پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کشیدگی کا ایک ماہ: چار روزہ تنازع نے دونوں ملکوں کو کیسے بدلا؟


Getty Imagesرات کی تاریکی تھی اور سات مئی کا سورج طلوع ہونے میں کافی دیر باقی تھی جب انڈیا نے اعلان کیا کہ اِس نے پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں مجموعی طور پر نو مقامات پر ’دہشت گردوں کے انفراسٹرکچر‘ کو نشانہ بنایا ہے۔ انڈیا نے یہ بھی کہا کہ یہ کارروائی شدت پسندوں کی جانب سے پہلگام میں کیے گئے حملے کے جواب میں کی گئی ہے جس میں 26 سیاح ہلاک ہوئے تھے۔انڈیا طویل عرصے سے پاکستان پر سرحد پار سے ہونے والی مبینہ دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے۔ انڈیا کا یہ الزام بھی ہے کہ سنہ 2019 میں پلوامہ اور سنہ 2008 میں ہوئے ممبئی حملوں میں بھی پاکستان ملوث تھا۔ اور اب پہلگام واقعے کے بعد بھی پاکستان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ مسلح حملہ آوروں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ ان حملوں میں ملوث ہونے سے متعلق انڈین الزامات کو مسترد کیا۔ پاکستان نے پہلگام حملے کی آزادانہ تحقیقات کروانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس میں تعاون کی پیشکش بھی کی تھی۔پاکستان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سات مئی کو انڈین کی جانب سے کی گئی کارروائی میں ’مساجد یا مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا گیا جہاں عام شہری مارے گئے۔‘ابتدائی انڈین کارروائی کے بعد پاکستان نے چھ انڈین طیاروں کو مار گرانے کا دعویٰ بھی کیا، انڈیا نے فی الحال براہ راست ان دعوؤں کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔انڈیا کی ابتدائی کارروائی کے بعد اگلے چار دن میں، سات مئی سے 10 مئی، جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ممالک کے درمیان تنازع اس سطح تک بڑھ گیا کہ بہت سے ماہرین نے اسے سنہ 1971 کی پاکستان، انڈیا جنگ کے بعد سب سے بڑی کارروائیاں قرار دیا۔یہ پہلا موقع تھا جب دونوں ممالک کی طرف سے ایک دوسرے کی تنصیبات اور مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرونز کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ان چار دن میں جنگی طیاروں، میزائلوں، غلط معلومات اور گمراہ کُن پراپیگنڈے کا بے دریغ استعمال ہوا، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا مگر یہ سب 10 مئی کی دوپہر جنگ بندی کے اچانک اعلان کے بعد رُک گیا۔یہ ایک ایسا تنازع تھا جس کے بعد فریقوں نے اپنی اپنی فتح کے دعوے کیے مگر اسی دورانیے میں لائن آف کنٹرول کے اطراف رہنے والے درجنوں خاندانوں کی زندگی بدل کر رہ گئی۔ ان خاندانوں نے کراس فائرنگ اور گولہ باری میں اپنے پیاروں کو کھو دیا، اُن کے گھر تباہ ہوئے اور بہت سی زندگیاں برباد ہوئیں۔Getty Imagesپہلگام حملے کے بعد انڈیا میں پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق آوازیں بلند ہونے لگی تھیںعسکری فتح کے متضاد دعوےپہلگام حملے کے فوراً بعد ہی انڈیا میں پاکستان کے خلاف جوابی کارروائی کرنے سے متعلق آوازیں بلند ہونے لگی تھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں شدت آ رہی تھی۔پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اور اسلام آباد میں قائم انسٹیٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز کے صدر جوہر سلیم کا کہنا ہے کہ انڈیا کے ’شروع سے ہی اشتعال انگیز رویے‘ کے تناظر میں یہ پاکستان کے لیے ایک مشکل صورتحال تھی۔انھوں نے کہا کہ دوسری جانب ’پاکستان کے سفارتی انداز میں واضح تبدیلی ردعمل دینے کی بجائے واضح طور پر فعال سفارت کاری تھی۔‘لیکن پاکستان کا یہ ردعمل انڈیا کو پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے سے نہیں روک سکا، جس (کارروائی) میں انڈیا نے ’100 سے زیادہ دہشت گردوں‘ کو ہلاک کرنے اور شدت پسندوں کے کیمپوں، پاکستانی فضائی اڈوں اور فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنانے کے دعوے کیے۔اس کے فوراً بعد پاکستان نے اپنی جوابی کارروائی کا اعلان کیا اور چند ہی گھنٹوں کے اندر، اس نے تین رفال لڑاکا طیاروں سمیت چھ انڈین طیاروں کو مار گرانے کا دعویٰ کیا۔انڈیا نے تاحال نقصانات کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں کی اور انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف انیل چوہان کے ایک حالیہ تبصرے کو بہت سے لوگوں نے اس بات سے تعبیر کیا کہ انڈیا نے لڑاکا طیارے کھوئے ہیں۔انھوں نے بلومبرگ ٹی وی کو بتایا کہ ’اہم بات یہ نہیں کہ جیٹ طیارے گرے یا نہیں بلکہ (اہم یہ ہے کہ) وہ کیوں گرائے گئے۔‘اگرچہ پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے بھرپور جوابی کارروائی کی مگر اس دوران بہاولپور جیسے علاقے کے بارے میں بھی بتایا کہ جسے نشانہ بنایا گیا۔دفاعی تجزیہ کار اور انڈین بحریہ کے سابق افسر کموڈور انیل جئے سنگھ کہتے ہیں کہ ’درستگی سے ہدف تک پہنچنے والے میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال کر کے انڈیا سرحد پار کیے بغیر پاکستان میں دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے میں کامیاب رہا۔‘انڈیا نے دعویٰ کیا کہ اس نے ’دہشت گردی کے نو کیمپوں‘ کو تباہ کیا، ’اہم دہشت گرد کمانڈروں‘ کو ختم کیا اور پاکستان کی ’فضائی دفاعی کمزوریوں‘ کو بے نقاب کیا جبکہ پاکستان نے ان تمام تر انڈین دعووں کو مسترد کر دیا۔ اسلام آباد میں مقیم سکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا کا خیال ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ ’طاقت کا توازن‘ کسی بھی ایک ملک کے حق میں منتقل ہو چکا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی فوج نے یہ اعتماد حاصل کر لیا ہے کہ وہ اپنے سے کئی گنا بڑے حریف کا سامنا کر سکتی ہے اور ایک سے زیادہ محاذوں پر لڑ سکتی ہے اور یہ وہ چیز تھی جس نے انڈیا کو حیران کر دیا۔‘تنازع کے بعد، پاکستان کی فوج اور اس کے سربراہ عاصم منیر کی مقبولیت میں اضافے نے ملکی سیاست میں مداخلت اور عمران خان کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے باعث اُن پر ہونے والی تنقید کا بھی خاتمہ کر دیا۔چار روزہ تنازعے کے فوراً بعد جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔کموڈور انیل جئے سنگھ کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے کیے گئے حملے عسکریت پسندوں کے مزید حملوں کی روک تھام کا سبب بن سکتے ہیں مگر اگر عسکریت پسندوں کے مزید حملے ہوتے ہیں اور ’اگر اب بھی ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستان کے اپنے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔‘اس تنازع کے دوران ہی پاکستان کی جانب سے ’فتح کی مسابقتی کہانی‘ ترتیب دینے کی حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مصنف اور انسداد دہشت گردی کی پالیسی کے ماہر اجے ساہنی کا کہنا تھا کہ ڈیٹرنس کا امکان نہیں تھا۔جبکہ پاکستان نے اعتراف کیا کہ اس کے ائیر بیسز کو نشانہ بنایا گیا مگر دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا کہ ان کے ملک نے انڈیا کے خلاف پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ساہنی کہتے ہیں کہ ’اس بات کا امکان نہیں کہ پاکستان ان کارروائیوں کے نتیجے میں (عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کرنے سے) رُک جائے گا۔‘عامر رانا کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ بندی اس بات کی ضمانت نہیں کہ فوجی تنازع ختم ہو چکا۔ وہ کہتے ہیں کہ درحقیقت اس تنازعے نے ’(خطے میں) ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا خطرہ بڑھا دیا۔‘عامر رانا نے کہا کہ تنازع کے دوران توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہپاکستان نے کیسے چینی جنگی ٹیکنالوجی استعمال کی۔ ’زیادہ اہم بات یہ تھی کہ پاکستان نے چینی ٹیکنالوجی کو کس حد تک مؤثر طریقے سے استعمال کیا۔‘اس تبصرے پر انڈین تجزیہ کار ساہنی کہتے ہیں کہ جب بات بین الاقوامی سطح پر چین کی بطور ملٹری ٹیکنالوجیکل پاور کی ہوتی ہے تو پاکستان کی کارروائیوں سے ’چین کو زبردست تقویت ملی۔‘انھوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں چین کی انڈیا کے ساتھ پہلے سے موجود کشیدگی مزید گہری ہو گی اور چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔وفود کی سفارت کاریسات مئی سے شروع ہونے والی کارروائیوں اور جوابی کارروائیوں نے اُس وقت اچانک نیا رُخ اختیار کیا جب 10 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ پاکستان اور انڈیا نے ’مکمل اور فوری‘ جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔پاکستان نے جہاں اس اعلان کا خیر مقدم کیا، وہیں انڈیا نے ٹرمپ کے جنگ بندی کے دعووں کو مسترد کر دیا۔ انڈیا طویل عرصے سے کہہ رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کوئی بھی مسئلہ دو طرفہ طور پر حل ہونا چاہیے۔کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازع دہلی کی طرف سے پاکستان سے خود کو دور رکھنے کی کئی برسوں کی سفارتی کوششوں کو اُلٹ سکتا ہے۔بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہرش پنت نے کہا کہ اس تنازعے کے فوراً بعد انڈیا کی جانب سے سفارتی وفود متعدد ممالک میں بھیجنے کا فیصلہ اپنے اسی بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ کتنا حقیقی ہے؟انڈیا پاکستان کشیدگی کے دوران ’انفارمیشن وار‘ اور وہ فوجی اہلکار جو اس ’جنگ‘ کا چہرہ بن گئےانڈیا، پاکستان کشیدگی کا ایک ماہ: 88 گھنٹوں پر محیط تنازعے کے دوران کیا کچھ ہوتا رہا؟رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںاس طرح پاکستان نے بھی پانچ بڑے ممالک میں اپنے وفود بھیجے ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ یہ وفود بھیجنے کا مقصد ’پاکستان کے موقف کو واضح انداز میں دنیا تک پہنچانا‘ ہے۔مزید برآں، پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے آذربائیجان اور ترکی کے ساتھ ایک سہ فریقی اجلاس میں شرکت کی۔ آذربائیجان اور ترکی کو ایسے ممالک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جنھوں نے تنازع میں پاکستان کی حمایت کی۔پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ جوہر سلیم نے کہا کہ پاکستان نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ دنیا کو اپنا موقف بتائے گا کہ انڈیا خطے کو جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔دوسری جانب سے تنازع کے بعد انڈیا کا موقف یہ ہے کہ وہ انڈین سرزمین پر کسی بھی ’دہشت گردانہ حملے‘ کو ’ایکٹ آف وار‘ کے طور پر دیکھے گا۔انڈیا اپنی سفارتی زبان اور کارروائی میں بھی شدت لایا۔ انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے ایک پریس بریفنگ میں ایک تصویر لہرائی اور اس سے متعلق انڈین میڈیا نے دعویٰ کیا کہ ’اقوام متحدہ کا نامزد کردہ دہشت گرد‘ حافظ عبدالرؤف انڈین حملے میں ہلاک ہونے والوں کی نماز جنازہ پڑھا رہا ہے۔متعدد ممالک کے دوروں پر موجود انڈین سفارتی وفود نے بھی اس تصویر کو استعمال کیا اور اسے دوسرے ممالک کے حکام کے سامنے پیش کیا۔پاکستان نے اس بات کی تردید کی کہ تصویر میں نظر آنے والا شخص دہشت گرد ہے۔ پاکستان نے کہا کہ ’انڈین پراپیگنڈے کے برعکس‘ تصویر میں نظر آنے والا شخص ایک عام شہری ہے۔ پاکستان اس بات کی بھی پرزور تردید کرتا ہے کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے اور یہ کہ اس کی سرزمین پر ’دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے‘ موجود ہیں۔پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ جوہر سلیم کا کہنا ہے کہ انڈین دعوؤں کے برعکسپاکستانی وفد کا ایک مقصد عالمی رہنماؤں کو وہ ’ثبوت‘ دکھانا ہے جو ظاہر کرتے ہیں کہ ’انڈیا پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے۔‘جوہر سلیم نے کہا کہ پاکستان وفد کے دیگر مقاصد میں مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی بنانا اور سندھ طاس معاہدے کو اجاگر کرنا ہے، جسے انڈیا نے پہلگام حملے کے بعد معطل کر دیا تھا۔آپریشن سندور کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ’خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔‘سیاسی گھن گرجاگرچہ انڈیا کی طرف سے اپنا بیانیہ پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے تاہم مودی کو مقامی سیاست سے بھی نمٹنا پڑ رہا ہے۔جب سے ’آپریشن سندور‘ شروع ہوا تب سے مودی کی تقاریر دکھائی جا رہی ہیں۔ ان میں انڈین وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ’میری رگوں میں سندور بہتا ہے۔‘ انھوں نے پاکستان کو متنبہ کیا کہ ’سُکھ چین کی زندگی جیو، روٹی کھاؤ، ورنہ میری گولی تو ہے ہی۔‘اپوزیشن جماعت کانگریس نے بی جے پی کی ’ناکام خارجہ پالیسی‘ پر تنقید کی ہے۔ کالم نویس آدتی پدنس کہتی ہیں کہ وزیر اعظم مودی ممکنہ طور پر اسی حوالے سے رواں سال بہار الیکشن کے لیے بیانیہ بنائیں گے۔وہ کہتی ہیں کہ بیرون ممالک تمام جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل وفود بھیجنے کا فیصلہ ’سٹریٹیجک قدم ہے‘ تاکہ یہ ظاہر کیا جائے کہ اس قومی مقصد کے لیے اپوزیشن بھی مودی کے ساتھ کھڑی ہے۔سینیئر انڈین صحافی نیرجا چوہدری کا خیال ہے کہ چونکہ اس معاملے میں بظاہر تمام پارٹیاں مودی کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں اس لیے ان کی بطور ملکی سربراہ ساکھ بڑھے گی مگر اس کا الٹا اثر بھی پڑ سکتا ہے۔نیرجا چوہدری کہتی ہیں کہ ’اپوزیشن کو بھی فائدہ ہوا۔ اچانک اپوزیشن کے رہنما چمکتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ وہ قوم پرستی کو آزاد اقدار کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ انتخابی سیاست میں بی جے پی محض قوم پرستی کی بنیاد پر نہیں جیت پائے گی۔ ’انھیں قوم پرستی کا بیانیہ اپوزیشن کے ساتھ شیئر کرنا پڑے گا۔‘دریں اثنا پاکستان میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بڑی سیاسی تبدیلی ملک میں فوج کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ ہے۔آرمی چیف عاصم منیر کے علاوہ انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کو بھی ایک نیا اضافی عہدہ ملا۔ وہ اب پاکستان میں قومی سلامتی کے مشیر ہیں۔ یہ عہدہ پہلے سویلینز کے پاس رہا ہے۔لاہور میں مقیم صحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے بیچ تعلقات کمزور رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’مگر جس طرح انڈیا، پاکستان کشیدگی کے دوران عوام فوج کی حمایت میں کھڑی ہوئی، یہ تاثر زائل ہو گیا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس اس صورتحال سے سیاسی جماعتیں کوئی فائدہ نہیں اٹھا پائیں۔انڈیا، پاکستان کشیدگی کا ایک ماہ: 88 گھنٹوں پر محیط تنازعے کے دوران کیا کچھ ہوتا رہا؟الیکٹرانک سگنیچر: انڈیا اور پاکستان کے ایک دوسرے کی سرحدی حدود میں طیارے مار گرانے کے دعوؤں کی تصدیق کیسے ممکن ہے؟جنرل انیل چوہان کے انٹرویو پر انڈیا میں ردِعمل: ’بلومبرگ ٹی وی پر نقصانات کا اعتراف کر سکتے ہیں تو اپنے ملک میں خاموشی کیوں؟‘رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںانڈیا پاکستان کشیدگی کے دوران ’انفارمیشن وار‘ اور وہ فوجی اہلکار جو اس ’جنگ‘ کا چہرہ بن گئےجوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ کتنا حقیقی ہے؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

پاکستان کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر انڈیا کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے: وزیراعظم

خیبر پختونخوا میں نان پروفیشنل ٹور آپریٹرز سیاحت کو کیسے نقصان پہنچا رہے ہیں؟

رانا ثنا اللہ کی پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو ایک ساتھ بیٹھنے کی دعوت

فیلڈ مارشل عاصم منیر نے عیدالاضحی اگلے مورچوں پرتعینات جوانوں کے ساتھ منائی، آئی ایس پی آر

چار مہینے میں پنجاب میں 58 ہزار سے زائد کومبنگ آپریشنز: یہ آپریشن ہے کیا، کیسے کیا جاتا ہے؟

مردان، گھرمیں گیس سلنڈر دھماکہ 6 افراد جاں بحق، 2 زخمی

فیصل آباد میں عید کے موقع پرافسوسناک واقعہ، دیرینہ دشمنی 3 زندگیاں نگل گئی

پاکستان میں مویشی خریداری پر جرمن سفیر کا دلچسپ ردِ عمل

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کو دو اہم ذمہ داریاں ملنے پر انڈیا میں تشویش کیوں؟

لاہور، ایس پی ڈولفن کا علی الصبح شہربھر کے ناکہ جات کا دورہ

لاہور پولیس اور بس سروس کا تنازع، ٹریول آئی پروگرام کیسے کام کرتا ہے؟

صدرمملکت، وزیراعظم، فیلڈ مارشل عاصم منیرکا عیدالاضحیٰ کے موقع پر قوم کو مبارکباد اور پیغام

آج ملک بھر میں عید الاضحیٰ مذہبی جوش و جذبے سے منائی جا رہی ہے

پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کشیدگی کا ایک ماہ: چار روزہ تنازع نے دونوں ملکوں کو کیسے بدلا؟

قربانی کا مزہ تو پاکستان میں ہے

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی