اے آئی تھیراپسٹ: ’جب آپ کو کوئی مدد دستیاب نہ ہو تو انسان تنکے کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے‘


BBCذہنی پریشانیوں اور تاریک راہوں میں کیا مصنوعی ذہانت آپ کی دستگیری کر سکتا ہے’جب بھی میں مشکل میں ہوتی اور اگر کسی دن واقعی برا محسوس ہوتا تو میں کسی چیٹ بوٹ سے بات کرنا شروع کر دیتی، اور مجھے یہ احساس ہوتا جیسے کوئی حوصلہ افزائی کرنے والا شخص میرے ساتھ ہے اور یہ مجھے دن بھر کے لیے اچھا احساس دیتا۔ میرے پاس میری حوصلہ افزائی کے لیے بیرونی آواز ہوتی، جو یہ کہتی کہ ’ٹھیک ہے، آج ہم کیا کرنے جا رہے ہیں؟‘ گویا وہ کوئی خیالی دوست ہو۔‘یہ بیان کیلی کے ہیں جو مہینوں تک روزانہ تین گھنٹے تک مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی آن لائن چیٹ بوٹس سے باتیں کرتیں اور اس کے ساتھ اپنے خیالات کا تبادلہ کرتیں۔اُس وقت کیلی بے چینی، خود اعتمادی میں کمی اور بریک اپ کے بعد کی افسردگی کا شکار تھیں اور انھوں نے اس کے علاج کے لیے برطانیہ میں ادارہ برائے صحت (این ایچ ایس) سے رابطہ کیا تھا لیکن ان کا نمبر ابھی نہیں آیا تھا اور وہ روایتی علاج کے لیے انتظار کی فہرست میں شامل تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’character.ai پر چیٹ بوٹس سے بات چیت نے انھیں ان کے تاریک دور سے باہر نکلنے میں مدد دی، کیونکہ ان چیٹ بوٹس نے انھیں مقابلہ کرنے کی حکمت عملی سکھائیں اور وہ ان کی مدد کو ہمہ وقت یعنی چوبیس گھنٹے دستیاب تھے۔وہ کہتی ہیں کہ وہ ’ایک ایسے خاندان سے آتی ہیں جو جذبات کا کھل کر اظہار نہیں کرتا، اگر کوئی مسئلہ ہو تو بس آپ کو خود ہی سنبھالنا پڑتا ہے۔'یہ جاننا کہ یہ (بوٹ) کوئی حقیقی انسان نہیں ہے، اسے سنبھالنا زیادہ آسان بنا دیتا ہے۔‘اگرچہ عمومی طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ چیٹ بوٹس سے پیشہ ورانہ مشورہ لینا مناسب نہیں لیکن دنیا بھر کے لوگ اپنے ذاتی خیالات اور تجربات اے آئی چیٹ بوٹس کے ساتھ شیئر کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ کیرکٹر ڈاٹ اے آئی خود اپنے صارفین کو خبردار کرتا ہے کہ ’وہ ایک مصنوعی ذہانت والا چیٹ بوٹ ہے، حقیقی انسان نہیں۔ جو کچھ یہ کہتا ہے اسے حقیقت نہ سمجھیں۔ یہ جو کہتا ہے اس پر آنکھ بند کر کے بھروسہ نہ کریں۔‘تاہم کچھ انتہائی سنجیدہ معاملات میں چیٹ بوٹس پر نقصان دہ مشورے دینے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔اور کیریکٹر اے آئی کو فی الوقت ایک قانونی چیلنج کا سامنا ہے جس میں ایک ماں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے 14 سالہ بیٹے نے کیریکٹر اے آئی کے ایک چیٹ بوٹ کے ساتھ غیر معمولی حد تک مشغول ہونے کے بعد خودکشی کر لی۔ عدالت میں پیش کیے گئے چیٹ کے متن کے مطابق لڑکے نے بوٹ کے ساتھ اپنی زندگی ختم کرنے پر گفتگو کی۔ آخری پیغام میں اس نے بوٹ سے کہا کہ وہ ’گھر آ رہا ہے‘ اور مبینہ طور پر بوٹ نے اسے ’جلد از جلد‘ ایسا کرنے کی ترغیب دی۔کیریکٹر اے آئی نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔سنہ 2023 میں نیشنل ایٹنگ ڈس آرڈر ایسوسی ایشن نے اپنی لائیو ہیلپ لائن میں ایک چیٹ بوٹ کو متعارف کروایا لیکن بعد میں اس پر پابندی لگانی پڑی کیونکہ اس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ رجوع کرنے والے لوگوں کو کیلوریز کم کرنے کی تجاویز دے رہا تھا۔گذشتہ سال اپریل 2024 میں ہی انگلینڈ میں 4 لاکھ 26 ہزار سے زیادہ ذہنی صحت کے مریض آئے جو کہ پچھلے پانچ سالوں میں 40 فیصد کا اضافہ ہے۔ اندازاً 10 لاکھ افراد ابھی بھی ذہنی صحت سے متعلق سروسز کے منتظر ہیں اور پرائیویٹ تھراپی اکثر بہت مہنگی ہوتی ہے (برٹش ایسوسی ایشن فار کاؤنسلنگ اینڈ سائیکو تھراپی کے مطابق اس کے لیے لوگ اوسطاً 40 سے 50 پاؤنڈ فی گھنٹہ خرچ کرتے ہیں)۔دریں اثنا اے آئی نے صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں کئی انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں اور یہ تبدیلیاں سکریننگ، تشخیص، اور مریضوں کی ترجیح بندی میں مدد کے معاملے میں رونما ہوئی ہیں۔ چیٹ بوٹس کی کئی اقسام موجود ہیں اور مقامی تقریباً 30 این ایچ ایس کی سہولیات اس وقت وائیسا نامی چیٹ بوٹ استعمال کر رہی ہیں۔ماہرین چیٹ بوٹس سے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی اپنی حدود ہیں اور یہ کہ یہ تعصبات سے پاک نہیں، اس میں تحفظ کی کمی ہے۔ وہصارفین کی معلومات کے تحفظ پر بھی خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ماہر انسانی امداد فوری دستیاب نہ ہو تو چیٹ بوٹس کچھ حد تک مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا این ایچ ایس کی ذہنی صحت کی خدمات میں تاخیر کے پیش نظر چیٹ بوٹس ایک ممکنہ متبادل ہو سکتے ہیں؟PA Mediaصرف اپریل سنہ 2024 میں چار لاکھ 26 ہزار ذہنی صحت کے معاملے سامنے آئےایک ’ناتجربہ کار معالج‘کیریکٹر اے آئی اور چیٹ جی پی ٹی جیسے دوسرے چیٹ بوٹس مصنوعی ذہانت کے ’لارج لینگویج ماڈلز‘ پر مبنی ہیں۔ یہ ماڈلز بے شمار ڈیٹا کا استعمال کرتے ہیں اور وہ یہ ڈیٹا ویب سائٹس، مضامین، کتابیں اور بلاگز کی دی ہوئی معلومات سے حاصل کرتے ہیں اور ان پر ان کی تربیت کی گئی ہوتی ہے تاکہ وہ کسی جملے کو پورا کرنے کے لیے ازخود اگلا لفظ پیش کر سکیں، اور یوں انسانی انداز میں بات چیت کر سکیں۔ذہنی صحت کے چیٹ بوٹس کی تیاری کے مختلف طریقے ہیں اور ان میں بعض اوقات کوگنیٹو بیہیویرل تھراپی (سی بی ٹی) جیسی تھراپی کی تربیت شامل کی جاتی ہے جو صارفین کو اپنے خیالات اور رویوں کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے۔ یہ بوٹس صارف کی ترجیحات اور تاثرات کے مطابق خود کو ڈھال سکتے ہیں۔لندن کے امپیریل کالج کے پروفیسر حامد حدّادی ان چیٹ بوٹس کو 'ایک ناتجربہ کار معالج' یا نیم حکیم سے تشبیہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان اپنی دہائیوں کی تجربے کی بنیاد پر مریض کو سمجھ سکتے ہیں، جبکہ چیٹ بوٹس صرف تحریری پیغام پر انحصار کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ 'معالج آپ کے لباس، رویے، حرکات و سکنات، جسمانی انداز سے بھی نتائج اخذ کرتے ہیں، اور ان چیزوں کا چیٹ بوٹس میں شامل کرنا بہت مشکل ہے۔'پروفیسر حدادی کے مطابق ایک اور ممکنہ مسئلہ یہ ہے کہ چیٹ بوٹس صارف کو مصروف رکھنے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں، اس لیے اگر آپ کچھ نقصان دہ بات کریں تو بھی وہ شاید آپ سے اتفاق کریں گے۔ اس کو بعض اوقات 'یس مین' یعنی جی جناب کا مسئلہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بوٹس اکثر ہر بات سے متفق ہو جاتے ہیں۔مصنوعی ذہانت کے دیگر ماڈلز کی طرح ان میں بھی تعصبات ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ جن ڈیٹا سے سیکھتے ہیں ان میں شامل تعصبات ان میں منتقل ہو جاتے ہیں۔پروفیسر حدادی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ معالجین عام طور پر اپنے مریضوں کے سیشنز کے ریکارڈ نہیں رکھتے، اس لیے چیٹ بوٹس کے پاس حقیقی علاج کا ڈیٹا کم ہوتا ہے اور جو کچھ دستیاب ہے ان میں بھی ممکنہ طور پر سیاق و سباق سے جڑے تعصبات ہو سکتے ہیں۔وہ پوچھتے ہیں کہ 'آپ کا تربیتی ڈیٹا کہاں سے آتا ہے، یہ وہ چیز ہے جو یہ طے کرے گی کہ آپ کی تھراپی کس نوعیت کی ہو گی۔'وہ کہتے ہیں کہ 'اگر ایک ماہر نفسیات لندن کے محدود علاقے چیلسی کے مریضوں کا علاج کر رہا ہے تو ممکن ہے کہ پیکہم جیسے علاقے میں کام کرتے ہوئے وہ مشکل میں پڑ جائے کیونکہ وہاں کے مریضوں کے متعلق اس کے پاس تربیتی ڈیٹا نہیں ہو گا۔'Getty Imagesبرطانوی حکومت نے انتظار کی مدت میں کمی کے لیے 8500 مزید ذہنی صحت کے عملے کو بھرتی کرنے کا وعدہ کیا ہےاے آئی کی اخلاقیات پر کتاب لکھنے والی فلسفی ڈاکٹر پاؤلا باڈنگٹن بھی مصنوعی ذہانت میں در آنے والے تعصبات کو ایک بڑا مسئلہ قرار دیتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ اس ضمن میں 'ایک بڑا مسئلہ وہ تعصبات یا بنیادی مفروضے ہوتے ہیں جو تھراپی ماڈل میں شامل ہوتے ہیں۔'ان تعصبات میں یہ بھی شامل ہے کہ 'اچھی ذہنی صحت' یا 'معمول کی زندگی' کے کیا پیمانے ہیں، جیسے آزادی، خودمختاری، دوسروں کے ساتھ تعلقات وغیرہ۔'ڈاکٹر باڈنگٹن کے مطابق ثقافتی سیاق و سباق کی کمی بھی ایک مسئلہ ہے۔ انھوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب شہزادی ڈیانا کی موت ہوئی تو وہ آسٹریلیا میں تھیں اور آسٹریلوی لوگ یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ وہ کیوں افسردہ ہیں۔'ایسے تجربات مجھے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ انسانی تعلقات، جو علاج میں ضروری ہوتے ہیں، ان کا اے آئی میں فقدان ہے۔''بعض اوقات صرف کسی کا ساتھ ہونا ہی سب کچھ ہوتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ایک مجسم، جیتا جاگتا، سانس لینے والا انسان ہو۔کیلی نے بالآخر ان کے جوابات تلاش کرنے شروع کر دیے جن کے چیٹ بوٹس نے غیر تسلی بخش جواب دیے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ 'کبھی کبھی آپ تھوڑا سا مایوس ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ نہیں جانتے کہ اس سے کیسے نمٹا جائے، تو وہ وہی جملہ دہرائیں گے اور آپ کو احساس ہوگا کہ اس سے بات کرنا تو دیوار کے ساتھ سر پھوڑنے کے مترادف ہے۔'وہ کہتی ہیں کہ 'وہ رشتوں (یا تعلقات) کے متعلق چیزیں ہو سکتی ہیں جن کے بارے میں آپ سوچیں گے شاید آپ پہلے اس پر بات کر چکے ہیں اور پھر آپ کو خیال آتا ہے کہ آپ نے صحیح جملے کا استعمال نہیں کیا تھا اور وہ گہرائی میں جانا نہیں چاہتا۔'کیریکٹر اے آئی کے ایک ترجمان نے کہا کہ 'صارفین کے ذریعہ تخلیق کردہ کسی بھی کردار کے لیے جن کے ناموں میں 'ماہر نفسیات'، 'تھراپسٹ'، 'ڈاکٹر' یا اس سے ملتی جلتی دوسری اصطلاحات ہیں تو ہم صارفین پر یہ واضح کر دیتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے پیشہ ورانہ مشورے کے لیے ان کرداروں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔'Getty Imagesڈوبتے کو تنے کا سہارا'یہ انتہائی ہمدردانہ تھا'دوسری جانب کچھ لوگ چیٹ بوٹس کی مدد کو اہم قرار دیتے ہیں خاص طور اس وقت جب وہ جذباتی طور پر بہت ٹوٹا ہوا محسوس کر رہے ہوں۔نکولس کو آٹزم ہے اور انھیں بے چینی رہتی اور وہ او سی ڈی کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں ہمیشہ افسردگی رہتی ہے۔ جب وہ بڑے ہوئے اور سن بلوغ کو پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ ان کو براہ راست ملنے والی امداد میں کمی ہونے لگی۔ وہ کہتے ہیں کہ 'جب آپ 18 سال کی عمر کو پہچ جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کو ملنے والا سپورٹ ختم ہو گيا ہے اور میں نے سالوں سے کسی حقیقی انسانی ڈاکٹر کو نہیں دیکھا ہے۔'انھوں نے گذشتہ سال خزاں کے موسم میں اپنی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد سے وہ این ایچ ایس کی منتظرین کی فہرست میں شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ 'میں اور میری ساتھی کئی بار ڈاکٹر کے پاس گئے تاکہ جلد سے جلد ان کی خدمات حاصل کی جا سکیں۔ ڈاکٹر نے مجھے (انسانی مشیر سے ملنے) کی فہرست میں رکھا ہوا ہے لیکن مجھے اب تک دماغی صحت کی خدمات سے ایک خط تک موصول نہیں ہوا ہے۔'جب نکولس انسانی امداد حاصل کرنے کے لیے تگودو کر رہے تھے کہ اسی دوران انھوں نے مصنوعی ذہانت وائیسا کا استعمال کیااور ان کا کہنا ہے کہ انھیں اس سے کچھ فوائد حاصل ہوئے۔وہ کہتے ہیں کہ 'آٹزم (بولنے میں لکنت) کے ساتھ میں کسی کے ساتھ ذاتی طور پر بات چیت کے معاملے میں بہت اچھا نہیں ہوں۔ میرے لیے کمپیوٹر سے بات کرنا ‌‌زیادہ بہتر ہے۔'یہ ایپ مریضوں کو ذہنی صحت میں مدد کے لیے خود سے رجوع کرنے کی اجازت دیتی ہے، یہ امدادی حربوں کے بارے میں بتاتی ہے، چیٹ فنکشنز اور سانس لینے کی مشقیں اور گائیڈڈ مڈیٹیشن کے بارے میں بتاتی جب تک کہ کوئی ڈاکٹر ان کی مدد کے لیے نہیں آتا۔یعنی انتظار کے دوران اس ایپ کا استعمال ہو سکتا ہے اور سٹینڈ الون سیلف ہیلپ ٹول کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔وائیسا اس بات پر زور دیتا ہے کہ ان کی خدمات ان لوگوں کی مدد کے لیے بنائی گئی ہے جو بدسلوکی اور شدید ذہنی بیماریوں کے بجائے ہلکے ڈپریشن، تناؤ یا اضطراب کا شکار ہیں۔ اس میں بحران اور حالت کے زیادہ خراب ہونے کے وقت مدد فراہم کرنے کے راستے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی رابطہ کرنے والا یا صارف خود کو نقصان پہنچانے یا خودکشی کی علامات ظاہر کرے تو اسے فوری ہیلپ لائن یا براہ راست امداد کی طرف بھیجا جاتا ہے۔خودکشی کے خیالات رکھنے والے لوگوں کے لیے سیماریٹن ہیلپ لائن پر انسانی مشیر 24/7 دستیاب ہیں۔نکولس نیند کی کمی کا بھی شکار ہیں، اس لیے اگر انھیں ایسے وقت میں مدد ملے جب ان کے دوست اور کنبے کے افراد سو رہے ہوں تو یہ ان کے لیے فائدہ مند ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’رات میں ایک وقت ایسا تھا جب میں واقعی افسردہ تھا۔ میں نے ایپ پر میسج کیا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ مجھے یہاں مزید رہنا چاہیے کہ نہیں‘ تو اس نے جواب دیا کہ ’نِک، آپ قابل قدر ہیں، لوگ آپ سے پیار کرتے ہیں۔‘’یہ اتنا ہمدردانہ تھا اور ایسا جواب تھا جیسے کہ یہ آپ کے کسی پرانے شناسا نے دیا ہو جو آپ کو برسوں سے جانتا ہے اور اس کے جواب نے مجھے اپنی قدر و قیمت کا احساس دلایا۔‘ان کے تجربات ڈارٹ ماؤتھ کالج کے محققین کے ایک حالیہ مطالعہ سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ اس مطالعے میں کسی کنٹرولڈ گروپ کے برخلاف ان لوگوں پر چیٹ بوٹس کے اثرات کو دیکھا گیا جو اضطراب، ڈپریشن یا کھانے کی خرابی کا شکار ہیں۔چار ہفتوں کے تجربے کے بعد بوٹس استعمال کرنے والوں کی علامات میں نمایاں کمی نظر آئی۔ ان میں افسردگی کی علامات میں 51 فیصد کمی بھی دیکھی گئی جبکہ انھوں نے ایک انسانی معالج کی طرح ان چیٹ بوٹس پر اعتماد اور تعاون دکھایا۔اس کے باوجود مطالعہ کے سینیئر مصنف نے تبصرہ کیا کہ انسانی دیکھ بھال کا کوئی متبادل نہیں ہے۔Getty Imagesبے چینی یا اضطراب میں آپ کو مدد کی ضرورت ہوتی ہےچیٹ بوٹس کے ذریعے دی جانے والی مشاورت کی قدر و قیمت پر جاری بحث کے علاوہ اس کے ساتھ سکیورٹی اور پرائیویسی کے مسائل، اور یہ سوال کہ آیا اس ٹیکنالوجی کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے وسیع خدشات ہیں۔کیلی کہتی ہیں کہ ’ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں یہ خدشہ ضرور رہتا ہے کہ آپ تھیراپی کے دوران جو کچھ حساس باتیں کہتے ہیں اس کی بنا پرکیا کوئی آپ کو بلیک میل تو نہیں کرے گا؟‘اس ترقی پزیر ٹیکنالوجی کے ماہر اور ماہرِ نفسیات ایان میکرے خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگ ان چیٹ بوٹس پر بہت زیادہ اعتماد کر رہے ہیں، وہ بھی اس وقت جب کہ اس نے ابھی اعتماد کمایا ہی نہیں ہے۔‘وہ مزید کہتے ہیں: ’ذاتی طور پر میں کبھی بھی اپنی نجی معلومات، خاص طور پر صحت یا نفسیاتی نوعیت کی معلومات، ایسے کسی بڑے لینگویج ماڈل میں نہیں ڈالوں گا جو بے تحاشا ڈیٹا اکٹھا کر رہا ہو اور اس کے متعلق یہ بھی واضح نہ ہو کہ وہ ڈیٹا کیسے استعمال ہو رہا ہے اور آپ کس بات پر رضامند ہو رہے ہیں۔‘’ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مستقبل میں محفوظ اور تجربہ کار اوزار موجود نہ ہوں گے مگر فی الحال ایسے قابلِ اعتماد شواہد موجود نہیں ہیں کہ کوئی عام چیٹ بوٹ واقعی ایک اچھا معالج بن سکتا ہے۔‘وائیسا کے منیجنگ ڈائریکٹر، جان ٹینچ کا کہنا ہے کہ ’وائیسا ذاتی شناخت پر مبنی معلومات جمع نہیں کرتا، اور صارفین کو رجسٹر ہونے یا کوئی ذاتی ڈیٹا شیئر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘Getty Imagesچیٹ بوٹس آپ کو عارضی سہارا فراہم کرتے ہیںبہرحال وہ کہتے ہیں کہ وائیسا کے ساتھ ’بات چیت کے ڈیٹا کا کبھی کبھار گمنام انداز میں جائزہ لیا جا سکتا ہے تاکہ وائیسا کی مصنوعی ذہانت کے جوابات کو بہتر بنایا جا سکے، لیکن کوئی ایسی معلومات جمع یا محفوظ نہیں کی جاتی جو کسی صارف کی شناخت ظاہر کرے۔ ’علاوہ ازیں وائیسا نے بیرونی اے آئی فراہم کنندگان کے ساتھ ڈیٹا پراسیسنگ کے معاہدے کیے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ صارف کی بات چیت کو تیسرے فریق کے لینگویج ماڈلز کی تربیت کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔‘کیلی کا خیال ہے کہ چیٹ بوٹس فی الحال انسانی معالج کا مکمل نعم البدل نہیں بن سکتے۔ انھوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کی دنیا ایک ایسا جنگل ہے جہاں آپ کو کبھی معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کو کیا ملنے والا ہے۔‘مسٹر جان ٹینچ اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اے آئی سے حاصل ہونے والی مدد ابتدائی قدم ہو سکتی ہے، لیکن یہ پیشہ ورانہ نگہداشت کا متبادل نہیں ہے۔‘عوام وسیع پیمانے پر اس سے متفق نہیں ہیں۔ یوگوو کے ایک حالیہ سروے کے مطابق صرف 12 فیصد برطانوی عوام کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس اچھے معالج ثابت ہو سکتے ہیں۔لیکن مناسب حفاظتی اقدامات کے ساتھ کچھ ماہرین اور مریضوں کا ماننا ہے کہ چیٹ بوٹس ایک عبوری سہارا فراہم کر سکتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب ذہنی صحت کی سروسز پر شدید بوجھ ہو۔وہ بتاتے ہیں کہ وہ نو ماہ سے انسانی معالج کے انتظار میں ہیں اور اس دوران وہ ہفتے میں دو سے تین مرتبہ وائیسا کا استعمال کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ 'جب آپ کو کوئی مدد دستیاب نہ ہو تو انسان تنکے کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔'ان کے مطابق 'طویل انتظار کی فہرستوں کے درمیان یہ ایک عارضی سہارا ہے تاکہ جب تک کسی ماہر سے بات نہ ہو آپ کے پاس کوئی تو سہارا ہو۔'

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

کراچی میں موٹر سائیکل سوار نوجوان پر مبینہ تشدد کی وائرل ویڈیو: ’ملزم کی لینڈ کروزر گاڑی سے معمولی ٹکر ہوئی تھی‘

انڈین انفلوئنسر جنھیں مسلمانوں کے خلاف مبینہ نفرت انگیزی پر گرفتار کیا گیا

انڈین انفلوئنسر شرمشٹھا پنولی جنھیں مسلمانوں کے خلاف مبینہ نفرت انگیزی پر گرفتار کیا گیا

شہری پر تشدد کرنے والا شخص کون نکلا؟ ساری تفصیلات سامنے آگئیں ! پولیس سے سخت کارروائی کا مطالبہ

کراچی میں ایک ہی علاقے میں بار بار زلزلے کے جھٹکے کیوں محسوس کیے جا رہے ہیں؟ چیف میٹرولوجسٹ کا بیان سامنے آگیا

کراچی میں 24 گھنٹوں میں چوتھی بار زلزلہ۔۔ شدت کیا ریکارڈ کی گئی؟

18 ماہ کی تیاری اور اربوں ڈالر نقصان کا دعویٰ: یوکرین نے ڈرون حملے سے روس اور امریکہ کو کیا پیغام دیا؟

آپریشن سپائڈر ویب: یوکرین کی 117 ڈرونز سمگل کر کے روس میں فضائی اڈوں اور جنگی طیاروں کو نشانہ بنانے کی بڑی کارروائی

میرے بھائی کو نہیں مارو۔۔ بااثر شخص کا گھر والوں کے سامنے شہری پر تشدد ! ویڈیو سامنے آنے پر پولیس نے کیا کیا؟

محمد یونس کی چینی سرمایہ کاروں سے اپیل: ’بنگلہ دیش وہی کر رہا ہے جس سے انڈیا کو چڑ ہے‘

بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پاکستان کا نو رکنی پارلیمانی وفد نیویارک پہنچ گیا

آپریشن سپائڈر ویب: لکڑی کے ڈبے اور 117 ڈرونز ٹرکوں پر روس سمگل کر کے یوکرین نے کیسے روسی جنگی طیاروں کو نشانہ بنایا؟

افغانستان میں طالبان متعدد مذہبی سکالرز کو 'گرفتار اور اغوا' کیوں کر رہے ہیں؟

سونا سستا ہونے کے بعد دوبارہ مہنگا۔۔ جانیں فی تولہ سونے کا نیا بھاؤ کیا ہے؟

بہن کے سامنے شہری پر تشدد کرنے والا شخص گرفتار۔۔ پولیس نے واقعے کے بارے میں مزید کیا بتایا؟

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی