
بلوچستان کے ضلع کچھی (بولان) میں مسافر ٹرین پر حملے کے بعد جوابی کارروائی اور مغویوں کی بازیابی کے لیے جاری آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے۔ حکام نے 33 حملہ آوروں اور 21 مسافروں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ٹرین میں 400 سے زائد مسافر سوار تھے جن میں سے 300 کے لگ بھگ مسافروں کو جائے وقوعہ سے قریبی شہر مچھ اور کوئٹہ پہنچایا دیا گیا ہے۔بازیاب ہونے والوں میں 30 سے زائد مسافر زخمی بھی ہیں جنہیں مچھ کے ریلوے سٹیشن پر ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد ایمبولینسز کے ذریعے کوئٹہ کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا۔یرغمالی مسافروں میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی سے پہلے ہی بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں۔ان میں سے 11 مسافروں کو ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کے دفتر میں لایا گیا جہاں انہوں نے میڈیا سے بات کی۔’ہم 20 لوگ تھے صرف تین زندہ بچے‘گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے نعمان احمد نے اردونیوز کو بتایا کہ وہ کابل میں کام کرتے تھے اور وہاں سے چھٹیوں پر واپس اپنے گھر جا رہے تھے۔ان کے مطابق ’ہم 20 لوگ ایک ساتھ جا رہے تھے جس میں سے صرف تین لوگ ہی زندہ بچے، باقی 17 کو مار دیا گیا۔‘انہوں نے بتایا کہ ’میں برتھ پر تھا جب فائرنگ شروع ہوئی کچھ مسافروں کو گولیاں لگیں۔‘نعمان کے مطابق ’ٹرین رکی تو ہم بوگیوں کے دروازے بند کر لیے لیکن حملہ آوروں نے دھمکی دی کہ اگر باہر نہ نکلے تو بوگی کو راکٹ لانچر سے اڑا دیں گے۔‘بازیاب ہونے والوں میں 30 سے زائد مسافر زخمی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے بہت بے رحمی کا مظاہرہ کیا۔ کچھ زخمی مسافر بوگیوں سے باہر نہیں نکل سکے تو حملہ آور اندر گئے اور انہیں وہیں گولی مار دی۔ان کے بقول ’باقیوں کو ایک طرف لے جا کر کہا کہ آپ کو کتنی بار کہا ہے کہ اس علاقے سے نہ گزرا کریں، اب آپ کو پتہ چلے گا۔‘نعمان نے بتایا کہ ’ہم کابل سے طورخم سرحد کے ذریعے پنجاب میں اپنے آبائی علاقے جانا چاہتے تھے مگر وہاں حالات خراب ہونے کی وجہ سے سرحد بند تھی اس لیے مجبوراً چمن سرحد سے کوئٹہ پہنچے اور پھر کوئٹہ سے ٹرین میں پنجاب روانہ ہوئے۔‘’بسوں میں مارے جانے کے خوف سے ٹرین کا انتخاب کیا‘نعمان کے ساتھی ارشاد گلزار جو میرپور کشمیر کے رہائشی ہیں نے بتایا کہ ’چمن سرحد پر پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ یہاں لوگوں کو بسوں سے اتار کر مار دیا جاتا ہے اس لیے ہم نے ٹرین سے جانے کا فیصلہ کیا۔‘ان کے مطابق ’گاڑی صبح 9 بجے کوئٹہ سٹیشن سے نکلی، تھوڑی دیر بعد دھماکہ ہوا جس سے ٹرین پٹڑی سے اتر گئی اور فائرنگ شروع ہو گئی۔‘یرغمالیوں میں پنجابی، سرائیکی، پشتون اور بلوچ سمیت مختلف قومیتوں کے افراد شامل تھے۔مسافروں کا کہنا ہے کہ ان کے سامنے کئی لوگوں کو گولیاں ماری گئیں (فوٹو: ای پی اے)’ہم نے سوچا، مرنا ہے یا پھر لڑنا ہے‘ارشاد نے بتایا کہ ’حملہ آوروں کی تعداد پہلے زیادہ تھی لیکن شام کے وقت کچھ پہاڑوں کی طرف چلے گئے اور صرف پانچ رہ گئے جنہوں نے جیکٹیں اور ایک جیسا یونیفارم پہن رکھا تھا۔‘انہوں نے بتایا کہ ’حکومت کے ساتھ ہمارے مذاکرات ہو رہے ہیں اگر کامیاب ہو گئے تو چھوڑ دیں گے ورنہ سب کو مار دیں گے اور ٹرین کو جلا دیں گے۔‘ارشاد کا کہنا تھا کہ ’سب مسافروں نے رات بہت کرب میں گزاری، سب دعائیں مانگتے رہے۔‘انہوں نے بتایا کہ صبح چھ بجے حملہ آور ٹرین کے اندر چلے گئے تو یرغمالیوں نے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ ’جیسے ہی دوڑ لگائی تو پیچھے سے فائرنگ شروع ہو گئی، کچھ فاصلے پر موجود سکیورٹی اہلکاروں نے ان پر فائرنگ شروع کر دی، جس سے ہمیں موقع مل گیا اور ہم 40 سے 50 افراد بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔‘300 کے قریب مسافروں کو جائے وقوعہ سے مچھ اور کوئٹہ پہنچایا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)’بھوکا پیاسے رکھا، روزہ افطار تک نہ کرنے دیا‘علی رضا جو اپنے دوست اور بھانجے کے ساتھ کوئٹہ سے صادق آباد جا رہے تھے، نے بتایا کہ وہ جسے چاہتے تھے، اٹھا کر لے جاتے اور ہمارے سامنے گولیاں مار دیتے۔’ہم نے سوچا موت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، اب یا تو بھاگنا ہوگا یا مقابلہ کرنا ہو گا۔ جب موقع ملا تو ہم بھاگ نکلے اور ایف سی والوں کے پاس پہنچ گئے۔‘علی رضا نے کہا کہ ’ہماری بھوک سے بری حالت تھی، سب روزے سے تھے ان لوگوں نے روزہ بھی افطار کرنے بھی نہیں دیا، کسی کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیا۔‘اردو نیوز مسافروں کے دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔