جب انڈیا کی خفیہ ایجنسی نے کراچی بندرگاہ کی جاسوسی کے لیے ایک پارسی ڈاکٹر کو استعمال کیا


سنہ 1971 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ شروع ہونے سے تقریباً دو ماہ قبل دہلی میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔ انڈیا کے وزیر دفاع جگ جیون رام، نیوی چیف ایڈمرل ایس ایم نندا اور انڈین خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے سربراہ رام ناتھ کاؤ نے شرکت کی۔انڈین بحریہ کو ایک خفیہ اطلاع ملی تھی کہ پاکستان نے کراچی بندرگاہ پر جدید ترین بحری نگرانی کا نظام نصب کیا ہے۔ایڈمرل نندا نے را کے سربراہ کاؤ سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے ذرائع سے اس بارے میں مزید معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔کاؤ کو معلوم تھا کہ پاکستان کے نگرانی کے نظام کی صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے تصاویر کی ضرورت ہوگی اور کوئی عام جاسوس ایسی معلومات اکٹھا نہیں کر سکتا۔را سربراہ کاؤ کے نائب سنکرن نائر نے بمبئی (اب ممبئی) میں را کے ایک ایجنٹ کو اس مشن کی ذمہ داری سونپی۔پانچ دن بعد اس ایجنٹ نے نائر سے رابطہ کیا اور انھیں اپنا منصوبہ بتایا اور یہ بھی کہا کہ وہ ایک ایسے شخص کو جانتے ہیں جو اس میں مدد کر سکتا ہے۔ منصوبہ کو حتمی شکل دینے کے لیے نائر خود بمبئی گئے۔خفیہ مشن کے لیے ایک ڈاکٹر کے جہاز انتخابنائر اپنی سوانح عمری ’ا نسائڈ آئی بی اینڈ را، دی رولنگ سٹون دیٹ گیدرڈ ماسز‘ میں لکھتے ہیں: ’بمبئی میں میرے ایجنٹ نے مجھے بتایا کہ کاوس جی نامی ایک پارسی ڈاکٹر ہیں جو اپنے جہاز میں کویت کے راستے پاکستان جاتے ہیں وہ اس کام میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔‘ان کے مطابق: ’اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ کاوس جی کا خاندان 1880 کی دہائی سے جہاز رانی کے کاروبار میں تھا، وہ کراچی پورٹ سے آپریٹ کرتے تھے، ان کا خاندان بھی کراچی میں رہتا تھا، ملک کی تقسیم کے بعد بھی اس امیر پارسی خاندان کے لوگ کراچی کے ساتھ ساتھ بمبئی میں بھی رہنے لگے تھے۔‘’دو ماہ قبل کاوس جی اس وقت مشکل میں پڑ گئے تھے جب بمبئی کے کسٹم افسران نے ان کے جہاز سے غیر اعلانیہ سامان ضبط کر لیا۔ اب ان کے خلاف کسٹم کی تحقیقات جاری تھیں۔ ممکنہ طور پر ڈاکٹر کو اس کے لیے بڑا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔‘سنکرن اور کاوس جی کی ملاقاتبمبئی کسٹمز کے سربراہ سنکرن نائر کے دوست تھے۔ انھوں نے فون اٹھایا اور ان کا نمبر ڈائل کیا۔ حسب معمول شائستگی کے بعد نائر نے انھیں اپنا مسئلہ بتایا۔دس منٹ کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ڈاکٹر پر عائد جرمانہ را اپنے خفیہ فنڈ سے ادا کرے گا اور محکمہ کسٹمز خط کے ذریعے آگاہ کرے گا کہ ڈاکٹر کے خلاف کیس بند کر دیا گيا ہے۔اس خط کے ساتھ نائر اپنے دو بھروسہ مند جاسوسوں کے ساتھ ڈی این روڈ پر ڈاکٹر کاوس جی کے کلینک گئے۔انھوں نے اپنا تعارف انڈین بحریہ کے کمانڈر مینن کے طور پر کرایا۔ انھوں نے ڈاکٹر سے کہا کہ میں آپ کو محکمہ کسٹم کا یہ خط دے سکتا ہوں جس میں لکھا ہے کہ آپ کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا گیا ہے، بشرطیکہ آپ میرے لیے ایک چھوٹا سا کام کر دیں۔سنکرن نائر نے کمانڈر مینن کا روپ دھار کر ڈاکٹر سے کہا: ’آپ ایسا کرنے سے انکار بھی کر سکتے ہیں، ایسی صورت میں میں اس خط کو جلا دوں گا اور آپ کے خلاف تحقیقات شروع کی جائیں گی۔‘ڈاکٹر کاوس جی نے محسوس کیا کہ ان کے پاس نائر کی تجویز کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔کاوس جی را کے دو جاسوسوں کے ساتھ کراچی روانہ ہوئےانوشا نندکمار اور سندیپ ساکیت اپنی کتاب ’دی وار دیٹ میڈ را‘ میں لکھتے ہیں: ’ڈاکٹر کاوس جی نے نائر سے پوچھا، آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘نائر نے کہا کہ ’آپ پاکستان کے اگلے سفر پر اپنے جہاز پر میرے دو آدمیوں کو ساتھ لے جائیں گے۔ یہ سفر دو دن بعد شروع ہوگا۔‘ ڈاکٹر نے ان سے پوچھا کہ کم از کم مجھے ان لوگوں کے نام تو بتا دیں۔نائر نے کہا کہ ان کے نام ’راڈ‘ اور ’موریارٹی‘ ہیں۔ ان کے اصل نام راؤ اور مورتی تھے۔ راؤ نائر کے نیول اسسٹنٹ تھے جبکہ مورتی را کے فوٹو گرافی کے شعبے کے ماہر تھے۔'دو دن بعد منصوبے کے مطابق کاوس جی اپنے دو نئے ساتھیوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے پانی کے جہاز کے ذریعے کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے تک کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔انوشا اور سندیپ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’اس وقت تک پاکستانیوں کو پتہ چل گیا تھا کہ انڈیا نے ایک نئی انٹیلی جنس ایجنسی بنا لی ہے۔ انھیں ابھی تک نئی ایجنسی کا نام نہیں معلوم ہو سکا تھا۔‘دونوں جاسوس مریضوں کے کیبن میںGetty Imagesپاکستانی سی آئی ڈی انسپکٹر تلاشی کے لیے آیا تو کاوس جی گھبرا گئے: فائل فوٹوجیسے ہی کاوس جی کا جہاز کراچی کی بندرگاہ پر پہنچا، ایک پاکستانی سی آئی ڈی انسپکٹر اپنے دو ساتھیوں کے ساتھجہاز پر سوار ہوا۔ ڈاکٹر اسے دیکھ کر گھبرا گیا۔ چند منٹوں میں پاکستانی افسران نے جہاز کا معائنہ کیا اور جب دستاویزات میں ذکر کردہ دو افراد انھیں ملے تو انھوں نے ان کے بارے میں دریافت کیا۔انوشا نندکمار اور سندیپ ساکیت لکھتے ہیں کہ ’یہ لوگ جہاز میں چھپے ہوئے تھے کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ انسپکٹر ان پر توجہ دیں۔‘ ’انسپکٹر نے پوچھا کہ وہ لوگ کہاں ہیں؟ کاواس جی نے کہا کہ وہ ’سِک بے‘ میں ہیں۔ انسپکٹر نے اپنے ماتحتوں سے کہا، وہاں جا کر چیک کرو۔‘’ڈاکٹر نے کہا: میں آپ کو اس کی سفارش نہیں کروں گا۔ یہ دونوں چکن پاکس کے مریض ہیں۔ ان میں سے ایک کو یہ بیماری سفر کے دوران ہوئی، دوسرے کو بھی ہو گئی۔ ہم نے انھیں الگ تھلگ کر دیا ہے اور ان کے صحت یاب ہونے تک انھیں سک بے میں ڈال دیا ہے۔‘’کاوس جی اکثر کراچی آتے رہتے تھے۔ ان پر اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ انسپکٹر جیسے ہی جہاز سے اترے، کاوس جی نے سکون کا سانس لیا۔‘کراچی بندرگاہ کی تصاویرآدھی رات کو کاوس جی کا جہاز پھر سے چلنے لگا اور تھوڑی دیر بعد بندرگاہ کے دروازے پر دو چٹانوں کے درمیان پہنچ گیا۔ اس جگہ کا پہلے سے تعین کر لیا گیا تھا۔ تا کے جاسوسوں نے کیمروں سے تصویریں لینا شروع کر دیں۔وائس ایڈمرل جی ایم ہیرانندانی اپنی کتاب ’ٹرانزیشن ٹو ٹرائمف (1965-1975)‘ میں لکھتے ہیں: ’را کے ایجنٹس نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر اپنے سامنے ہدف کو۔ راڈ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ حال ہی میں بنایا گیا ہے۔ یہ واقعی حال ہی میں بنایا گیا تھا اور اس پر طیارہ شکن بندوقیں رکھی گئی تھیں۔‘’اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کراچی کی بندرگاہ کو جنگ کے لیے تیار کر رہا ہے۔ تیزی سے کام کرتے ہوئے، دونوں ایجنٹوں نے اس جگہ کی درجنوں تصاویر کھینچ لیں۔‘انھوں نے مزید لکھا: ’جہاں بھی ضرورت پڑی، انھوں نے لینس کو زوم کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بندرگاہ پر لنگر انداز پاکستانی بحری جہازوں کی تصاویر بھی لیں۔‘دہلی میں تصویروں کا مطالعہوہ لکھتے ہیں کہ ’تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد جہاز کو واپس مڑنے کو کہا گیا۔ اس کے بعد دونوں انٹیلی جنس ایجنٹس دوبارہ سک بے میں چلے گئے جہاں وہ اگلے دن تک رہے، ایک دن بعد جہاز کراچی بندرگاہ سے روانہ ہوا، جب جہاز بندرگاہ سے نکلنے لگا تو فوٹوگرافروں نے چٹان کے دوسری طرف کی تصویریں بھی کھینچیں۔ اس کے بعد جہاز بحیرۂ عرب میں داخل ہوا اور کویت کی طرف بڑھ گیا۔‘جیسے ہی وہ کویت پہنچے راؤ اور مورتی جہاز سے اترے اور سیدھے انڈین سفارت خانے گئے۔ وہاں سے کراچی سے لائی گئی کیمرہ فلمیں دہلی بھیجی گئیں۔ اگلے دن راؤ اور مورتی ہوائی جہاز سے دہلی روانہ ہو گئے۔انوشا نندکمار اور سندیپ ساکیت لکھتے ہیں: ’وار روم میں جگجیون رام، رام ناتھ کاؤ اور ایڈمرل نندا نے تصاویر کا مطالعہ کیا۔ مورتی نے انھیں کراچی ہاربر کا 360 ڈگری کا نظارہ دکھایا۔ وہاں موجود ہر شخص نے حیرت کے ساتھ تصویروں کو دیکھا۔‘جب کراچی کی بندرگاہ انڈین میزائل بوٹس کے حملوں کا نشانہ بنیہنگور: جب پاکستانی ’شارک‘ نے انڈین ’کھکری‘ کا شکار کیاغازی آبدوز جس کے ڈوبنے کی اصل وجہ پچاس سال بعد بھی ایک معمہ ہے1965 کی جنگ: جب پاکستانی فضائیہ نے انڈیا کے دس جنگی طیارے تباہ کیے’یہ پہلا موقع تھا جب انڈیا نے کراچی بندرگاہ کے اندر کی تصاویر حاصل کیں۔ اب انڈین بحریہ کو معلوم تھا کہ پاکستان نے کن جگہوں پر دفاعی ڈھانچے بنائے ہیں اور ان کی صلاحیتیں کیا ہیں۔‘انہوں نے یہ بھی معلوم کیا کہ ایندھن کا ذخیرہ کہاں ہے اور کراچی میں کون سے بحری جہاز تعینات ہیں۔تین دسمبر 1971 کو جنگ کے سرکاری اعلان سے قبل انڈیا کو کراچی بندرگاہ کا مکمل نقشہ مل چکا تھا۔ پاکستان نے اپنی بہترین ڈولفن کلاس آبدوزیں تعینات کی تھیں۔ایڈمرل نندا اپنی کتاب ’دی مین ھو بومبڈ کراچی‘ میں لکھتے ہیں: ’جنگ کے آغاز تک پاکستانی بحریہ کے فوجیوں کی تعداد مزید کم ہو گئی تھی کیونکہ بنگالی فوجی یا تو نیوی چھوڑ چکے تھے یا پھر پاکستانیوں کا ان پر اعتماد ختم ہو گیا تھا۔‘ایڈمرل نندا نے اندرا گاندھی سے اجازت لیGetty Imagesجگجیون رام، اس وقت کے وزیر دفاعتین دسمبر 1971 کو جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو انڈین بحریہ نے کراچی پر حملہ کرنے کے اپنے منصوبے پر عمل شروع کردیا۔اس سے پہلے اکتوبر میں ایڈمرل نندا اندرا گاندھی سے ملنے گئے تھے۔بحریہ کی تیاریوں کے بارے میں آگاہ کرنے کے بعد انھوں نے اندرا گاندھی سے پوچھا تھا کہ اگر بحریہ کراچی پر حملہ کرتی ہے تو حکومت کو کوئی سیاسی اعتراض ہوگا؟نندا اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں: ’ہاں یا نہیں کہنے کے بجائے، اندرا نے مجھ سے ایک سوال پوچھا، آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا، '1965 میں بحریہ کو خاص طور پر کہا گیا تھا کہ وہ انڈین سمندری حدود سے باہر کوئی کارروائی نہ کرے، جس سے ہمارے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوئے تھے۔‘’اندرا نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا، اچھا ایڈمرل، اگر جنگ ہے تو جنگ ہے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا، میڈم، مجھے میرا جواب مل گیا۔کراچی پر بحری حملے سے قبل انڈین فضائیہ نے فضائی اڈوں پر بم گرانا شروع کر دیا تھا۔ وہ کراچی کی بندرگاہ پر بھی مسلسل بم گرا رہے تھے۔ایڈمرل نندا لکھتے ہیں: ’دراصل یہ ایک منصوبے کے تحت کیا جا رہا تھا تاکہ پاکستان کی توجہ فضائی جنگ کی طرف مبذول ہو اور یہ اندازہ بھی نہ لگا سکے کہ ہمارے جہاز کراچی کی طرف ایک مخصوص منصوبے کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔‘’میں کراچی کو اپنے ہاتھ کی پشت کی طرح جانتا تھا کیونکہ میں نے اپنا بچپن وہاں گزارا تھا۔ دوسرا یہ کہ ہمارے انٹیلی جنس ذرائع نے ہمیں اس جگہ کے بارے میں مستند معلومات فراہم کی تھیں۔‘’میں نے اپنے عملے سے کہا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ کلفٹن اور کیماری بندرگاہوں کے درمیان تیل کے ذخائر کو نشانہ بنانا کتنا موثر ہوگا۔‘کراچی پر میزائل حملہ1971 کے اوائل میں، انڈیا کو سوویت یونین سے اوسا-1 میزائل بوٹ ملی تھی۔انھیں ساحلی دفاع کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا لیکن نیول کمانڈرز نے انھیں کراچی پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔جب فضائیہ کے لڑاکا طیارے کراچی پر بمباری کر رہے تھے تو اوسا-1 میزائل سے لیس تین کشتیاں کراچی کی طرف بڑھنے لگیں۔ اسے ’آپریشن ٹرائیڈنٹ‘ کا نام دیا گیا جس کا مقصد کراچی بندرگاہ کو تباہ کرنا تھا۔تین میزائل کشتیوں کو پاکستان کے سمندری پانیوں میں لے جایا گیا اور کراچی سے 250 کلومیٹر دور چھوڑ دیا گیا۔انوشا نندکمار اور سندیپ ساکیت لکھتے ہیں: ’سب سے پہلے، میزائل بوٹ نے پاکستانی جہاز پی این ایس خیبر کو ڈبو دیا۔ وہ یہ بھی اندازہ نہیں لگا سکے کہ یہ حملہ کہاں سے ہوا ہے۔‘ان کا خیال تھا کہ ان پر انڈین فضائیہ کے طیاروں نے حملہ کیا ہے۔انڈین حملے کے دوران کراچی بندرگاہ پر کافی میزائل داغے گئے جب کہ اسی حملے کے دوران انڈین نیوی کی ایک میزائل بوٹ نے ایک لائبیرین جہاز وینس چیلنجز کو بھی میزائل سے تباہ کر دیا۔اس تجارتی جہاز کو تباہ کرنے کے بعد انڈین نیوی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ جہاز ہتھیار لے کر جا رہا تھا جسے پاکستان نیوی نے غلط قرار دیا۔پاکستان نیوی کو پانچ دسمبر کی صبح پی این ایس محافظ اور پی این ایس خیبر کے بچ جانے والے عملے سے اس حملے کی تفصیلات ملیں تو یہ معمہ حل ہوا کہ انڈین فضائیہ نے نہیں بلکہ انڈین نیوی کی تیز رفتار میزائل بوٹس نے حملہ کیا تھا۔میجر جنرل فضل مقیم خان اپنی کتاب ’پاکستان نیوی ایٹ وار‘ میں لکھتے ہیں کہ پاکستان نیوی کی جانب سے اس حملے کے جواب میں پاکستانی فضائیہ سے رابطہ کیا گیا کہ انڈین نیوی کی میزائل بوٹس پر فضائی حملہ کیا جائے۔ فضل مقیم لکھتے ہیں کہ ’پاکستانی فضائیہ کی جانب سے جواب دیا گیا کہ جنگ میں ایسا ہوتا ہی ہے اور ہم کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘آسٹریلین مؤرخ جیمز گولڈ رک اپنی کتاب ’نو ایزی آنسرز‘ میں لکھتے ہیں کہ پاکستانی فضائیہ نے جواب میں تاخیر سے ایک سنہری موقع کھو دیا کیوں کہ انڈین نیوی کی میزائل بوٹس کو خرابی کا سامنا تھا۔پاکستان کی فضائیہ کی جانب سے انڈین پورٹ اوکھا پر حملہ تو کیا گیا جہاں سے انڈین بحری بیڑے نے اپنے حملے کا آغاز کیا تھا لیکن تب تک انڈین نیوی اپنی میزائل بوٹس وہاں سے ہٹا چکی تھی۔اس حملے سے اتنا ضرور ہوا کہ ایمونیشن اور فیول ڈمپ تباہ ہو گئے جس کے باعث انڈین نیوی کا کراچی پر ایک اور حملے کا منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا۔1965 کی پاکستان انڈیا جنگ اور ایوب خان کا خفیہ دورۂِ چینمریدکے سے مظفرآباد تک: انڈیا نے چھ مئی کی شب پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں کن مقامات کو نشانہ بنایا اور کیوں؟1965 کی جنگ: جب پاکستانی فضائیہ نے انڈیا کے دس جنگی طیارے تباہ کیےدارا فیروز چنائے: وہ انڈین پائلٹ جو پاکستانی فوج سے بچ کر پیدل انڈیا پہنچنے میں کامیاب ہواانڈین فوج اور حکومت کے باہمی تنازعات اور 65 کی جنگ کی ’سب سے بڑی غلطی‘جب کراچی کی بندرگاہ انڈین میزائل بوٹس کے حملوں کا نشانہ بنی

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید سائنس اور ٹیکنالوجی

واٹس ایپ صارفین کیلئے بڑی خبر

کیا شہد کی مکھیاں دنیا سے ختم ہونے والی ہیں؟ حیران کن سائنسی تحقیق سامنے آگئی

کیا شہد کی مکھیاں دنیا سے ختم ہونے والی ہیں؟ سائنسی تحقیق

مقبرہ، مندر یا جنت کا راستہ: قدیم مصریوں کا وہ ’مقدس‘ راز جو اہرام کی تعمیر کی وجہ بنا

مقبرہ، مندر یا جنت کا راستہ: قدیم مصریوں کا وہ مقدس راز جو اہرام کی تعمیر کی وجہ بنا

ایلون مسک کا خواب ایک بار پھر چکنا چور، بڑا مشن فیل

مصنوعی ذہانت ہزاروں جوانوں کی نوکریاں کھا گئی

’سب کچھ ایک منٹ میں ختم ہو گیا‘: غزہ کے آئی وی ایف سینٹر پر اسرائیلی حملے جس نے متعدد جوڑوں کا والدین بننے کا خواب توڑ دیا

کیا مصنوعی ذہانت کی تھراپی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے؟

لیپ ٹاپ چارجرکا اے سی اڈاپٹر کس طرح سے کام کرتا ہے؟

سوشل میڈیا صارفین کے پاسورڈز اور معلومات چوری، پاکستانی صارفین کو پاسورڈز تبدیل کرنے کی ہدایت

واٹس ایپ پرنیا دلچسپ فیچر متعارف

عمران خان کا پولی گراف ٹیسٹ دینے سے انکار: ’جھوٹ پکڑنے والا‘ ٹیسٹ کتنا مستند ہوتا ہے؟

میڈیکلائزڈ ایف جی ایم: ’12 سال کی عمر میں میرے جنسی اعضا کاٹ دیے گئے، یہ ایک جشن تھا‘

1971 میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے دو جاسوس کراچی بندرگاہ تک کیسے پہنچے

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی