
زمبابوے کے سابق ٹی ٹوئنٹی کپتان اورٹیسٹ آ ل راؤنڈر سکندر رضا نے پاکستان سپر لیگ میں غیر معمولی کارکردگی دکھاتے ہوئے لاہور قلندرز کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ سکندر رضا ائیر فورس میں پائلٹ بننے کی خواہش رکھتے تھے تاہم وہ کرکٹر بن گئے۔زمبابوے میں معروف فٹبال کلب کے سابق کپتان کیلئے بنائے گئے نغمے کو اب لوگ سکندر رضا کیلئے گاتے ہیں۔سکندر رضا کی تعلیم، پائلٹ کیوں نہ بن سکے؟سکندر رضا سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور اسی شہر کی گلیوں میں انہوں نے کرکٹ کھیلنا شروع کی۔سیالکوٹ میں سکندر رضا کے والد گاڑیوں کی خرید و فروخت کاکام کرتے تھے اور زمبابوے میں جاکر انہوں نے یہی کام شروع کیا، اس دوران سکندر رضا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اسکاٹ لینڈ گئے۔سکندر رضا پاکستان ائیرفورس میں پائلٹ بننا چاہتے تھے لیکن آنکھوں کے ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہونے پر اُن کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا، وہ اپنے والدین کے ساتھ ا سکاٹ لینڈ چلے گئے جہاں انہوں نے سافٹ ویئر انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔کرکٹ کیرئیر:سکندر رضا 2007 سے زمبابوے کی کرکٹ سے وابستہ ہیں، انہوں نے اپنے ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز 2013 میں پاکستان ہی کے خلاف ہرارے میں کیا تھا۔سکندر رضا کی زمبابوے میں مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ زمبابوے کے سب سے بڑے فٹ بال کلب کے سابق کپتان کے لیے بنائے گئے نغمے ’مونیا‘ کو اب لوگ سکندر رضا کے لیے گاتے ہیں جب کہ کرکٹ گراؤنڈز میں اس نغمے کے دوران فٹ بال کپتان کے نام کی جگہ ’رضا‘ کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔سکندر رضا خود کو زمبابوین کہتے ہیں کیونکہ وہ گزشتہ 2 دہائیوں سے زمبابوے میں اپنی اہلیہ اور 2 بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔سکندر رضا نے بتایا کہ طالب علمی کے زمانے میں ان کی زندگی صرف پڑھائی تک ہی محدود تھی، وہ گلیوں میں ٹیپ بال کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔سکندر رضا نے بتایا کہ 2003 میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ زمبابوے آگئے تھے لیکن جلد ہی وہ تعلیم کے حصول کے لیے اسکاٹ لینڈ چلے گئے جہاں سے انہوں نے سافٹ انجینئرنگ میں بیچلر ڈگری مکمل کی، اس وقت تک وہ یہ فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ انہیں کرکٹ میں اپنا کیرئیر بنانا ہے یا نہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے ان کے پاس صرف ایک ہی سال تھا کیونکہ 2009 میں اگر وہ یہ فیصلہ نہ کرتے تو ممکن تھا کہ وہ اپنی ماسٹر ڈگری کے لیے دوبارہ اسکاٹ لینڈ چلے جاتے۔سکندر رضا اسکاٹ لینڈ میں بھی کلب کرکٹ کھیلتے رہے لیکن ان دنوں انہوں نے پیشہ ورانہ کرکٹر کے طور پر کھیلنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا، اس وقت جن لوگوں نے انہیں کھیلتے دیکھا، انہیں بھی ایسا کبھی نہیں لگا کہ وہ ایک پروفیشنل کرکٹر بن سکتے ہیں۔زمبابوے کرکٹ ٹیم کے سابق کوچ اسٹیفن مینگونگو کا کہنا ہے، ’سکندر نے جب کلب کرکٹ کا آغاز کیا تو وہ ایک عام سے کھلاڑی تھے لیکن ان میں کھیلنے کا جذبہ اور سیکھنے کی لگن دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا‘۔وہ کئی انٹر نیشنل میچوں میں میچ وننگ کارکردگی دکھا چکے ہیں لیکن ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں اپنے آبائی ملک پاکستان کے خلاف کارکردگی کو وہ یادگار قرار دیتے ہیں۔2022 میں آسٹریلیا میں سکندر رضا نےزمبابوے کو پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میچ میں ایک رن کی ڈرامائی کامیابی دلوائی، وہ پاکستان کے خلاف کارکردگی کو اپنے کیرئیر کا سب سے یادگارلمحہ ہ قرار دیتے ہیں۔میچ میں سکندر رضا بیٹنگ میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے لیکن بولنگ میں شان مسعود، حیدر علی اور شاداب خان کی اہم وکٹیں لے کر کھیل کا پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہو گئے۔زمبابوے نے محض دوسری مرتبہ پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں شکست دی ہے، اس سے قبل 2021 میں ہرارے میں بھی اس نے ایک کم سکور 118 کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کو صرف 99 رنز پر آؤٹ کر کے میچ 19 رنز سے جیتا تھا۔سکندر رضا کہتے ہیں ’پاکستان کے خلاف میچ سے قبل رات کو میں صحیح سو نہیں سکا چونکہ اس میچ کی میرے نزدیک بہت زیادہ اہمیت تھی لہٰذا میں اس بارے میں سوچتا رہا تھا کہ کس طرح بیٹنگ کرنی ہے، میں نے کچھ نوٹس بھی تیار کیے اور میں انہیں بار بار پڑھتا رہا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ زمبابوے کو بڑی ٹیموں کے خلاف کھیلنے کا موقع کم ملتا ہے، فلڈ لائٹس میں ہمیں کھیلنے کا کم ہی موقع ملا ہے، میں خود پرتھ میں پہلی بار کھیلا ہوں، میرا جسم سو رہا تھا لیکن دماغ جاگ رہا تھا اور اس میچ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔پی ایس ایل 10 کا فائنل:پاکستان سپر لیگ فائنل میں سکندر رضا نے لاہور قلندرز کو تیسری بار پی ایس ایل چیمپئن بنوانے میں بھی اہم کردار ادا کیا، اپنی پہلی ہی گیند پر محمد عامر کو چھکا اور پھر آخری اوور میں فہیم اشرف کو ایک چھکا اور پھر وننگ چوکا لگاکر انہوں نے ٹیم کو فتح سے ہمکنار کروایا۔میچ جیتنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ انگلینڈ میں جیسے ہی ٹیسٹ میچ ختم ہوا تو مجھے ثمین رانا کی کال آئی اور مجھے کہا کہ فوراً فلائٹ پکڑکے پاکستان پہنچو، میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ناٹنگھم میں کوئی فلائٹ دستیاب نہیں تو تمہیں برمنگھم پہنچنا ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ وہاں سے کسی طرح بھاگ کر ہوٹل آیا، سامان بھی پیک نہیں کیا اور ایک دوست نے مجھے اپنی گاڑی میں ائیرپورٹ پہنچایا، فلائٹ پکڑ کر دبئی پہنچا، ڈیڑھ گھنٹہ گاڑی چلاکر ابو ظبی پہنچا اور وہاں سے سیدھا لاہور میں 6 بجکر 50 پر لینڈ کیا، 7.20 پر ڈریسنگ روم میں آیا، 7 بجکر 25 منٹ پر قومی ترانے کے لیے گراؤنڈ میں داخل ہوا اور ساڑھے 7 بجے پہلی گیند ہوئی، اب یہ سب خواب دکھائی دیتا ہے۔