
سنیچر کو انڈیا اور پاکستان نے جنگ بندی کا اعلان تو کر دیا لیکن دونوں ممالک کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا جا رہا ہے۔انڈیا پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی میں اگر ترکی کھل کر پاکستان کے ساتھ نظر آیا تو وہیں انڈیا کے ساتھ اسرائیل کھڑا نظر آیا۔بہرحال جنگ بندی کے اعلان کے بعد ترکی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کو براہِ راست اور صحت مندانہ بات چیت کے لیے اس موقعے کا استعمال کرنا چاہیے۔اگرچہ دنیا کے بیشتر ممالک حالیہ کشیدگی کے دوران غیر جانبدار نظر آئے وہیں ترکی اور اسرائیل کھل کر اپنی پسند کے فریق کے ساتھ نظر آئے۔انڈیا نے جمعہ کو کہا تھا کہ پاکستان ڈرون حملوں کے لیے ترکی کے ساختہ ڈرونز استعمال کر رہا ہے جبکہ پاکستان نے کہا تھا کہ انڈیا اسرائیلی ڈرون سے حملہ کر رہا ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے جمعرات کو کہا کہ ’پاکستانی عوام بھائیوں کی طرح ہیں اور اللہ سے ان کے لیے دعاگو ہوں۔‘ترک فضائیہ کا سی-130 جیٹ رواں ہفتے پاکستان میں اترا۔ تاہم ترکی نے لینڈنگ کا سبب ایندھن بھرنا بتایا۔ اس کے علاوہ ترکی کا ایک جنگی جہاز گذشتہ ہفتے کراچی کے بندرگاہ پر نظر آیا جسے ترکی نے باہمی خیر سگالی کا نام دیا۔گذشتہ جمعے کو انڈین فوج نے کہا تھا کہ جمعرات کو انڈیا کے مختلف شہروں پر حملہ کرنے کے لیے پاکستان نے 300 سے 400 ترک ساختہ ڈرونز کا استعمال کیا۔انڈیا اور ترکی کے تعلقات میں تلخی کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کے رہنما نریندر مودی نے وزیر اعظم بننے کے بعد کبھی ترکی کا دورہ نہیں کیا۔https://twitter.com/RTErdogan/status/1920546744066302252Getty Imagesترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریفنظریاتی قربتہم نے سعودی عرب میں انڈیا کے سابق سفیر تلمیذ احمد سے پوچھا کہ ترکی پاکستان کی کھل کر مدد کیوں کر رہا ہے؟تلمیذ احمد کہتے ہیں کہ ’ترکی کی پاکستان کے ساتھ اسلام کی بنیاد پر نظریاتی قربت ہے۔ اس کے علاوہ ترکی اور پاکستان سرد جنگ میں امریکہ کے شراکت دار تھے۔ سکیورٹی کے میدان میں ان کے درمیان تعاون بہت گہرا رہا ہے۔ بہت سے پاکستانی جرنیلوں کے ترکی سے ذاتی تعلقات رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔’میرے خیال میں اردوغان پاکستان کے ساتھ پرانے تعلقات کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔ انھوں نے خود کو ایک اسلام پسند رہنما کے طور پر بھی پیش کیا ہے اور اسلامی چیزوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ اردوغان اکثر کشمیر کا مسئلہ اٹھاتے ہیں اور اسے امت مسلمہ کے مسئلہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ترکی نے واضح کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔‘تلمیذ احمد نے مزید کہا: ’دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں دو اہم طاقتیں ہیں جن میں ترکی مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے اور اسرائیل انڈیا کے ساتھ ہے۔ ترکی اور پاکستان کے تعلقات میں اسلام کی دستک اردوغان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوئی ہے یعنی دونوں ممالک کے تعلقات سنہ 1950 سے گہرے ہیں لیکن مذہب نے اردوغان کے اقتدار میں آنے کے بعد جگہ لی ہے اور اب اس کا بڑا عمل دخل نظر آتا ہے۔‘کیا صرف مذہب اور نظریے کی قربت کی وجہ سے دو ملکوں کے تعلقات بغیر کسی فائدے کے جاری رہ سکتے ہیں؟ جب یہی سوال متحدہ عرب امارات اور مصر میں انڈیا کے سفیر رہنے والے نودیپ سوری سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: ’ترکی اور پاکستان کے درمیان نہ صرف نظریاتی قربت ہے بلکہ ترکی اور پاکستان کے درمیان دفاعی روابط بھی ہیں۔‘’اس سے ترکی اسلامی دنیا میں یہ دکھانے کی کوشش کرے گا کہ وہ ایک اسلامی ملک پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ترکی ایک طویل عرصے سے عالم اسلام کی قیادت کا خواہش مند رہا ہے لیکن اسے سعودی عرب کی جانب سے چیلنج کا سامنا ہے۔‘خیال رہے کہ کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان دفاعی ایکسرسائز اتاترک گذشتہ کئی سال سے جاری ہے۔ فروری 2025 میں دونوں ممالک کی افواج درمیان اتاترک 8 فوجی ایکسرائز کا انعقاد ہوا تھا۔ پاکستان جن میں ممالک سے ڈرونز برآمد کرتا ہے ان میں ترکی بھی شامل ہے۔اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد نے بی بی سی اردو کے عمیر سلیمی کو بتایا کہ ’پاکستان اور ترکی کے درمیان تاریخی اعتبار سے برادرانہ تعلقات رہے ہیں جو محض دفاعی شعبے تک محدود نہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ماضی میں بھی ترکی اور پاکستان نے ہر طریقے سے ایک دوسرے کی مدد کی کوشش کی ہے۔‘ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے اپنی رائے دی کہ ’اگر انڈیا نے پاکستان کے خلاف اسرائیلی ڈرونز استعمال کیے ہیں اور جواب میں پاکستان نے 'چاہے ترکی کے ڈرون استعمال کیے، چاہے کہیں سے بھی لیے یا خود بنائے تو کون سی آفت آ گئی۔‘ان کا الزام تھا کہ ڈرونز کے ذریعے سرحد پار دراندازی کی کوششیں پہلے انڈیا کی طرف سے شروع ہوئیں جس کے بعد پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔شمشاد احمد نے مزید بتایا کہ ’اگر پاکستان نے اپنے پاس موجود جدید ہتھیار جوابی کارروائی کے لیے استعمال کیے، خواہ وہ کہیں سے بھی حاصل کیے گئے ہوں یا خود بنائے ہوں، اس میں حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہیے۔‘’عالم اسلام کی قیادت‘سعودی عرب کے پاس مکہ اور مدینہ کی مقدس سرزمین ہے جبکہ ترکی کے پاس سلطنت عثمانیہ کی تاریخی وراثت ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) پر سعودی عرب کا غلبہ ہے جبکہ اردوغان نے ایک ایسی تنظیم بنانے کی کوشش کی تھی جو ان کی خواہشات کے مطابق کام کرے۔اس کے لیے اردوغان نے دسمبر 2019 میں ملائیشیا، ایران اور پاکستان کے ساتھ مل کر پہل کی لیکن سعودی عرب نے پاکستان کو روک دیا۔ پاکستان ترکی کے ساتھ صرف اس حد تک تعاون کرتا ہے جو سعودی عرب کے لیے قابل قبول ہو۔اسلامی یا مسلم اکثریتی ممالک میں پاکستان واحد ایٹمی طاقت ہے۔ ایسے میں عالم اسلام میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ تلمیذ احمد کا ماننا ہے کہ ترکی کا پاکستان کے ساتھ پہلے ہی فوجی تعاون تھا لیکن اب مذہبی پہلو بھی شامل ہو گیا ہے۔پہلگام واقعے کی بین الاقوامی تحقیقات میں ترکی شامل ہوا تو پاکستان خیرمقدم کرے گا: شہباز شریفدو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟پہلگام حملہ اور کشیدگی: پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں چین کس کا ساتھ دے گا؟پاکستان اور انڈیا کی ’ڈرون ریس‘: وہ یو اے ویز جو جنوبی ایشیا میں ’عسکری طاقت‘ کو نئی شکل دے رہے ہیںتلمیذ احمد کہتے ہیں کہ ’اسلام کو ایک موقع پرست نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جب فائدے کی بات آتی ہے تو اسلام کا ذکر کرتے ہیں۔ جب جغرافیائی سیاست میں اپنے مفادات کی بات آتی ہے تو اسلام پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ ’میرے خیال میں ترکی کی اسلام میں گہری دلچسپی ہے۔ ترکی مغربی ایشیا میں سلطنت عثمانیہ کی طرح غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ اس کی بنیادی خواہش ہے اور اسی خواہش کے تحت ترکی پاکستان کو ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔‘کیا ترکی کا پاکستان کے ساتھ اتحاد انڈیا کے لیے دھچکا ہے؟ تلمیذ احمد کہتے ہیں کہ ’ترکی نے کبھی بھی انڈیا کے ساتھ ہمدردی نہیں دکھائی۔ ترکی ہمیشہ کشمیر کے معاملے پر انڈیا کو ناراض کرتا رہا ہے۔ ’مشرق وسطیٰ اور خلیج میں انڈیا کے مفادات اسرائیل، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور ایران سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کے ساتھ انڈیا کے تعلقات میں کافی گرم جوشی ہے۔‘Getty Imagesسعودی عرب کے شہزادہ ولیعہد محمد بن سلمان اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان عالمی فورم پر ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیںپاکستان کے لیے سعودی عرب زیادہ اہم ہے یا ترکی؟تلمیذ احمد کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب پاکستان اور انڈیا دونوں کے لیے اہم ہے۔ سعودی عرب ماضی میں کئی بار پاکستان کو معاشی بحران سے نکال چکا ہے۔ ترکی نے کبھی بھی پاکستان کی اس حد تک مدد نہیں کی جتنی سعودی عرب نے کی ہے۔سعودی عرب بھی جانتا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے۔ سعودی عرب کے انڈیا کے ساتھ بھی بہت وسیع تعلقات ہیں اور اس میں بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ ‘تلمیذ احمد کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب اور انڈیا کے تعلقات میں ایک چیز غائب ہے اور شاید انڈیا اس میں کبھی شامل نہیں ہو گا اور وہ بات یہ ہے کہ ہم نے سعودی عرب کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں دی۔‘نودیپ سوری ترکی اور پاکستان کے درمیان کی دوستی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں تقریباً 200 ممالک ہیں اور ان میں ترکی کے پاکستان کے ساتھ تعلق کو انڈیا کے لیے کسی بڑے صدمے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اردوغان کا اسلام کے حوالے سے ایک موقف ہے اور وہ اپنی اس پوزیشن پر قائم ہیں۔‘اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) نے دونوں ممالک سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی تھی لیکن مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کی۔ بدھ کو جب انڈیا نے پاکستان میں فوجی کارروائی کی تو او آئی سی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان پر لگائے گئے الزامات کے شواہد نہیں ہیں۔ او آئی سی نے کشمیر کو دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم مسئلہ قرار دیا۔مذہبی تعلقترکی اور پاکستان کے درمیان بین الاقوامی سطح پر کئی دہائیوں سے اتحاد واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ آذربائیجان کے حوالے سے بھی دونوں ممالک کے درمیان قربت پائی جاتی ہے۔ترکی، پاکستان اور آذربائیجان کی دوستی آرمینیا کو گراں گزرتی ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے آرمینیا کو خودمختار ملک تسلیم نہیں کیا ہے۔آذربائیجان متنازع علاقے نگورنو کاراباخ پر دعویٰ کرتا ہے اور پاکستان بھی اس کی حمایت کرتا ہے۔ ترکی کا بھی اس معاملے میں یہی مؤقف ہے۔ بدلے میں ترکی کشمیر پر پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔فروری سنہ 2020 میں جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے پاکستان کا دورہ کیا تو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں فخر سے کہا کہ ترکوں نے 600 سال تک انڈیا پر حکومت کی۔عمران خان نے کہا کہ ’ہم سب آپ کی آمد سے خوش ہیں کیونکہ ہماری قوم سمجھتی ہے کہ ہمارے ترکی کے ساتھ صدیوں پرانے تعلقات ہیں، ترکوں نے ہندوستان پر 600 سال تک حکومت کی۔‘ متعدد مؤرخین کی جانب سے اس دعوے پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔سنہ 1980 کی دہائی میں پاکستان میں برسرِاقتدار فوجی آمر ضیاالحق نے کہا تھا کہ ’پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، اگر آپ اسلام کو پاکستان سے نکال کر ایک سیکولر ریاست بنا دیں گے تو یہ بکھر جائے گی۔‘ ترکی اور پاکستان کے درمیان کی قربت کو اسی نظریاتی تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے۔پاکستان اور انڈیا کی ’ڈرون ریس‘: وہ یو اے ویز جو جنوبی ایشیا میں ’عسکری طاقت‘ کو نئی شکل دے رہے ہیںٹرمپ کی ’پنچایت‘ پر پاکستانیوں کو خوشی مگر انڈینز کا سوال: ’امریکی صدر نے مداخلت کیوں کی؟‘پاک انڈیا ’ورکنگ دشمنی‘ پر کسی کو اعتراض نہیںنیٹو کا رکن ترکی روس اور چین کے زیر اثر ’مغرب مخالف‘ برکس کا حصہ کیوں بننا چاہتا ہے؟امریکہ، سفارتی بیک چینل رابطے اور خطے کے بڑے کھلاڑی: جنگ کے دہانے پر کھڑی دو جوہری طاقتوں کو سیزفائر پر کیسے رضامند کیا گیاترکی میں مظاہرے اور گرفتاریاں: کیا دو دہائیوں سے اقتدار میں رہنے والے اردوغان چھ روز کے مظاہروں سے ’گھبرا‘ گئے ہیں؟