سعودی عرب میں فٹبال ورلڈ کپ کے لیے نئے سٹیڈیم کی تعمیر اور پاکستانی مزدور کی ہلاکت: ’بس یہ ہونا تھا، اب کوئی کچھ نہیں کر سکتا‘


’میں نے بھی زندگی بھر کنسٹرکشن کا ہی کام کیا اور میں جانتا ہوں کہ اس لائن میں کام کرنے والوں کے ساتھ اکثر ایسے حادثات ہو جاتے ہیں۔۔۔ بس یہ ہونے والی بات تھی جو ہو گئی۔ اس میں اب کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔‘یہ الفاظ رواں برس مارچ میں سعودی عرب کے مشرقی شہر الخبر میں ایک سٹیڈیم کی تعمیر کے دوران تعمیراتی مقام سے گر کر ہلاک ہونے والے پاکستانی فورمین محمد ارشد کے والد حاجی محمد بشیر کے ہیں۔ خیال رہے محمد ارشد کی ہلاکت کو سعودی عرب میں فٹبال ورلڈ کپ کے لیے ہونے والے تعمیراتی کام سے متعلق پہلی ہلاکت قرار دیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب 2034 میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کرے گا اور اس سلسلے میں وہاں بہت سے نئے سٹیڈیم تعمیر کیے جائیں گے۔حاجی محمد بشیر نے بی بی سی کے روحان احمد کو بتایا کہ ارشد گذشتہ 10-12 برس سے سعودی عرب میں کنسٹرکشن کے شعبے سے وابستہ تھے۔انھوں نے تصدیق کی کہ ان کے بیٹے کی وفات رواں برس مارچ میں اس وقت ہوئی جب وہ سعودی عرب کے ایک فُٹبال سٹیڈیم میں کام کر رہے تھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کی موت کی خبر انھیں ان کے گاؤں جالگلی (مانسہرہ کا گاؤں) کے ان افراد نے دی جو وہاں ان کے بیٹے کے ساتھ ہی موجود تھے۔محمد ارشد کے والد کا کہنا تھا کہ ان کی لاش پاکستان لانے میں پاکستانی سفارتخانے نے بھی ان کی مدد کی تھی اور میت کے ساتھ تین، چار گاؤں کے لوگ بھی پاکستان آئے تھے۔انھوں نے بتایا کہ ارشد کے تین بچے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا دوسرا بیٹا اس وقت سعودی عرب میں ہی ہے اور معلومات اکٹھی کر رہا ہے کہ ارشد کی تنخواہ یا معاوضہ کسی طرح سے اس کے خاندان تک پہنچ جائے جو مشکلات کا شکار ہے۔‘انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ سعودی عرب میں تارکین وطن تعمیراتی مزدوروں کی ہلاکتوں میں ’خطرناک حد تک اضافہ‘ ہو رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک 2034 میں ورلڈ کپ کی میزبانی کی تیاریاں کر رہا ہے۔ہیومن رائٹس واچ اور فئیر سکوائر کی جانب سے 14 مئی کو جاری کردہ رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سعودی عرب میں مزدور ایسے جان لیوا حادثات کا شکار ہو رہے ہیں جن سے بچنا ممکن ہے۔ رپورٹس کے مطابق مزدوروں کی ان اموات کو غلط طور پر ’قدرتی وجوہات‘ قرار دے کر ریکارڈ کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے خاندانوں کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔دونوں تنظیموں نے سعودی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں موجود کثیر تعداد میں تارکین وطن مزدوروں کے لیے بنیادی حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں۔ورلڈ کپ 2022: قطر میں ہونے والا فٹبال ورلڈ کپ اتنا متنازع کیوں؟’میرا بیٹا میرا ہیرو تھا‘: قطر میں روزگار کے سلسلے میں جانے والوں کی اموات پر اٹھتے سوالاتقطر کرین حادثے میں ہلاک ہونے والے پاکستانی: ’چھٹی ملنا مشکل ہے، فٹبال ورلڈ کپ کے بعد آنے کی کوشش کروں گا‘انڈیا کے مزدور استحصال کے باوجود کام کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ہیومن رائٹس واچ کی گلوبل انیشیٹوز کی ڈائریکٹر منکی ورڈن کا کہنا ہے کہ ’2034 کا سعودی ورلڈ کپ تاریخ کا سب سے بڑا اور مہنگا ایونٹ ہو گا، لیکن یہ انسانی جانوں کے ضیاع کے لحاظ سے بھی سب سے بھاری ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ لاکھوں تارکین وطن مزدور ایسے انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں مصروف ہیں جس میں 11 نئے سٹیڈیمز، ریل اور ٹرانزٹ نیٹ ورک اور 185000 ہوٹل کمرے شامل ہیں۔‘یہ تنبیہ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فیفا کے صدر جیانی انفانتینو نے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمراہ سعودی عرب کا دورہ کیا اور ایک امریکی-سعودی سرمایہ کاری فورم میں شرکت کی۔فیفا کا دعویٰ ہے کہ وہ ’اپنے تمام آپریشنز میں انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے پُرعزم ہے‘لیکن ہیومن رائٹس واچ نے فیفا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے قطر میں 2022 ورلڈ کپ سے قبل مزدوروں کی اموات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔سعودی عرب میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو محدود رسائی حاصل ہے اور مزدور یونینز پر پابندی عائد ہے، جس کے باعث تارکین وطن کی اموات سے متعلق درست اعداد و شمار دستیاب نہیں۔تاہم ہیومن رائٹس واچ نے بنگلہ دیش، انڈیا اور نیپال سے تعلق رکھنے والے 31 مزدوروں کے اہلِ خانہ سے انٹرویوز کیے جو یا تو اونچائی سے گر کر یا بھاری مشینری کے نیچے آکر کچلے گئے یا بجلی کا جھٹکا لگنے سے ہلاک ہوئے۔گرمی کی شدت بھی ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ سعودی عرب میں ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لیے تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے۔پچھلے سال سعودی حکومت نے کہا تھا کہ پیشہ ورانہ صحت و سلامتی کے شعبے میں ’واضح کامیابیاں‘ حاصل ہوئی ہیں اور اموات و حادثات کی شرح میں کمی آئی ہے۔فیفا نے بھی 2018 سے سعودی عرب کی جانب سے لیبر قوانین میں اصلاحات کے لیے کیے گئے ’اہم اقدامات‘ کی تعریف کی۔ لیکن عالمی تعمیراتی ورکرز یونین بی ڈبلیو آئی کا کہنا ہے کہ ایسے حادثات میں ’تشویشناک اضافہ‘ ہوا ہے جن سے بچا جا سکتا تھا۔بی ڈبلیو آئی کے سیکریٹری جنرل ایمبیٹ یوسون نے کہا کہ ’یہ سب منظم غفلت، کرپشن اور ناکافی نگرانی و احتساب کا نتیجہ ہے۔‘انسانی حقوق پر کام کرنے والے ادارے فیئر سکوائر کے مطابق سعودی طبی حکام شاذ و نادر ہی تارکینِ وطن مزدوروں کی اموات کی اصل وجہ جاننے کے لیے پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔فیئر سکوائر کے شریک ڈائریکٹر جیمز لنچ نے کہا کہ ’لاکھوں نوجوان مرد، جن میں سے بہت سے نو عمر بچوں کے کفیل ہیں، ایک ایسے مزدوری نظام میں دھکیلے جا رہے ہیں جو ان کی جانوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ساتھ ہی ایک ایسا طبی نظام ہے جو ان کی موت کی وجوہات جانچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور ایک ایسا سیاسی نظام جو نہ انھیں تحفظ دیتا ہے اور نہ ان کی موت کی وجوہات جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دینا تو دور کی بات ہے۔‘انھوں نے فیفا کی انسانی حقوق سے متعلق پالیسیوں کو ’محض دکھاوا‘ قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’جب فیفا سعودی عرب کی بے جا تعریفوں کے پل باندھتا ہے اور مہنگی مغربی لا فرمیں سعودی عرب کی ساکھ بہتر بنانے کے بدلے لاکھوں ڈالر کماتی ہیں، تو نیپال جیسے ملکوں میں بچے باپ کے بغیر بڑے ہوتے ہیں اور انھیں کبھی یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے والد کی موت کیسے ہوئی۔‘Getty Imagesفیفا نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا ہے کہ وہ سعودی عرب میں ورلڈ کپ سے متعلقہ تعمیراتی کاموں اور خدمات کی فراہمی کے لیے ایک ’ورکرز ویلفیئر سسٹم‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں لازمی معیارات اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار شامل ہوں گے۔فیفا نے ایک خط میں لکھا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ ورلڈ کپ کے منصوبوں پر کام کرنے والی تعمیراتی کمپنیوں کو مزدوروں کے حقوق کا احترام کرنے کا پابند بنانے کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، وہ نہ صرف سعودی عرب میں ورکرز کے تحفظ کے لیے ایک نیا معیار قائم کر سکتے ہیں بلکہ ملک میں جاری لیبر ریفارمز کے عمل میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔‘تاہم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ فیفا کی جانب سے یہ وضاحت نہیں دی گئی کہ یہ ویلفیئر سسٹم درحقیقت کیسے کام کرے گا۔تنظیم کا کہنا ہے: ’سعودی حکام، فیفا اور دیگر آجرین کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ تمام تارکینِ وطن مزدوروں کی اموات (چاہے ان کی وجہ وقت یا مقام کچھ بھی ہو) کی مکمل اور شفاف تحقیقات کی جائیں اور ہلاک ہونے والے مزدوروں کے خاندانوں کے ساتھ عزت سے پیش آیا جائے اور انھیں بروقت اور منصفانہ معاوضہ دیا جائے۔‘بی بی سی نے اس معاملے پر تبصرے کے لیے سعودی حکام سے رابطہ کیا ہے۔انڈیا کے مزدور استحصال کے باوجود کام کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟قطر کرین حادثے میں ہلاک ہونے والے پاکستانی: ’چھٹی ملنا مشکل ہے، فٹبال ورلڈ کپ کے بعد آنے کی کوشش کروں گا‘قطر: فٹبال ورلڈ کپ کے لیے کنٹینروں سے بنایا گیا عارضی سٹیڈیم  قطر میں پاکستان سمیت مختلف ملکوں سے آنے والے مزدوروں سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟ ’میرا بیٹا میرا ہیرو تھا‘: قطر میں روزگار کے سلسلے میں جانے والوں کی اموات پر اٹھتے سوالاتورلڈ کپ 2022: قطر میں ہونے والا فٹبال ورلڈ کپ اتنا متنازع کیوں؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید کھیلوں کی خبریں

فاسٹ بالرمحمد وسیم جونیئر بنگلا دیش کیخلاف ٹی 20 سیریز سے باہر

پاکستان نے سکواش آن فائر جونیئر گولڈ ٹورنامنٹ جیت لیا

سید محسن گیلانی، پاکستان فٹبال فیڈریشن کے نئے صدر منتخب

سعودی عرب میں فٹبال ورلڈ کپ کے لیے نئے سٹیڈیم کی تعمیر اور پاکستانی مزدور کی ہلاکت: ’بس یہ ہونا تھا، اب کوئی کچھ نہیں کر سکتا‘

رونالڈو نے النصرکو خیر باد کہہ دیا، مداح حیران

سکندررضا فائٹر پائلٹ کیوں نہ بن سکے؟ کرکٹر کا اہم کا انکشاف

سکندر رضا پائلٹ کیوں نہ بن سکے؟ کرکٹر کا اہم انکشاف

پاکستان میں فائٹر پائلٹ بننے کا خواب مگر زمبابوے کی نمائندگی: سکندر رضا سمیت پانچ پاکستانی نژاد کرکٹرز کی کہانیاں

پی ایس ایل 10 ٹیم آف دی ٹورنامنٹ: شاہین کپتان، بابر اعظم اور محمد رضوان شامل نہیں

پی ایس ایل کی بحالی چیلنج تھا، کامیاب تکمیل فتح ہے: محسن نقوی

پی ایس ایل 10 کی کامیابی بزدل دشمن کیلئے شکست ہے، محسن نقوی

سکندر رضا سمیت وہ پاکستانی نژاد کھلاڑی جنھوں نے دنیا میں دوسری ٹیموں کے لیے نام پیدا کیا

ٹاس سے 10 منٹ پہلے انگلینڈ سے لاہور پہنچنے والے سکندر رضا نے قلندرز کو کیسے چیمپئن بنایا؟

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو شکست، لاہور قلندرز پی ایس ایل 10 کا چیمپئن بن گیا

’فلائٹ کروا رہے ہیں جلدی سے پکڑ‘: ناٹنگھم سے لاہور تک کا ناقابلِ یقین سفر کرنے والے سکندر رضا نے بازی قلندرز کے حق میں کیسے پلٹی

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی