آذربائیجان اور اسرائیل کی سٹریٹجک شراکت داری جو محض ’تیل اور ہتھیاروں تک محدود نہیں‘


Getty Imagesآذربائیجان کے وزیر دفاع ذاکر حسنوف کے حالیہ دورۂ اسرائیل کے بعد دونوں ممالک کے قریبی تعلقات ایک بار پھر سے موضوعِ بحث بن گئے ہیں۔اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل کی حمایت کرنے پر آذربائیجان کے ہم منصب کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یورو ویژن گانے کے مقابلے میں آذربائیجان کی جانب سے دیے گئے مکمل 12 پوائنٹس دونوں ملکوں کے درمیان سچی دوستی کی علامت ہیں۔اسرائیل اور آذربائیجان کی شراکت داری کی بنیادیں 1990 کی دہائی میں رکھی گئیں جب آذربائیجان نے سوویت یونین سے آزادی حاصل کی۔ سنہ 1991 میں اسرائیل، آذربائیجان کو تسلیم کرنے والے پہلے ممالک میں شامل تھا جس کے فوراً بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے اور اسرائیل نے باکو میں سفارتخانہ کھول لیا۔بی بی سی ترک سروس سے بات کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدا میں ثقافتی روابط سے شروع ہونے والے تعلقات اب توانائی، دفاع اور انٹیلیجنس جیسے اہم شعبوں تک پھیل چکے ہیں۔ آج آذربائیجان اور اسرائیل ایک دوسرے کو تزوراتی اتحادی تصور کرتے ہیں۔آذربائیجان واحد مسلم اکثریتی ملک ہے جو 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے باوجود، اسرائیل کی کھل کر حمایت کرتا رہا ہے۔ تاہم دونوں ممالک اپنے باہمی تعلقات میں محتاط انداز اپناتے ہیں، خاص طور پر ترکی جیسے علاقائی کھلاڑیوں کے تناظر میں۔۔ تاکہ توازن برقرار رکھا جا سکے۔ثقافتی تعاون سے لے کر سٹریٹجک شراکت داری تکجمہوریہ آذربائیجان اور اسرائیل کے درمیان آج کے تعلقات کے اہم ترین پہلو توانائی اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون ہیں۔جمہوریہ آذربائیجان مسلم اکثریتی ممالک میں سب سے بڑی یہودی اقلیتوں میں سے ایک ہے۔ورلڈ جیوش کانگریس کے مطابق جمہوریہ آذربائیجان میں 7000 سے زیادہ یہودی آباد ہیں۔ بعض دیگر ذرائع کے مطابق یہ تعداد 30,000 افراد تک پہنچتی ہے۔بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کے لیے آذربائیجان سینٹر کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین فرید شفیف کا کہنا ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان میں یہودی برادری کی ہزار سالہ تاریخ ہے اور یہ دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کی ترقی کے محرک عوامل میں سے ایک رہی ہے۔ترکی کی قادر خاص یونیورسٹی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر صالح بیکاکی بتاتے ہیں کہ اس فریم ورک کے اندر دونوں ممالک کے درمیان ’ایک باہمی، طویل المدتی اور اعتماد پر مبنی رشتہ‘ قائم ہوا ہے۔آذربائیجان کی خارجہ پالیسی پر تحقیق کرنے والی آزاد محقق نسرین گادیمووا اکبولوت نے بی بی سی ترک سروس کے لیے اپنے ایک تحریری تجزیے میں لکھا کہ دونوں ممالک نے خطے میں اپنے مفادات اور وسائل کو باہمی طور پر استعمال کر کے ایک دوسرے کی ضروریات پوری کی ہیں۔انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اسرائیل اپنی توانائی کی ضروریات کا نصف سے زیادہ حصہ جمہوریہ آذربائیجان سے حاصل کرتا ہے۔یہ تیل زیادہ تر باکو-تبلیسی-جیہان پائپ لائن کے ذریعے ترکی سے گزرتا ہوا بحیرہ روم تک پہنچتا ہے، جہاں سے ٹینکروں کے ذریعے اسرائیل منتقل کیا جاتا ہے۔توانائی کے شعبے میں تعاون یہیں ختم نہیں ہوتا۔ جنوری میں آذربائیجان کی سرکاری تیل کمپنی ایس او سی اے آر نے اسرائیل کے دوسرے سب سے بڑے قدرتی گیس کے ذخیرے تامر گیس فیلڈ میں 10 فیصد شراکت حاصل کر لی، جو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی شراکت داری کو مزید مضبوط کرتی ہے۔Getty Imagesاسرائیل اور جمہوریہ آذربائیجان کے درمیان باہمی تعلقات کا ایک اور اہم ستون دفاعی صنعت ہے۔نسرین گادیمووا اکبولوت اس بات پر زور دیتی ہیں کہ 2016 سے 2021 کے درمیان آذربائیجان کی دفاعی درآمدات کا تقریباً 70 فیصد حصہ اسرائیل سے آیا۔وہ کہتی ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے فراہم کردہ جدید دفاعی آلات نے خاص طور پر 2020 کی ناگورنو-کاراباخ جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔صالح بیچکجی کا کہنا ہے: توانائی، گیس، تیل اور فوجی ساز و سامان کے شعبوں میں تعلقات بہت اہم ہیں۔ مختلف وجوہات کی بنا پر آذربائیجان کے پاس فی الحال دفاعی ساز و سامان کے معاملے میں اسرائیل کا کوئی مؤثر متبادل موجود نہیں۔تاہم بیچکجی یہ بھی کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں ترکی نے دفاعی شعبے میں ترقی کی ہے اور آذربائیجان کے لیے ایک متبادل سپلائر کے طور پر ابھر رہا ہے۔ ان کے مطابق باکو اس شعبے میں موجود خلا کو آہستہ آہستہ پورا کر رہا ہے۔ترک برآمد کنندگان کی ایسوسی ایشن کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، جمہوریہ آذربائیجان ترکی کی دفاعی صنعت کے لیے چوتھا سب سے بڑا برآمدی شراکت دار ہے، جس کا حصہ پانچ فیصد ہے۔فرید شفیف کا کہنا ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو صرف ’تیل اور ہتھیاروں کے تبادلے‘ تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق، آذربائیجان کی ایران سے جغرافیائی قربت کے باعث ان تعلقات میں تاریخی اور جغرافیائی سیاسی مفادات بھی شامل ہیں۔ایران کی مخالفتایران، جو اسرائیل کو خطے میں اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے، جمہوریہ آذربائیجان کے ساتھ زمینی سرحد رکھتا ہے۔تل ابیب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی سٹڈیز سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر گالیا لنڈنسٹراس کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور آذربائیجان دونوں کو ایران کی توسیع پسندانہ اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والی پالیسیوں پر شدید تشویش ہے۔ ان کے بقول، دونوں ممالک اپنے باہمی تعلقات کو بین الاقوامی اور علاقائی نظام میں پیدا ہونے والے عدم استحکام سے نمٹنے کے ایک طریقے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ’بعض اوقات مغربی ممالک ان پر تنقید کرتے ہیں، کیونکہ وہ ان کے حالات اور حدود کو مکمل طور پر نہیں سمجھ پاتے۔‘صالح بیچکجی کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور جمہوریہ آذربائیجان ایران کے خطے میں اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔وہ انٹیلیجنس تعاون کے حوالے سے کہتے ہیں: ’ایران کے بارے میں سب سے قریبی نقطۂ نظر اسرائیل کو جمہوریہ آذربائیجان سے (اسرائیلی سازوسامان کے ذریعے) ہی حاصل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے آذربائیجان کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ بات عوامی سطح پر زیادہ نہیں کہی جاتی لیکن اس ملک کے لیے ایک خاص وژن اور مشن موجود ہے۔‘نسرین گادیمووا اکبولوت اس بات پر زور دیتی ہیں کہ آذربائیجان کی موجودہ حکومت، جس کی قیادت الہام علیوف کر رہے ہیں، ایران میں موجود آذری اقلیت کے لیے کسی بھی قسم کے علیحدگی یا خودمختاری کے مطالبات نہیں رکھتی۔ ان کے مطابق: ’اس تناظر میں، باکو کی کوشش ہے کہ وہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک متوازن پالیسی قائم رکھے۔‘Getty Images7 اکتوبر کو حماس اور غزہ پر حملے7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں نے پورے خطے کی صورتحال کو بدل کر رکھ دیا۔ان دو برسوں میں پہلی بار ایران نے براہ راست اسرائیل کو بیلسٹک میزائلوں اور مسلح ڈرونز سے نشانہ بنایا۔اسرائیل نے جواب میں نہ صرف غزہ بلکہ لبنان اور شام میں بھی کارروائیاں کیں، جن میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کو ہدف بنایا گیا۔غزہ میں اسرائیلی کارروائی کے بعد ترکی سمیت کئی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات محدود کر دیے یا اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔لیکن جمہوریہ آذربائیجان نے اگرچہ عام شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا، پھر بھی اسرائیل کی حمایت جاری رکھی۔نسرین گادیمووا اکبولوت کے مطابق آذربائیجان نے غزہ کے حالات پر تحفظات رکھنے کے باوجود ایک تعمیری کردار ادا کیا۔اکثریتی شیعہ آبادی کے باوجود آذربائیجان ایران کے بجائے اسرائیل کے زیادہ قریب کیوں ہے؟آذربائیجان آرمینیا کشیدگی: ترکی آذربائیجان کی حمایت کیوں کرتا ہے؟آرمینیا اور آذربائیجان کے تنازعے کے اصل وجہ کیا ہے؟’بس، بہت ہو گیا‘: نیتن یاہو کے لیے ہنگامہ خیز ہفتہ، غزہ میں بھوک اور عالمی ’سفارتی سونامی‘ کے بیچ خاموش بیٹھے ٹرمپفرید شفیف کہتے ہیں کہ باکو نے 7 اکتوبر کے حملوں کی مذمت کی اور غزہ میں شہری ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ان کے مطابق ’آذربائیجان دو ریاستی حل کا حامی ہے۔ ہمارا رام اللہ میں دفتر موجود ہے اور 2009-2010 سے فلسطینی سفارت خانہ بھی آذربائیجان میں قائم ہے۔ ہم فلسطین کی آزادی اور دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔‘2023 میں جمہوریہ آذربائیجان نے تل ابیب میں اپنا سفارت خانہ کھولا۔نسرین گادیمووا اکبولوت یاد دلاتی ہیں کہ باکو-تبلیسی-سیہان پائپ لائن جو 2000 کی دہائی میں شروع ہوئی، آذربائیجان سے بحیرہ روم کے ذریعے اسرائیل تک توانائی کی ترسیل کا ایک اہم راستہ بنی۔صالح بیچکجی کے مطابق 2023 کے بعد اسرائیل نے اپنی توانائی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسی پائپ لائن کو ترجیح دی۔ان کا کہنا ہے کہ ’جب دنیا اسرائیل پر پابندیاں لگا رہی تھی، تب اسرائیل صرف دو جگہوں سے تیل خرید سکتا تھا: ناروے یا آذربائیجان۔ ناروے مہنگا تھا جبکہ آذربائیجان نے نہ صرف کوئی پابندی نہیں لگائی بلکہ سستی قیمت پر تیل فراہم کیا۔ اس کے بدلے میں آذربائیجان نے اچھی خاصی آمدنی اور سرمایہ کاری حاصل کی۔‘Getty Imagesترکی کا کردارماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جمہوریہ آذربائیجان اور اسرائیل کے تعلقات میں ترکی کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ترکی آذربائیجان کا قریبی اتحادی ہے، اور اسرائیل کے ساتھ اس کے مضبوط تعلقات پر عوامی سطح پر تنقید سے گریز کرتا ہے، حالانکہ 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد ترکی نے اسرائیل پر سخت تنقید کی تھی۔ترکی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات 1949 میں قائم ہوئے لیکن 2010 میں ماوی مرمرہ واقعے کے بعد ان میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔تقریباً ایک دہائی بعد دونوں ممالک نے تعلقات بحال کرنے کی کوششیں کیں اور صدر اسحاق ہرزوگ اور اس وقت کے وزیر اعظم یائر لاپڈ کے دورہ ترکی کے بعد اگست 2022 میں مکمل سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔تاہم 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فوجی کارروائی کے بعد دونوں ممالک نے ایک بار پھر اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا۔ترکی نے اسرائیلی کارروائی کی شدید مذمت کی، 2024 میں اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا اور اپنی فضائی حدود بھی بند کر دیں۔مئی کے اوائل میں بعض اطلاعات میں کہا گیا کہ ترکی، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے آذربائیجان کے مجوزہ دورے کے لیے اپنی فضائی حدود کھولنے پر غور کر رہا ہے لیکن ترک صدراتی دفتر کے کاؤنٹر فیک نیوز سینٹر نے 3 مئی کو اس دعوے کو غلط قرار دیا۔تل ابیب یونیورسٹی کی ڈاکٹر گیلیا لنڈنسٹراس کے مطابق 1990 کی دہائی میں اسرائیل، آذربائیجان اور ترکی کے درمیان سہ فریقی تعلقات کے تناظر میں آذربائیجان اور اسرائیل کے تعلقات کو تقویت ملی۔صالح بیچکجی کا ماننا ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان کے ترکی اور اسرائیل دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، جس کے باعث وہ ان دو ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ماضی میں بھی آذربائیجان نے ترکی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرانے میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔اسی حوالے سے فرید شفیف کہتے ہیں: ’میری نظر میں ہم ثالثی کے لیے سب سے موزوں ملک ہیں کیونکہ ہم ترکی کے مفادات کو بھرپور طریقے سے آگے لے کر چلتے ہیں اور ساتھ ہی اسرائیل کے ساتھ ہمارے بہت مضبوط تعلقات ہیں۔‘نسرین گادیمووا اکبولوت کا بھی کہنا ہے کہ باکو، ترکی اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کو اچھا نہیں سمجھتا اور اسی لیے جمہوریہ آذربائیجان نے خاص طور پر شام جیسے حساس معاملات پر ثالثی کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں۔اکثریتی شیعہ آبادی کے باوجود آذربائیجان ایران کے بجائے اسرائیل کے زیادہ قریب کیوں ہے؟آذربائیجان آرمینیا کشیدگی: ترکی آذربائیجان کی حمایت کیوں کرتا ہے؟آرمینیا اور آذربائیجان کے تنازعے کے اصل وجہ کیا ہے؟العيالہ: متحدہ عرب امارات میں ٹرمپ کی آمد پر بال لہراتی لڑکیوں کا روایتی عرب رقص تنقید کی زد میں کیوں؟شاہراہ ریشم کے گمشدہ شہروں کی دریافت جنھیں محققین نے ’شاندار خزانہ‘ قرار دیاطاقتور سیاست دان اور نجومی: ایک ایسا قتل جو قزاقستان کو ہمیشہ کے لیے بدل سکتا ہے

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

ایک شخص کالے کپڑوں میں گھر آیا اور۔۔ ثنا یوسف کا قتل کس نے کیا؟ ماں نے آنکھوں دیکھا حال بتا دیا

19ویں جھٹکے کی شدت 2.5 ریکارڈ۔۔ کراچی میں زلزلوں کا سلسلہ کب تک جاری رہ سکتا ہے؟ ماہرین کی رائے

گھر چھوڑ کر چلے گئے۔۔ سلمان فاروقی کے تشدد کا نشانہ بننے والے بہن بھائی کون ہیں؟ نئے انکشافات

ثنا یوسف کے قتل کا ملزم فیصل آباد سے گرفتار: ’ملزم نے بار بار مسترد کیے جانے پر ثنا کو قتل کیا‘، آئی جی اسلام آباد کا دعویٰ

زلزلے کی وجہ سے ملیر جیل کے بیرکس کی دیواروں میں دراڑ۔۔ 300 قیدی فرار ! دیکھیں

تعلیم سے کاروبار تک

کیا معلوم تھا یہ آخری سالگرہ ہے۔۔ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کا قتل ! موت سے پہلے آخری ویڈیو وائرل

اسلام آباد پولیس کا ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کے ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ: ’موبائل لوکیشن ٹریس کر کے فیصل آباد میں ملزم تک پہنچے‘

فرانس پر ایمیزون کے جنگلات کے بیچوں بیچ ’خطرناک قیدیوں کی کالونی‘ قائم کرنے کا الزام کیوں لگایا جا رہا ہے؟

’اللہ میرا حتمی جج ہے۔۔۔‘: جب باکسر محمد علی نے امریکی فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کیا

کراچی کی ملیر جیل سے فرار ہونے والے 216 قیدیوں میں سے 78 دوبارہ گرفتار، فائرنگ میں ایک قیدی ہلاک اور چار اہلکار زخمی

یوکرین کے آپریشن سپائڈر ویب میں کتنے بمبار طیارے تباہ ہوئے اور اس سے روس کی جنگی صلاحیت کیسے متاثر ہو گی؟

قاتل میٹرک فیل اور عمر 22 برس ہے۔۔ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قاتل کو کیسے پکڑا؟ آئی جی کے انکشافات

*فیصل بینک کو GIFA 2025 میں جدت اور اعلیٰ کارکردگی پر اعزازات سے نوازا گیا

گھر لاتے ہی نہ نہلائیں اور کھانا کتنی بار دیں۔۔ قربانی کے جانور کو شدید گرمی میں بیمار ہونے سے کیسے بچائیں؟ ماہرین کے مشورے

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی