
Reutersبعض برادریاں ایف جی ایم کو اپنی تہذیب کا حصہ مانتی ہیں12 سالہ کیتھرین ہر سال کی طرح کرسمس کی چھٹیوں میں اپنے خاندان کے ساتھ اپنے آبائی گھر گئیں لیکن اس بار یہ سفر ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدلنے والا تھا۔وہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کے والدین نے کیا سوچ رکھا ہے۔ ان کے والدین کا کینیا میں ان کے آبائی علاقے کے ایک مقامی طبی کارکن کی مدد سے ان کے جنسی اعضا کو ’کاٹنے‘ کا منصوبہ تھا جسے ’ایف جی ایم‘ کہا جاتا ہے۔انتباہ: اس کہانی میں خواتین کے جنسی اعضا (ایف جی ایم) سے متعلق تفصیلات ہیں۔دارالحکومت نیروبی میں پرورش پانے والی کیتھرین کا خیال تھا کہ وہ ملک بھر کے قصبوں اور دیہاتوں میں رائج روایتوں سے محفوظ ہیں۔ان کے والدین بھی تعلیم یافتہ تھے اور شہر میں کام کرتے تھے، لیکن 30 سال پہلے ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نیروبی سے اپنے دیہی گھر جا رہی تھی تو مجھے وہاں پہنچنے تک نہیں معلوم تھا کہ ایسا ہو گا۔ لیکن میں نے ایک تقریب کی تیاری کی افواہیں سنی تھیں۔‘اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے مطابق دنیا بھر میں 23 کروڑ سے زائد لڑکیاں اور خواتین ایسی ہیں جن کے جنسی اعضا کاٹے جا چکے ہیں۔ جنسی اعضا کاٹنے (ایف جی ایم) کا عمل دراصل خواتین کے جنسی اعضا بالخصوص کلائیٹورس کو مکمل یا جزوی طور پر ہٹانے کے عمل کا نام ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ عمل زیادہ تر افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے 30ممالک میں ہے، لیکن ایشیا اور لاطینی امریکہ کے کچھ ممالک اور مغربی یورپ، شمالی امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں رہنے والی تارکین وطن آبادیوں میں بھی یہ مروج ہے۔نام نہاد ’میڈیکلائزڈ ایف جی ایم‘ سے مراد کسی خاتون کے بیرونی جنسی اعضا کو جان بوجھ کر کاٹنا یا ہٹانا ہے، جو کسی طبی پیشہ ور کی مدد سے کیا جاتا ہے۔اس میں اکثر لیبیا اور کلیٹورس کو مکمل یا جزوی طور پر ہٹانا یا کاٹنا شامل ہوتا ہے اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اس میں ہر وہ عمل شامل ہے جس میں ’غیر طبی وجوہات کی بنا پر خواتین کے جنسی اعضاء کو زخمی کیا جاتا ہے۔‘لڑکی کی جسمانی، نفسیاتی اور جنسی صحت کو لاحق خطرات کے باوجود ’میڈیکلائزڈ ایف جی ایم‘ کو اکثر اس رواج کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ طریقہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ ایک طبی پیشہ ور کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے لیکن سرجیکل آلات کا استعمال گہرا نقصان پہنچا سکتا ہے۔دنیا بھر میں ہونے والے ’میڈیکلائزڈ ایف جی ایم‘طبی ایف جی ایم کی سب سے زیادہ شرح پانچ ممالک میں ہے: مصر 38فیصد، سوڈان 67 فیصد، گنی 15 فیصد، کینیا 15 فیصداور نائیجیریا 13 فیصد۔14 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ کیسز کے ساتھ افریقہ سرِ فہرست ہے۔ایشیا میں آٹھ کروڑ سے زیادہ جبکہ مشرق وسطی میں مزید 60 لاکھ کیسز ہیں۔باقی دنیا میں تارکین وطن کے لیے چھوٹی چھوٹی برادریوں اور رہائش کے ممالک میں دس سے 20 لاکھ خواتین متاثر ہیں۔(ذریعہ: یونیسیف)BBCایف جی ایم کا طریقہ کارکیتھرین کے والدین نے میڈیکلائزڈ ایف جی ایم طریقہ کار کا انتخاب کیا اور ایک مقامی ہیلتھ کیئر ورکر نے اسے انجام دیا۔وہ اب 42سال کی ہیں اور نرس ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس کو بھلانے اور اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے مضبوط ہونے میں کافی وقت لگا ہے کیونکہ میں خود کو 12 سال کی عمر میں دیکھ سکتی ہوں۔‘اس عمل سے چند دن پہلے کیتھرین کو احساس ہوا کہ کیا ہونے والا ہے۔ لیکن وہ سمجھ نہیں پائی کہ اصل میں اس کا کیا مطلب ہے۔وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں ’تقریب کے لیے دوستوں، اہل خانہ کو دعوت نامے بھیجے جا رہے تھے۔ یہ ایک جشن تھا۔‘کچھ دنوں بعد، ہیلتھ ورکر ان کے گھر پہنچیں۔ ’میرے ارد گرد کی عورتیں گانے گا رہی تھیں اور وہ بہت خوش تھیں۔‘وہ پورا منظر یاد کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس گیتوں کے ماحول میں ’آپ کو بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘’ختنہ کی وجہ سے مجھے اپنا آپ کمتر محسوس ہونے لگا‘ختنوں کے بعد سرجری کروانے والی خاتون: ’جب پہلی مرتبہ کلیٹورس کو دیکھا تو لگا یہ میرے جسم کا حصہ نہیں‘سوڈانی دلہنیں شادی سے قبل ختنہ کیوں کرواتی ہیں؟مصر میں لڑکیوں کے ختنے: کیا نئی قانون سازی مسئلے کا حل ہے؟’اور پھر ایک طبی کارکن جو ایک ہیلتھ کیئر ورکر ہے، دستانے پہنتی ہے، جراثیم سے پاک بلیڈ لیتی ہے، اور اس دوران خواتین آپ کو پکڑ لیتی ہیں۔ آپ رو رہی ہیں، آپ چیخ رہی ہیں لیکن وہ آپ کو شور مچانے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اگر آپ شور مچاتی ہیں تو، آپ مضبوط نہیں ہیں۔‘’مجھے اچھی طرح یاد ہے، میرا بہت زیادہ خون بہا تھا اور انھوں نے خون روکنے کے لیے بہت زیادہ مرکب دیے۔‘اس کے بعد، کیتھرین کو یاد ہے کہ وہ ’صدمے کی حالت‘ میں تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ذہنی صدمہ اب بھی موجود ہے اور یہ کسی بھی چیز سے بدتر ہے۔‘’مجھے اس سے نفرت ہے‘کیتھرین کے لیے نرس بننا اس بات کو یقینی بنانے کا ایک طریقہ تھا کہ وہ جنوب مغربی کینیا کی میگوری کاؤنٹی میں اپنی کمیونٹی کی نوجوان لڑکیوں اور خواتینکے لیے کچھ مثبت کر سکیں۔وہ 20سال سے اس شعبے میں ہیں اور ایک باصلاحیت نرس ہیں اور ایف جی ایم سمیت صنف کی بنیاد پر تشدد سے نمٹنے والے کارکنوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔نرسنگ کے ساتھ ساتھ، کیتھرین کاؤنٹی میں صنف کی بنیاد پر تشدد کی روک تھام اور ریسپانس کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کرتی ہیں۔’میں نے محسوس کیا کہ میں اپنی برادری میں جو کچھ (غلط ہوتا) دیکھ رہی تھی اسے روکنے میں مدد کرسکتی ہوں۔‘کئی سالوں تک کیتھرین اس خاتون سے ملنے جاتی رہیں جس نے ان پر جراحی کا عمل انجام دیا اور وہ اب بھی اسی شہر میں کام کر رہی ہیں۔’وہ ایک ایسی خاتون ہیں جنھیں میں جانتی تھی اور کئی سالوں سے میں ان سے نفرت کرتی تھی۔‘’ایک قصبے میں ان کا کلینک تھا۔ میرے لیے وہ محافظ تھیں لیکن نقصان پہنچانے والے بن گئیں اور وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ یہ میری طبی صحت کے لیے فائدہ مند نہیں، لیکن پھر بھی اس نے یہ کیا۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ایک وقت تھا جب میں واقعی ان کو چیلنج کرنا چاہتی تھی لیکن وقت کے ساتھ مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنے اندر شفا تلاش کرنی ہوگی۔‘کیتھرین کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہوا اس پر انھوں نے اپنے والدین کے ساتھ بات نہیں کی کیونکہ وہ ماضی کے جرم کو کریدنا نہیں چاہتی تھیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ اب ان کے کام میں ان کی سب سے بڑی حامیوں میں سے ایک ہیں۔کینیا نے سنہ 2001میں ایف جی ایم پر جزوی طور پر پابندی عائد کردی تھی اور سنہ 2011میں اس عمل کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔تاہم ایف جی ایم کچھ برادریوں کے معاشرتی اور ثقافتی اصولوں میں سرایت کرچکا ہے۔ کیتھرین نہیں جانتیں کہ ان کے ختنے کرنے والی نرس اور ان کے والدین کے ساتھ اب کیا ہوگا کیونکہ اس وقت ایف جی ایم پر عمل کرنا غیر قانونی نہیں تھا۔ایف جی ایم کچھ مروجہ عقائد میں شامل ہے کہ یہ شادی کے لیے ایک شرط ہے، یہ عورت بننے کی ایک رسم ہے اور کمیونٹی کی نظر میں صفائی ستھرائی کی علامت بھی ہے۔کیتھرین کی دو نوعمر بیٹیاں ہیں اور انھوں نے اس طریقہ کار کے بارے میں ان کے ساتھ زیادہ کھل کر بات چیت شروع کردی ہے۔’اب بھی ہیلتھ کیئر ورکرز مجھ سے کہتی ہیں ’کیتھرین، اگر تم نے اپنی لڑکیوں کے ختنے نہیں کیے تو ہم کریں گے۔۔۔ یہ ہماری ثقافت ہے۔‘’میری بڑی بیٹی 18 سال کی ہو گئی ہے اور میری چھوٹی بیٹی 16 سال کی ہے لیکن انھیں کاٹا نہیں گیا۔ اور میں اس وجہ سے خوش ہوں۔‘’جب ان کی شادی ہوگی تو مجھے رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لوگکہتے ہیں تمہیں اپنی لڑکیوں کے ختنے کرنے ہوں گے۔ وہ اکثر نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں۔‘کینیا اور ہمسایہ تنزانیہ کے کچھ حصوں میں بولی جانے والی زبان میں ان کی بیٹیوں کو بعض اوقات ’موسگان‘ کہا جاتا تھا جس کا مطلب ہے ’بغیر ختنے کی لڑکی۔‘’میں نے انھیں بتایا کہ میرا ختنہ ہوا ہے اور اس نے واقعی مجھے ذہنی طور پر متاثر کیا ہے۔ بعض اوقات، مجھے کچھ جسمانی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے اکثر پیشاب کی نالی میں بہت سارے انفیکشن ہو جاتے ہیں۔‘میڈیکلائزڈ ایف جی ایم: ’ایک خاموش عمل‘کینیا میں گذشتہ 30 سالوں میں 15 سے 19 سال کی عمر کی لڑکیوں میں ختنے یا فیمیل جینیٹیل میوٹیلیشن (ایف جی ایم) کی شرح نصف سے زیادہ ہے۔کینیا کے حکام کی جانب سے ایف جی ایم پر پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد کیتھرین کا کہنا ہے کہ کچھ پریشان کن رجحانات سامنے آئے ہیں کیونکہ ایسا (ختنے) کرنے والوں نے اب پکڑے جانے کے ڈر سے بچنے کے لیے نئے طریقے شروع کر دیے ہیں۔لڑکیوں کے ختنے 10 سے 12 سال کی عُمر میں کیے جاتے تھے اور یہ باقاعدہ ایک تقریب کی صورت میں کھلے عام صبح سویرے ہوتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ اب تو چھ سال کی عمر کی لڑکیوں کے بھی ختنے کیے جا رہے ہیں تاکہ ان کا پتہ نہ چل سکے۔وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ (میڈیکلائزڈ ایف جی ایم) بہت خاموشی سے کر دیا جاتا ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’اعداد و شمار سامنے نہیں آرہے ہیں کیونکہ لوگ اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’وہ بس کاٹتے ہیں اور پھر چھپ جاتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’جو کمیونٹیز ایف جی ایم پر عمل پیرا ہیں، وہ کُچھ قدم آگے بلکہ یوں کہ لیں کہ حد پار کر رہی ہیں۔ وہ اب بھی لڑکیوں کو ڈرا رہی ہیں، لیکن اب وہ انھیں لڑکوں کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔‘’وہ یہ کام اتنی تیزی سے صرف اس لیے کرتے ہیں کہ کہیں وہ پکڑے نہ جائیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس بات کا خیال بھی نہیں رکھتے کہ جن کے ختنے وہ کر رہے ہوتے ہیں انھیں کتنی تکلیف اورکتنا نقصان پہنچے گا۔ لڑکیوں کے ختنے نامناسب طریقے سے کیے جا رہے ہیں اور اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ اُن کا معائنہ کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے انتہائی عجلت میں یہ کام کیا ہو۔‘بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسیف کا کہنا ہے کہ سنہ 2020 تک دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 52 ملین لڑکیوں اور خواتین کو ہیلتھ ورکرز کی جانب سے ایف جی ایم سے گزرنا پڑا تھا۔اپریل میں عالمی ادارہ صحت نے طبی طور پر ایف جی ایم کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں خدشات کے بعد اپنی ہدایات کو اپ ڈیٹ کیا تھا۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ’کچھ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ طبی عملے کے کارکنوں کے ذریعہ انجام دینے پر یہ اور بھی خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں زخم گہرا اور شدید تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔‘’ڈاکٹر اس کی نگرانی کر رہے ہیں‘یونیسیف کے مطابق مصر میں سنہ 2008 میں لڑکیوں کے جنسی اعضا کاٹنے یا ختنے کرنے پر باضابطہ طور پر پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود ادارے کے مطابق اب بھی دنیا بھر میں یہاں ایف جی ایم کی شرح سب سے زیادہ 87 فیصد ہے۔مصر میں بھی ’میڈیکلائزڈ ایف جی ایم‘ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ایف جی ایم سرجری میں مہارت رکھنے والی کاسمیٹک اور ری کنسٹرکٹو سرجن ڈاکٹر ریحام عواد کہتی ہیں کہ ’ایف جی ایم کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے اس لیے یہ غلط فہمی ہی ہے کہ یہ لڑکیوں اور نوجوان خواتین کے لیے محفوظ یا کم نقصان دہ ہے۔‘انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہر ڈاکٹر اسے مختلف طریقے سے انجام دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس مختلف پیچیدگیوں کے ساتھ کیسز کی ایک وسیع اقسام آتی ہیں۔‘کیتھرین کی طرح ڈاکٹر عواد کا بھی یہی خیال ہے کہ طبی عملے کے لیے اس عمل کو انجام دینے کی بنیادی ترغیب ضروری طور پر مالی نہیں ہے بلکہ ان کے لیے یہ ایک گہرا ثقافتی اور معاشرتی اصول ہے۔ڈاکٹر عواد ڈبلیو ایچ او کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایف جی ایم کو طبی شکل دینے سے اس عمل کو قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ کمیونٹی کے معزز اور قابل اعتماد افراد کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’میڈیکلائزڈ ایف جی ایم اتنے خطرناک ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ختنے کےلیے کتنی گہرائی سے کاٹا جاتا ہے لیکن نقصان اس حقیقت اور اس بات سے ہوتا ہے کہ یہ خواتین ڈاکٹروں پر اعتماد کرتی ہیں، لہذا وہ سوچتی اور سمجھتی ہیں کہ وہ اس عمل کو صحیح طریقے سے انجام دیں گی یا کم سے کم نقصان کا خدشہ ہوگا جبکہ ایسا ہوتا نہیں۔‘ان کے مطابق ’ایف جی ایم کرنے کے بارے میں کوئی مناسب یا باقاعدہ سکھایا گیا طریقہ کار نہیں ہے درحقیقت، یہ ایک بے ترتیب طریقہ کار ہے جو سب کرتے چلے آرہے ہیں اور کر رہے ہیں۔‘کیتھرین اپنے ملک کینیا میں لڑکیوں کے مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ کچھ کلسٹرز میں ایف جی ایم کیا جاتا ہے، تاہم انھوں نے سست لیکن مستحکم پیش رفت دیکھی ہے۔یونیسیف کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کینیا میں گذشتہ 30 سالوں میں 15 سے 19 سال کی عمر کی لڑکیوں میں ایف جی ایم کی شرح 26 فیصد سے کم ہو کر 9 فیصد ہو گئی ہے۔شہزادی لطیفہ: متحدہ عرب امارات میں خواتین کو کتنی آزادی حاصل ہے؟صومالیہ: کم سن لڑکی ختنے کے بعد مر گئیختنوں کے بعد سرجری کروانے والی خاتون: ’جب پہلی مرتبہ کلیٹورس کو دیکھا تو لگا یہ میرے جسم کا حصہ نہیں‘مصر میں لڑکیوں کے ختنے: کیا نئی قانون سازی مسئلے کا حل ہے؟سوڈانی دلہنیں شادی سے قبل ختنہ کیوں کرواتی ہیں؟’ختنہ کی وجہ سے مجھے اپنا آپ کمتر محسوس ہونے لگا‘