بلوچستان کے پشتون اکثریتی اضلاع میں قبائلی جرگوں نے امن و امان کے قیام کے لیے قبائلی لشکر تشکیل دینے کا عندیہ دیا ہے۔ جرگوں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ علاقوں اور اضلاع کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو بدامنی پھیلانے والے عناصر کا راستہ قبائلی اور عوامی طاقت سے روکے گی۔بلوچستان کے پشتون اکثریتی اضلاع میں دہشت گردی اور بدامنی کے مسلسل واقعات کے بعد پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (میپ) کی جانب سے جرگوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔جرگوں کی سربراہی قبائلی رہنما نواب ایاز خان جوگیزئی کر رہے ہیں جو سابق سینیٹر، سابق صوبائی وزیر اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیئر رہنما بھی ہیں۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، مختلف قبائل کی سرکردہ شخصیات اور عمائدین نے بھی ان جرگوں میں شرکت کی۔جرگوں کی سربراہی کرنے والے نواب ایاز خان جوگیزئی کا کہنا ہے کہ حکومت امن وامان کے قیام میں ناکام ہو چکی ہے، مزدوروں اور نہتے لوگوں سمیت کسی کی جان و مال محفوظ نہیں، پشتون علاقوں پر نئی جنگ مسلط کی جا رہی ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم نے عوام کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قبائلی جرگوں کا انعقاد اس سلسلے کی کڑی ہے۔پشتونخوا میپ کے سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال کے مطابق جرگوں کے انعقاد کا مقصد پشتون اکثریتی اضلاع میں امن وامان سمیت دوسرے مسائل کے حل کا راستہ ڈھونڈنا ہے۔ پہلے مرحلے میں ڈویژن کی سطح پر جرگے منعقد کیے جا رہے ہیں۔ 10 اور 11 نومبر کو لورالائی جبکہ 24 اور25 نومبر کو ژوب میں جرگہ منعقد کیا گیا۔ اگلے مرحلے میں سبی ڈویژن اور پھر کوئٹہ میں جرگہ بلایا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ لورالائی ڈویژن کے جرگے میں لورالائی، موسیٰ خیل، درگ، دکی، لونی، چمالنگ، راڑہ شم، میخترکنگری، بارکھان اور ملحقہ علاقوں کے معتبرین مختلف قبائل کے سرداروں، ملکوں اور عمائدین جبکہ اس کے بعد ہونے والے جرگے میں ژوب کے علاوہ شیرانی اور قلعہ سیف اللہ کے عمائدین بھی شریک ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ جرگوں میں سیاسی وابستگی کی تفریق کے بغیر پشتونوں کے تمام مکاتب فکر کے لوگوں، سرداروں، قبائلی عمائدین اور ایسے سیاسی رہنماؤں کو دعوت دی جا رہی ہے جن کا اپنے علاقوں میں اثرو رسوخ ہے اور عوام ان کی بات سنتی ہے۔عبدالرحیم زیارتوال کے مطابق بلوچستان کے پشتون اکثریتی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال دن بدن خراب ہو رہی ہے، کسی کی جان و مال محفوظ نہیں، راڑہ شم میں 20 22 مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا، مقامی لوگوں کی گاڑیوں کو جلایا گیا اور پھر دکی میں کوئلے کی کان کے 20 مزدوروں کو قتل کیا گیا، زیارت اور ہرنائی میں آئے روز کوئلہ کے ٹرکوں کو جلایا جا رہا ہے۔جرگوں کی سربراہی کرنے والے نواب ایاز خان جوگیزئی کا کہنا ہے کہ حکومت امن وامان کے قیام میں ناکام ہو چکی ہے۔ (فوٹو: پشتونخوا میپ)ان کا کہنا تھا کہ ’آج تک ان واقعات کے مجرموں کا پتہ چل سکا اور نہ کسی کو پکڑا گیا ہے۔ دہشت گرد گھنٹوں تک کارروائی کرتے رہتے ہیں اور اطلاع پانے کے 10 گھنٹے بعد بھی سکیورٹی فورسز نہیں پہنچتیں، تو لوگوں کے ذہنوں میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا حکومت میں اس صورتحال کو روکنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں یا پھر وہ سہولت کار بنی ہوئی ہے، دونوں صورتوں میں حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔‘’ایسی صورتحال میں جب حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی تو ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے، عوام اور قبائل مجبور ہیں کہ اپنا دفاع خود کریں اور لوگ اپنا دفاع خود کر سکتے ہیں۔‘پشتونخوا میپ کے سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال نے مزید کہا کہ ’سرکار یہ اعتراف کرے کہ ہم ناکام ہو چکے ہیں اور اپنے وسائل جرگوں کے حوالے کریں تاکہ وہ خود قومی شاہراہوں اور شہروں میں امن کی ذمہ داری سنبھال لیں۔‘’جرگوں میں طے ہوا ہے کہ ہر قبیلہ اپنا سلویشتی (کمیٹی) بنائے گی جو اپنے علاقے میں مشکوک افراد اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھے گی اور ضرورت پڑنے پر ان کے خلاف ہر ممکن قوت کا استعمال کیا جائے گا۔‘خیال رہے کہ سلویشتی (40 افراد کی کمیٹی) کی اصطلاح پشتون قبائلی نظام میں رضا کاروں کی ایسی کمیٹی یا پھر لشکر کو کہا جاتا ہے جسے قبائلی مشران (عمائدین) کا جرگہ کسی مخصوص مقصد کے لیے تشکیل دیتا ہے۔شیرانی سے تعلق رکھنے والے صحافی حفیظ اللہ شیرانی کے مطابق سلویشتی میں ہر گھر سے ایک ایک فرد کو شامل کیا جاتا ہے اور پھر ان رضا کاروں کو اکٹھا کر کے کوئی اجتماعی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔نواب ایاز خان جوگیزئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے، ہم پر دہشت گردی مسلط کی جا رہی ہے۔ خطے میں ایک نئے طوفان کے گہرے اثرات نظرآ رہے ہیں، ان خطرات کا مقابلہ کوئی قبیلہ یا سیاسی جماعت اکیلے نہیں کرسکتی۔ اس لیے ہم نے تمام قبائل اور جماعتوں کو اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘عبدالرحیم زیارتوال کے مطابق جرگوں کے انعقاد کا مقصد پشتون اکثریتی اضلاع میں امن وامان سمیت دوسرے مسائل کے حل کا راستہ ڈھونڈنا ہے۔ (فوٹو:پشتونخوا میپ)انہوں نے کہا کہ ’علاقے اور قبیلے کی سطح پر سلویشتی بنانے کا فیصلہ ہوا ہے ہم اپنا تحفظ خود کریں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تفریق نہیں ہو رہی کہ کون دہشت گرد ہیں اور کون نہیں۔ وردیوں میں بھی دہشت گرد پکڑے گئے ہیں، عوام تذبذب کا شکار ہیں اس لیے ہم نے مقامی سطح پر جرگے اور کمیٹیاں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘نواب ایاز جوگیزئی کے مطابق ہم عوام کو متحرک کر رہے ہیں کہ وہ اپنے علاقے اور اجنبیوں پر نظر رکھیں۔ ہر نئے آنے والے سے پوچھیں کہ کون ہو، کیوں آئے ہو تمہارا مقصد کیا ہے۔جرگے میں شریک سردار عزیز اللہ کبزئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جرگے میں قبائلی تنازعات کے حل کے لیے بھی کوششوں پر اتفاق ہوا ہے کیونکہ اتفاق کے بغیر ہم کسی ظلم و بربریت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں قبائل نے ریاست اور حکومت کے ساتھ جنگوں میں تعاون کیا ہے، اب بھی قبائل حکومتی رٹ کو چیلنج نہیں کرنا چاہتے لیکن بعض مسائل میں حکومت ناکام نظر آتی ہے۔ ہم اپنے علاقے کے امن اور وسائل کے تحفظ کے لیے جرگوں کے فیصلے کی تائید کرتے ہیں۔