں تاکہ دوسرا اُن کے مؤقف کو تسلیم کرے۔لفاظی جنگ اور بداعتمادی کے ماحول میں مسائل کے حل کے حوالے سے تمیم باحث کہتے ہیں کہ ’جب تک آپ عوامی سطح پر کسی حقیقیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، مسئلے کا حل نکالنے کی بات کیسے کر سکتے ہیں؟‘تمیم باحث کا کہنا ہے کہ ’مکمل حل کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک عوامی سطح پر بیانات میں تبدیلی لائیں، جھگڑوں اور دھمکیوں کی بجائے مذاکرات کی سمت اپنائیں اور سمجھوتہ کریں کیونکہ حالیہ بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں ممالک اپنی عوام کو ایک اور جنگ کے لیے تیار کر رہے ہیں اور یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔‘’افغان طالبان کے ساتھ یہ کام نہیں کرے گا، کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں انھوں نے پوری دنیا کو شکست دی ہے۔ وہ غرور سے بھرے ہوئے ہیں، وہ سوچ رہے ہیں کہ ہمنے امریکہ جیسے طاقتور ملک کو شکست دی اور یہ (پاکستان) تو امریکہ بھی نہیں ہے۔‘ان کے مطابق ’طالبان حکومت ممکنہ طور پر ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستان کی خواہشات کے مطابق کارروائی نہیں کرے گی، اس لیے مذاکرات کے لیے ایک نیا اور عملی طریقہ اپنانا ضروری ہے۔‘ ’اسی طرح، پاکستان کو بھی اپنی سخت پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہوگی کیونکہ موجودہ رویہ افغان طالبان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ عسکری اور سکیورٹی کے مسائل راتوں رات حل نہیں کیے جا سکتے اور یہ توقع رکھنا کہ افغان طالبان فوری طور پر تمام مطالبات پورے کریں، حقیقت پسندانہ نہیں۔‘افغان طالبان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے دوران انھوں نے کیسے اپنا دفاع کیا؟سکندر اعظم سے امریکی حملے تک: افغانستان ’سلطنتوں کا قبرستان‘ یا ’فتح کی شاہراہ‘؟استنبول مذاکرات ناکام: افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟پاکستان اور افغانستان کشیدگی: ’بے نتیجہ‘ مذاکرات کے بعد کیا معاملات ’کھلی جنگ‘ کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ ’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟افغانستان میں متعدد پاکستانی شہری ہلاک: ’مرنے والے سپین بولدک مزدوری کرنے جاتے تھے‘ مزدور تنظیم کا دعویٰ