
70 سال سے بھارت میں قائم مشہور و معروف کراچی بیکری پر صرف اس کے نام کی بنیاد پر ایک بار پھر حملہ ہوا۔ اس بار نشانہ بنی آندھرا پردیش کی مشہور شہر وشاکھا پٹنم میں موجود بیکری، جہاں بھارتی انتہاپسندوں نے مظاہرہ کیا، نعرے لگائے، اور توڑ پھوڑ کر ڈالی۔
احتجاج کی قیادت کرنے والے جے جے ایس کے مقامی رہنما کا مطالبہ صاف تھا: "یہ نام بدل دو، ہمیں پاکستان کا ذکر یہاں نہیں چاہیے!"
لیکن جس بیکری کو نشانہ بنایا گیا، اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ بانی خان چند رامنانی نے اسے تقسیم ہند کے بعد 1953 میں بھارت میں قائم کیا۔ مالکان کا تعلق بھی ہندو مذہب سے ہے، بس یادوں میں بسے کراچی کا نام باقی ہے۔
پُرتشدد ہجوم نہ صرف بیکری پر چڑھ دوڑا بلکہ اس کے بورڈ کو اتارنے کی کوشش بھی کی۔ پولیس پہنچی تو حالات قابو میں آئے، لیکن نفرت کے آثار پھر بھی باقی رہے۔
بیکری مینیجر کے مطابق، "لوگ سمجھے ہم پاکستانی ہیں، حالانکہ ہم بھارتی ہیں، ہم نے بھارتی پرچم بھی لہرایا تاکہ وہ مطمئن ہوں۔"
یہ پہلا واقعہ نہیں۔ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھی اس بیکری پر حملے ہوئے۔ اس وقت لفظ ’کراچی‘ کو سائن بورڈ سے چھپانا پڑا۔ مگر نفرت کا طوفان پھر لوٹ آیا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ بیکری بھارت میں اپنی فروٹ بسکٹ کے ذائقے اور معیار کے لیے جانی جاتی ہے، مگر اب اس کی پہچان سیاست اور تعصب بن چکی ہے۔
جب سرحد پار پاکستان پر رات کی تاریکی میں بھارتی حملے کیے جا رہے ہیں، اور جواب میں رافیل طیارے گرائے جا رہے ہیں — تب بھارت کے اندر بھی مسلمانوں، پاکستانی ناموں، اور شناختوں کو کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔