راولاکوٹ میں ’غار میں پولیس مقابلہ‘ اور مبینہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت پر تنازع کیوں؟


پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ دنوں ضلع راولاکوٹ کے جنگل میں ہوئے ایک پولیس مقابلے میں جن چار شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے اُن میں مبینہ طور پر کشمیر میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بھی شامل ہیں۔پولیس حکام نے کشمیر میں ٹی ٹی پی کے مارے جانے والے اس مبینہ سربراہ کی شناخت زرنوش نسیمکے طور پر کی ہے۔ ہلاک ہونے والے دیگر مبینہ شدت پسندوں میں زرنوش نسیم کے چھوٹے بھائی جبران نسیم اور پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والے الفت علی شامل ہیں، جبکہ چوتھے شخص کی شناخت ممکن نہیں ہو سکی ہے۔کشمیر پولیس کے مطابق مبینہ شدت پسندوں سے ہوئے اِس مقابلے میں دو پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔دوسری جانب بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے زرنوش اور جبران کے والد محمد نسیم نے الزام عائد کیا ہے کہ اُن کے بیٹوں پر گذشتہ کچھ عرصے سے پولیس کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا تھا جس کے باعث وہ روپوش تھے۔ انھوں نے کہا کہ اُن کے دو ہی بیٹے تھے اور وہ اس معاملے میں انصاف کے حصول کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ہلاک ہونے والے دونوں بھائیوں کی نماز جنازہ جمعرات (29 مئی) کو ضلع باغ میں اُن کے آبائی علاقے میں ادا کی گئی ہے۔ نماز جنازہ کے موقع پر احتجاج کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ اس واقعے کی جوڈیشنل انکوائری کروائی جائے۔ بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کشمیر حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ مکمل طور پر شفاف ہے تاہم اگر لواحقین کو کوئی شکوک و شبہات ہیں تو اس پر مزید انکوائری ہو سکتی ہے۔Getty Imagesیہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا؟ایس ایس پی راولاکوٹ ریاض مغل نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس گذشتہ کافی عرصے سے اُن مبینہ شدت پسندوں کے تعاقب میں تھی اور اِن کی گرفتاری کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ریاض مغل کے مطابق حالیہ دنوں میں پولیس کو یہ اطلاع ملی تھی کہ زرنوش نسیم اور اُن کا گروپ کشمیر میں شدت پسندی کی کوئی بڑی کارروائی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جس کے باعث پولیس ہائی الرٹ تھی۔ایس ایس پی راولا کوٹ نے دعویٰ کیا کہ 28 مئی (بدھ) کو پولیس کو یہ اطلاع ملی کہ یہ ملزمان راولاکوٹ کے قریب جنگل میں موجود ایک غار میں چھپے ہوئے ہیں، جس پر اس علاقے کا گھیراؤ کر لیا گیا۔انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ گھیراؤ کرنے کے بعد اُس غار پر چھاپہ مارا گیا اور ملزمان کو ہتھیار چھوڑ کر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے کا کہا گیا تاہم اسی دوران ہلاک ہونے والے ایک ملزم جبران نسیم نے مبینہ طور پر پولیس پارٹی پر ہینڈ گرینڈ پھینکا جس سے ایک پولیس اہلکار موقع پر ہلاک ہو گیا جبکہ دوسرا اہلکار ہسپتال پہنچ کر وفات پا گیا۔ایس ایس پی راولا کوٹ کے مطابق اس دوران ملزمان کی جانب سے پولیس پر فائرنگ کی گئی جس سے کئی اہلکار زخمی ہوئے اور جوابی فائرنگ میں غار میں موجود چاروں ملزمان ہلاک کر دیے گئے۔کیا طالبان حکومت کی انڈیا سے بڑھتی قربت ’افغانستان میں پاکستان کو شکست‘ دینے کی کوشش ہے؟پہلگام: انڈیا میں تحقیقات کہاں تک پہنچیں اور پاکستان کیوں غیر جانبدارنہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے؟کیا پڑوسیوں سے خراب تعلقات انڈیا کو افغان طالبان کی طرف دھکیل رہے ہیں؟پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مدارس بند، سیاحوں کی آمد پر پابندی: ’مدارس انڈیا کی کسی بھی ممکنہ کارروائی کا آسان ہدف ہو سکتے ہیں‘’زرنوش کشمیر میں طالبان کے ٹھکانے بنانا چاہتے تھے‘اس آپریشن کے بعد انسپکٹر جنرل آف کشمیر رانا عبدالجبارنے جمعہ کی صبح ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہلاک ہونے والے مبینہ شدت پسند زرنوش نسیم کے افغانستان میں موجود شدت پسند تنظیم تحریکطالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے ساتھ رابطے تھے اور وہ کشمیر میں اُن کے ٹھکانے بنانا چاہتے تھے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ گروپ کشمیر میں ’دہشت گردی کے بڑے واقعات کی منصوبہ بندی‘ کر رہا تھا۔رانا عبدالجبار نے مزید دعویٰ کیا کہ پولیس کو مسلسل اطلاعات مل رہی تھیں کہ زرنوش نسیم اور اُن کا گروہ افغانستان میں موجود ایک شخص ڈاکٹر رؤف اور غازی شہزاد نامی شخص سے رابطے میں تھے۔واضح رہے کہ گذشتہ سال راولاکوٹ جیل سے فرار ہونے والوں میں غازی شہزاد نامی شخص بھی شامل تھے اور کشمیر پولیس کے مطابق اُن کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات قائم تھے۔آئی جی رانا عبدالجبار کے مطابق غازی شہزاد کشمیر سے فرار ہو کر افغانستان پہنچ گئے تھے اور ٹی ٹی پی کا حصہ بن گئے تھے جبکہ ہلاک ہونے والے زرنوش اُن ہی سے ہدایات لے رہے تھے۔آئی جی رانا عبدالجبار نے دعویٰ کیا کہ 27 اکتوبر 2024 کو ضلع باغ میں ایک پولیس چوکی پر ہونے والے حملے میں زرنوش اور ان کا گروہ ملوث تھا اور اس حملے میں ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق یہ گروہ اسی علاقے میں ایک پولیس پارٹیپر مسلح حملے میں بھی ملوث تھا جس میں کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔رانا عبدالجبار کا دعویٰ تھا کہ پولیس اس گروپ کے تعاقب میں تھی اور اس گروہ سے منسلک چند افراد کو گذشتہ دنوں میں گرفتار کیا گیا اور اُن سے تفتیش کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ زرنوش نسیم اس گروپ کی قیادت کر رہا ہے۔آئی جی کشمیر رانا عبدالجبار نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اس حوالے سے تفتیش جاری ہے اور اس وقت ہم اس کے سلپینگ سیل کے حوالے سے تفتیش کررہے ہیں اور یہ بھی تفتیش جاری ہے کہ ہلاک ہونے والوں کو کون کون مدد فراہم کر رہا ہے۔'اس بارے میں مقامی صحافی نصیر چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں یہاں ٹی ٹی پی کی موجودگی کا ذکر کیا گیا ہو اور اس بنیاد پر کارروائی کی گئی ہو۔ اس سے پہلے اس خطے میں ایسا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔'جسٹس (ر) منظور حسین گیلانی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سابق اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں اور خطے میں جرائم کے ٹرینڈز پر گہری نظر رکھتے ہیں۔جسٹس (ر) منظور حسین گیلانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'کشمیر میں پہلی بار ٹی ٹی پی کی موجودگی کی بات سنی ہے۔ بظاہر یہ نہیں لگتا ہے کہ طالبان کشمیر میں کوئی زیادہ تعداد میں موجود ہوں گے۔'اُن کا کہنا تھا کہ کشمیر پولیس نے ماضی قریب میں زرنوش کے والدین اور رشتہ داروں کو کئی مرتبہ پیغام بھیجا کہ وہ اپنے بیٹوں کو سمجھائیں کہ وہ خود کو قانون کے حوالے کر دیں۔پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکیپولیس کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک خودکش بمبار بھی شامل تھا۔دوسری جانب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظمچوہدریانوار الحق نے دعویٰ کیا ہے کہ راولاکوٹ میں ہلاک ہونے والے مبینہ شدت پسندوں میں ’انتہائی مطلوب دہشت گرد الفت علی‘ بھی شامل ہے جو کہ ’پاکستان میں کئی خودکش حملوں کا مطلوب ملزم‘ تھا۔اس واقعے کے بعد اٹھنے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے بتایا جائے کہ ایک جنگل میں خود کش جیکٹ اور جدید اسلحہ کے ساتھیہ لوگ کیا کر رہے تھے۔‘زرنوش نسیم کون تھے؟علاقے کے لوگوں اور اہلخانہ کے مطابق زرنوش نسیم نے ابتدائی تعلیم باغ ہی سے حاصل کی تھی اور اس کے بعد انھوں نے اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کیا تھا۔زرنوش نسیم اسلامک یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران افغانستان بھی گئے تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کے والد راجہ نسیم نے اپنے بیٹے کے افغانستان جانے کی تصدیق کی ہے۔زرنوش نسیم کے چھوٹے بھائی جبران نسیم مظفر آباد کی نجی یونیورسٹی میں آرٹیفشل انٹیلیجنس کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تاہم کچھ عرصہ قبل انھوں نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا۔کشمیر کے مقامی اخبار 'کشمیر دھرتی' کے چیف ایڈیٹر عابد صدیق کے مطابق زرنوش نسیم کا نام پہلی مرتبہ سنہ 2021 میں کشمیر الیکشن کے دوران سُنا گیا تھا۔ کشمیر میں انتخابی مہم چلانے کے لیے صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور بھی آئے تھے اور ایک تقریب کے دوران زرنوش نے اُن پر جوتا اُچھال دیا تھا۔عابد صدیق کے مطابق اس واقعے کے بعد اُن کو گرفتار کیا گیا تھا مگر اُن کے حق میں ہونے والے مظاہروں کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا اور رہائی کے موقع پر مقامی افراد کی جانب سے ان کا استقبال کیا گیا اور انھیں ہار پہنائے گئے۔عابد صدیق کے مطابق زرنوش نے جوتا اچھالنے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ علی امین گنڈاپور نے اپنی ایک تقریر میں کشمیریوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی تھی۔رہائی کے موقع پر بنائی گئی ایک ویڈیو، جس کی تصدیق زرنوش کے اہلخانہ اور دیگر علاقہ مکینوں نے کی ہے، میں زرنوش مجمع سے تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'اگر یہ میرا ذاتی معاملہ ہوتا تو لوگ کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں نہ پہنچتے، مگر یہ کشمیر کی عزت کا معاملہ تھا جس وجہ سے لوگ اتنی بڑی تعداد میں پہنچے ہیں۔'عابد صدیق کا کہنا تھا کہ اس کے بعد زرنوش نسیم کا نام اکثر سُنا جانے لگا اورضلع باغ کی شجاع آباد چوکی پر حملے کے بعد بھی اُن کا نام لیا گیا۔ 'پولیس اُن کی گرفتاری کے لیے کوشش کرتی رہی مگر وہ گرفتار نہیں ہو سکے تھے۔'عابد صدیق کا کہنا تھا کہ اس کے بعد متعدد معاملات میں زرنوش کا نام سامنے آتا رہا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس دوران زرنوش کے بھائی جبران نسیم بھی اُن کے سہولت کار بن گئے تھے۔’انصاف کے لیے آخری حد تک جاؤں گا‘زرنوش کے والد نے اپنے بیٹوں پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کشمیر پولیس کو ایک درخواست دی ہے اور اس معاملے کی کارروائی کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔زرنوش کی جانب سےگذشتہ سال سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس ویڈیو کی تصدیق زرنوش کے والد اور دیگر قریبی رشتہ داروں نے بھی کی ہے۔اس ویڈیو میں زرنوش نسیم دعویٰ کر رہے ہیں کہ اُن کو تھانے بلایا گیا جہاں پر اُن پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ کشمیر ایکشن کمیٹی کے خلاف کام کریں۔ وہ مزید دعویٰ کرتے ہیں کہ ان پر قائم کیے جانے والے مقدمات جھوٹ ہیں۔ہلاک ہونے والے دونوں بھائیوں کے والد راجہ نسیم کا کہنا ہے اُن کے بیٹے دیندار اور علاقے کے لوگوں کی مدد کرنے والے تھے۔ 'اُن کے اخلاق اور کردار کی گواہی سارا علاقہ دے رہا ہے۔ اُن کے نماز جنازہ میں عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی تھی اور وہ میری وجہ سے نہیں بلکہ میرے بیٹوں کے اخلاق و کردار کی وجہ سے تھا۔'راجہ نسیم نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں اُن کے بیٹے زرنوش کو لاپتہ کیا گیا تھا مگر عوامی احتجاج کے بعد اُس کو منظر عام پر لانا پڑا تھا۔اس مؤقف پر پولیس کا دعویٰ ہے کہ زرنوش لاپتہ نہیں ہوئے تھے بلکہ خود روپوش ہوئے تھے کیونکہ ان کے خلاف مقدمات تھے۔والد کے مطابق 'اس کے بعد اس پر بہت سے مقدمے قائم ہوئے اور وہ اس ڈر سے پولیس میں پیش نہیں ہو رہا تھا کہ اس کو پھر لاپتا کر دیا جائے گا۔ زرنوش کی گرفتاری اور اس کو دباؤ میں لانے کے لیے میرے دوسرے بیٹے جبران کی یونیورسٹی میں چھاپے مارے گئے تھے، جس پر اس نے بھی پڑھائی چھوڑ دی تھی۔'اُن کا کہنا تھا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے دونوں بیٹوں سے اُن کا رابطہ نہیں تھا۔راجہ نسیم کا کہنا تھا کہ اُن کے دو ہی بیٹے تھے اور اب اُن کی 'زندگی کا مقصد انصاف کا حصول ہے اور میں اس کے لیے آخری حد تک جاؤں گا۔'یاد رہے کہ زرنوش اور جبران کے ساتھ ہلاک ہونے والے تیسرے شخص الفت علی تھے۔ اُن کے بھائیمحمد اکرم نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اپنے بھائی سے تقریباً ایک سال سے رابطہ نہیں تھا۔ انھوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم کرنے سے معذرت کی۔کیا طالبان حکومت کی انڈیا سے بڑھتی قربت ’افغانستان میں پاکستان کو شکست‘ دینے کی کوشش ہے؟کیا پڑوسیوں سے خراب تعلقات انڈیا کو افغان طالبان کی طرف دھکیل رہے ہیں؟پہلگام: انڈیا میں تحقیقات کہاں تک پہنچیں اور پاکستان کیوں غیر جانبدارنہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

پاکستان اور انڈیا کی عسکری قیادت نے چار روز کی لڑائی سے کیا سیکھا؟

’سیاست ہم پر چھوڑ دیں‘: صدر آصف زرداری کی پاکستانی کرکٹرز سے التجا

پاکستان اور انڈیا کی عسکری قیادت نے چار روزہ لڑائی سے کیا سیکھا؟

تھائی لینڈ کی اوپل سُچاتا جنھوں نے انڈیا میں متنازع مِس ورلڈ مقابلہ جیتا: ’خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے، مقصد باقی رہتا ہے‘

آذربائیجان اور اسرائیل کی سٹریٹجک شراکت داری جو محض ’تیل اور ہتھیاروں تک محدود نہیں‘

’ہمارے پاس ملک گیر احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے‘: عمران خان کا جیل سے پیغام

پیٹرول کی قیمت میں اضافہ.. جانیں فی لیٹر پیٹرول اب کتنے کا ملے گا؟

غزہ میں اسرائیلی فائرنگ سے 26 فلسطینی ہلاک: ’ہزاروں فلسطینی خوراک حاصل کرنے کے لیے جمع تھے کہ اچانک اسرائیلی ٹینکوں نے فائرنگ شروع کر دی‘

کراچی میں 3.6 شدت کے زلزلے کے جھٹکے.. مرکز کیا تھا؟

اے آئی تھیراپسٹ: ’جب آپ کو کوئی مدد دستیاب نہ ہو تو انسان تنکے کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے‘

جنرل انیل چوہان کے انٹرویو پر انڈیا میں ردِعمل: ’بلومبرگ ٹی وی پر نقصانات کا اعتراف کر سکتے ہیں تو اپنے ملک میں خاموشی کیوں؟‘

چھ سالہ بیٹی کو ’فروخت کرنے والی‘ ماں کو عمر قید: ’والدہ نے کہا وہ اپنا ہر بچہ 1100 ڈالر میں فروخت کرنا چاہتی ہیں‘

’ایک بھی پروجیکٹ وقت پر پورا نہیں ہوا‘: ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس کی خواہاں انڈین فضائیہ کو دفاعی منصوبوں میں تاخیر پر تشویش کیوں؟

ہنسی کرونیئے: میچ فکسنگ میں ملوث سابق جنوبی افریقی کپتان جو اپنے ساتھ کئی راز لے گئے

جنگ بندی کی تجویز پر حماس فلسطینی قیدیوں کے بدلے 10 زندہ اور 18 مردہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی