قطر میں العدید ایئر بیس سمیت امریکی فوج مشرقِ وسطیٰ میں کہاں اور کیوں موجود ہے؟


Getty Imagesایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران نے جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کا ’کڑا اور فاتحانہ جواب‘ دیا ہے۔ ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی تسنیم نے کہا ہے کہ پاسداران انقلاب نے قطرمیں امریکی فضائی اڈے العدید کو نشانہ بنایا ہے۔ جبکہ خبر رساں اداروں روئٹرز اور اے ایف پی کے مطابق دوحہ میں دھماکوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔پینٹاگون نے تصدیق کی ہے کہ ایران کی جانب سے العدید ایئر بیس پر قلیل اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں داغے گئے تھے۔ امریکی وزارت دفاع کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ایرانی حملے میں کسی امریکی شہری کو جانی نقصان پہنچنے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ ادھر قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری کا کہنا ہے کہ قطر پر ایرانی حملہ ملکی سالمیت، فضائی حدود، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ قطر کے فضائی دفاعی نظام نے ایرانی میزائل حملے ناکام بنائے جبکہ فضائی اڈے کو پہلے ہی خالی کرا لیا گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ اڈے پر قطری مسلح افواج، دوست ممالک کی فورسز اور دیگر کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے گئے ہیں۔قطری وزارت خارجہ کے مطابق اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ قطر کو اس 'جارحیت' پر جوابی کارروائی کا حق حاصل ہے۔دوسری طرف ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کا کہنا ہے کہ ایران کی فوج نے قطر میں جس امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا ہے، وہ شہری اور رہائشی علاقوں سے بہت دور تھا۔ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ایران کی سپریم سکیورٹی کونسل کے سیکریٹریٹ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام سے ’ہمارے دوست اور برادر ملک قطر اور اس کے معزز لوگوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘’ایران قطر کے ساتھ گرمجوشی اور تاریخی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم ہے۔‘امریکہ کی العدید بیس پر حملے کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'اس کامیاب آپریشن میں استعمال ہونے والے میزائلوں کی تعداد ان بموں کے برابر تھی جو امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے میں استعمال کیے تھے۔'یاد رہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ایک ’ٹیم‘ کی طرح کام کیا اور ’اسرائیل کے لیے بدترین خطرے‘ کو مٹا دیا۔ تاہم ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ امریکہ نے ایران کے عوام کے خلاف خطرناک عسکری کارروائی کا ارتکاب کیا اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی۔ انھوں نے امریکی حملے پر جوابی کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔ BBCہم قطر میں العدید ایئر بیس کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟العدید ایئر بیس قطر کے دارالحکومت دوحہ کے قریب واقع ہے۔ یہاں مشرق وسطیٰ میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے فضائی آپریشنز کا ہیڈکوارٹر ہے۔ اس اڈے پر قریب آٹھ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔اس اڈے پر برطانوی فوج بھی باری باری تعینات ہوتی ہے۔ اسے بعض اوقات ابو نخلہ ایئرپورٹ کہا جاتا ہے۔قطر نے سنہ 2000 میں امریکہ کو العدید ایئر بیس تک رسائی دی تھی۔ لندن میں قائم انٹیلیجنس فرم گرے ڈائنیمکس کے مطابق یہ ایئر بیس 2001 میں امریکہ کے زیرِ انتظام آئی تھی۔ دسمبر 2002 میں دوحہ اور واشنگٹن نے باقاعدہ ایک معاہدے کے ذریعے العدید ایئر بیس پر امریکی فوج کی موجودگی تسلیم کی تھی۔سنہ 2024 میں سی این این نے اطلاع دی تھی کہ امریکہ نے قطر میں عسکری موجودگی کو مزید 10 سال کی توسیع دی ہے۔BBCامریکی فوج خطے میں کہاں کہاں موجود ہے؟باربرا سلاون واشنگٹن میں سٹمسن سینٹر میں فیلو اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں لیکچرر ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری نظر رکھتی ہیں۔انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ امریکہ کی اس خطے میں موجودگی سنہ 1940 کی دہائی سے خلیج فارس میں رہی ہے جبکہ نائن الیون حملوں کے بعد اس میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ امریکہ نے سنہ 1945 میں سعودی شہر الظھران میں اس خطے میں اپنا پہلا فضائی اڈہ بنا لیا تھا۔ امریکی محکمۂ دفاع کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں لگ بھگ 40 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔خبررساں ادارے اے پی کے مطابق گذشتہ برس سات اکتوبر سے پہلے امریکہ کے مشرقِ وسطیٰ میں 34 ہزار کے لگ بھگ فوجی تعینات تھے جن میں گذشتہ ایک سال کے دوران چھ ہزار فوجیوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی اڈہ العدید ایئر بیس ہے جو قطر میں واقع ہے اور سنہ 1996 میں بنایا گیا تھا۔قطر کے علاوہ بحرین، کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، شام، اردن، مصر، قبرص اور عراق میں بھی امریکی فوجی موجود ہیں۔ امریکی کے کویت میں بھی متعدد فوجی اڈے ہیں جبکہ سعودی عرب میں بھی اس کے دو اڈے ہیں۔ باربرا سلاون کے مطابق ’سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، عمان، کویت، اردن اور بحرین امریکہ کی جانب سے فراہم کیے گئے تحفظ کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘Getty Imagesخبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق عراق میں اب بھی امریکہ کے دو ہزار سے زیادہ اہلکار موجود ہیں جو عین الاسد ایئر بیس اور ’یونین تھری‘ جیسی سہولیات کے ارد گرد تعینات ہیں۔امریکی پالیسی دستاویزات کے مطابق امریکی فوجی مختلف وجوہات کی بنا پر مشرقِ وسطیٰ میں تعینات کیے گئے ہیں اور شام کے علاوہ وہ ہر ملک کی حکومت کی اجازت سے وہاں موجود ہیں۔عراق اور شام جیسے ملکوں میں امریکی فوجیں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے موجود ہیں۔ یہاں امریکی فوجی مقامی فورسز کو تربیت بھی دیتے ہیں۔امریکہ کے ایک اہم اتحادی ملک اردن میں سینکڑوں امریکی ٹرینرز ہیں جہاں وہ سال بھر وسیع مشقیں کرواتے ہیں۔امریکہ کا ’ٹاور 22‘ فوجی اڈہ اردن میں شمال مشرقی مقام پر واقع ہے۔ اس مقام پر اردن کی سرحدیں شام اور عراق سے ملتی ہیں۔ رواں سال 28 جنوری کو اس اڈے پر ایک ڈرون حملے میں امریکی آرمی ریزرو کے تین فوجی ہلاک ہوئے تھے جس کا الزام واشنگٹن نے ایرانی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا کتائب حزب اللہ پر لگایا تھا۔فوجی اڈوں اور فوجیوں کی موجودگی کے علاوہ بحیرہ احمر، خلیجِ عمان اور بحیرہ روم میں امریکی بحریہ موجود ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق کچھ ہی روز میں یہاں دو امریکی طیارہ بردار جنگی بحری جہاز موجود ہوں گے۔ یو ایس ایس ابراہم لنکن پہلے ہی خلیج عمان کے قریب موجود ہے جبکہ کچھ ہی روز میں یو ایس ایس ٹرومین بحیرۂ روم کے پانیوں میں پوزیشن سنبھال لے گا۔ یوں خطے میں امریکی برّی، بحری، اور فضائی تینوں افواج موجود ہیں۔ ’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟دریائے نیل سے نہرِ فرات تک پھیلے ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ ہے یا کوئی ٹھوس منصوبہباہمی مفادات یا حکمت عملی: امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت اور مدد کیوں کرتا ہے؟اسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟Getty Imagesامریکی فوجی ہزاروں میل دور خطے میں کیوں موجود ہیں؟دہائیوں سے امریکہ کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں ہزاروں میل دور اپنی افواج بٹھانے کے پیچھے متعدد وجوہات ہیں۔ ایشیا اور شمالی افریقہ کے بیچ موجود مشرقِ وسطیٰ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اس کی عالمی نقشے پر ایک اہم پوزیشن اسے دوسرے ممالک کی خارجہ پالیسی خاص کر امریکہ کی خارجہ پالیسی کے لیے اہم ثابت ہوتی رہی ہے۔ تیلسنہ 1938 میں سعودی عرب کے مشرقی شہر الظھران سے تیل کا کنواں دریافت ہونے کے بعد سے تیل کی عالمی معیشت میں قدر میں دن بدن اضافہ دیکھنے کو ملا۔ برطانوی یونیورسٹی ایس او اے ایس میں ڈیولپمنٹ سٹڈیز کے پروفیسر گلبرٹ ایخکر نے بی بی سی ورلڈ سروس کو ایک ویڈیو میں بتایا کہ ’تیل کو جب عالمی معیشت میں اہمیت ملی تو ظاہر ہے کہ اس کی سٹریٹیجک اہمیت بھی بڑھ گئی۔ برطانیہ کے پالیسی انسٹیٹیوٹ چیٹھم ہاؤس میں اسوسی ایٹ فیلو ڈاکٹر لینا خطیب نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اکثر افراد یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ امریکہ اس خطے میں صرف تیل کی وجہ سے ہے حالانکہ اس حوالے سے امریکہ خود کفیل ہے اور سنہ 2022 میں تیل کی سب سے زیادہ پیداوار امریکہ میں ہوئی تھی، جو اس سال سعودی عرب سے 30 فیصد زیادہ تھی۔پروفیسر گلبرٹ کے مطابق امریکہ ایسا یہاں دیگر یورپی ممالک اور چین کے مشرقِ وسطیٰ کے تیل تک رسائی پر نظر رکھنے کے لیے بھی کر سکتا ہے۔ تاہم چند دیگر اہم عوامل بھی ہیں۔اسرائیل خیال رہے کہ مشرقِ وسطیٰ روس اور امریکہ کی سرد جنگ کا شکار رہا ہے اور امریکہ میں یہ سوچ آج بھی موجود ہے کہ وہ جہاں بھی خلا چھوڑے گا اسے روس پر کر لے گا۔ تاہم امریکہ کی اسرائیل کے لیے ہمدردیاں سنہ 1948 میں اس کے قیام کے بعد سے ہیں۔ اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے معاہدے کے 12 منٹ بعد ہی اس پر دستخط کر دیے تھے۔ لینا خطیب کے مطابق ’امریکہ سمجھتا ہے کہ یہودیوں کے ساتھ جو کچھ بھی دوسری عالمی جنگ کے دوران ہوا وہ غلط تھا اور وہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ یہودیوں اور ان کے ایک علیحدہ خودمختار ریاست کے خواب کو پورا کرے۔‘اسرائیل کے علاوہ امریکہ کے سعودی عرب، بحرین، قطر، اردن اور متحدہ عرب امارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رہے ہیں۔ سکیورٹی اور ایرانلینا خطیب کے مطابق امریکہ نے دنیا میں خود کو ایک ’عالمی پولیس مین‘ کا کردار سونپ رکھا ہے اور مشرقِ وسطیٰ ایک اہم خطہ ہے جہاں سے عالمی بحری تجارتیراستےگزرتے ہیں۔سنہ 2001 کے ستمبر 11 کے حملوں کے بعد جب امریکہ نے عراق پر بھی حملے کا فیصلہ کیا تو ایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں کو عراق جنگ میں بھیجا گیا تھا تاہم امریکی قبضے کے بعد پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال نے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کو جنم دیا۔ یوں امریکہ نے شام اور عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف بھی کارروائی کی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کا بڑا حریف ایران بھی اسی خطے میں موجود ہے۔تھنک ٹینک ایٹلانٹک کونسل کی سابق ڈائریکٹر اور انسٹیٹیوٹ فار سوشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تقیٰ نصیرت کہتی ہیں کہ امریکہ کے معاشی، سیاسی اور عسکری ایسٹس مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہیں جن کی حفاظت کے لیے اسے یہاں فوجیوں کی ایک مخصوص تعداد رکھنا ضروری ہے۔’امریکہ کے پاس خطے میں متعدد فضائی اڈے ہیں جن کے ذریعے وہ جب چاہے ردِ عمل دے سکتا ہے اور اکثر موقعوں پر کچھ نہ کیے بغیر بھی صورتحال پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ چین اور روس جیسے جیسے خطے میں اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں تو ایسے میں امریکہ کے پاس خطے میں فوجوں کی موجودگی اسے برتری دیتی ہے۔‘Getty Imagesخطے میں امریکی فوج کی موجودگی سے اسرائیل کو کیسے فائدہ پہنچتا ہے؟امریکہ کی خطے میں عسکری موجودگی کے حوالے سے تو ہم آپ کو تفصیلات بتا چکے ہیں لیکن اس سے اسرائیل کو ایران کے خلاف کیسے فائدہ پہنچ سکتا ہے؟اس بارے میں ہم نے واشنگٹن میں پالیسی انسٹیٹیوٹ ولسن سینٹر میں مڈل ایسٹ پروگرام کے کوارڈینیٹر یوسف کین سے بات کی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی موجودگی طاقت کا توازن اسرائیل کے حق میں کرنے میں چار طریقوں سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ’ایک تو امریکی سیاسی حمایت اسرائیل کی کسی بھی قسم کی کارروائیوں کو جائز قرار دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، خاص کر عالمی اداروں میں۔ دوسرا امریکہ کی خطے میں موجودگی کی وجہ سے مقامی اور خطے میں موجود تنازعات کو محدود کرنے میں مدد ملتی ہے اور شام جیسے ممالک جو سالوں سے تنازعات کا شکار تھے میں استحکام آتا ہے اور اسرائیل کو مزید آزادی ملتی ہے۔‘ ’تیسرا یہ کہ اسرائیلی اور امریکی مفادات خاص کر معاشی اعتبار سے ایک جیسے ہیں، اور آخری یہ کہ اسرائیل کو امریکہ کی موجودگی کے باعث تحفظ ملتا ہے، انٹیلیجنس شیئر ہوتی ہے اور سٹریٹیجک سپورٹ ملتی ہے۔‘ قائد اعظم یونیورسٹی میں امریکہ کی بین الاقوامی پالیسی پر گہری نظر رکھنے والے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد شعیب کے مطابق ’اسرائیل ایک چھوٹی ریاست ہے اور چھوٹی ریاستوں کا ایک مسئلہ ان کی ’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کی کمی ہوتی ہے۔ یعنی ان کے پاس خطے میں اپنے دشمنوں کے خلاف لڑنے کے لیے وہ وسعت نہیں ہوتی جو بڑی طاقتوں کے پاس ہوتی ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ میں موجودگی ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں یعنی پراکسیز کے لیے ایک ڈیٹیرنس (یعنی ڈر پیدا کرنے کے لیے) ہے۔ امریکی بحری بیڑے خطے میں بحیرۂ احمر، بحیرۂ روم اور بحرِ ہند میں بھی موجود ہیں اور یہ ایک مربوط نیٹ ورک ہے۔‘ ’اسی وجہ سے ایران جب بھی حملہ کرتا ہے تو امریکہ کو اس بات کا فوری علم ہو جاتا ہے اور وہ اسرائیل کو اس حوالے سے خبردار کر دیتا ہے یا وہ خود بھی ان میزائلوں کو روک دیتا ہے۔‘Getty Images’امریکہ کا کردار اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی چھوٹ دیتا ہے‘امریکہ رواں صدی میں مشرقِ وسطیٰ میں عراق اور شام کی جنگ میں براہ راست جبکہ متعدد جنگوں میں بالواسطہ یعنی پراکسی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے نزدیک ماضی کے تجربے کو دیکھتے ہوئے امریکہ اب مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہے گا۔امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کی پروفیسر الزبتھ شیکمین ہرڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چین امریکہ کے لیے جتنا بھی اہم کیوں نہ ہو لیکن امریکہ ہمیشہ دنیا میں ایسے مواقعوں کی تلاش میں رہے گا جہاں اسے اپنا اثرورسوخ دکھانے کا موقع مل سکے۔‘’یہ صورتحال تبدیل بھی ہو سکتی ہے لیکن اس وقت امریکہ پوری طرح سے اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہے اور جب تک ایسا رہے گا اسرائیل کو اپنا نسلی قوم پرست (ایجنڈا) اور اپنا اثرورسوخ بڑھانے جیسے اہداف کو حاصل کرنے میں مدد ملتی رہے گی۔‘انسٹیٹیوٹ فار سوشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تقیٰ نصیرت کہتی ہیں کہ ’روس اور چین کے کڑے مقابلے کے باوجود امریکہ اب بھی مشرقِ وسطیٰ میں موجود وہ واحد عالمی طاقت ہے جس کا یہاں اثر و رسوخ ہے اور وہ اسے خطے میں توازن کو اسرائیل کے حق میں پلٹنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ امریکہ خطے میں زیادہ تر ممالک پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور وہ اس چھوٹ کو ضرورت پڑنے پر اسرائیل کی حفاظت کے لیے استعمال کرتا ہے۔’امریکہ کا فوجی اور معاشی اثر و رسوخ اور اس کی جانب سے اسرائیل کی عوامی اور ذاتی حمایت کے بعد امریکہ کا کردار اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی چھوٹ دیتا ہے۔‘باہمی مفادات یا حکمت عملی: امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت اور مدد کیوں کرتا ہے؟’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟دریائے نیل سے نہرِ فرات تک پھیلے ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ ہے یا کوئی ٹھوس منصوبہاسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ایران اور اسرائیل کے درمیان دوستی ’خونیں دشمنی‘ میں کیسے بدلی’داؤد کی غلیل‘: موساد کے دفتر کو حزب اللہ کے میزائل سے بچانے والا ’جادو کی چھڑی‘ جیسا اسرائیلی دفاعی نظام کیا ہے؟ اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا سراغ کیسے لگایا اور انھیں کیسے نشانہ بنایا گیا؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

مارنے کے لئے گھر پر لوگ بھیجے۔۔ 50 کروڑ کا مقدمہ ! ماریہ بی اور شہزاد غیاث شیخ نے ایک دوسرے پر کیا سنگین الزامات عائد کردیے؟

وہ شخص جسے اسرائیل کے جوہری پروگرام کا راز افشا کرنے پر دو دہائیاں جیل میں گزارنا پڑیں

اسرائیل کا جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لیکن ایرانی میڈیا کی تردید، اسرائیلی وزیر دفاع کا تہران کو نشانہ بنانے کا حکم

’سگریٹ یا ویپ کبھی استعمال نہ کریں‘: آپ اپنے دل کا خیال کیسے رکھ سکتے ہیں

قطر میں العدید ایئر بیس سمیت امریکی فوج مشرقِ وسطیٰ میں کہاں اور کیوں موجود ہے؟

’سردار جی 3‘ کے ٹریلر میں ہانیہ عامر کو دیکھ کر انڈیا میں شور: ’دلجیت دوسانجھ کا پاسپورٹ منسوخ کیا جائے‘

’ایک نوبیل انعام پاکستانی عوام کے لیے‘

ٹرمپ کی جانب سے ’سرخ لکیر عبور کرنے کے بعد‘ ایران کا اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے؟

’اسرائیل کارروائیاں بند کر دے تو ہمارا جوابی حملوں کا کوئی ارادہ نہیں:‘ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے دعوے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ کا پیغام

کراچی میں بارش کا سلسلہ جمعے سے کب تک جاری رہے گا؟ محکمہ موسمیات نے خبردار کردیا

لانڈھی کورنگی میں ٹریفک حادثات: 2 موٹر سائیکل سوار جاں بحق

’اسرائیل کارروائیاں بند کرے تو ہمارا جوابی حملوں کا کوئی ارادہ نہیں:‘ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے دعوے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ کا پیغام

ایران اور اسرائیل نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے: امریکی صدر ٹرمپ کا دعویٰ

ایران اور اسرائیل نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے: امریکی صدر ٹرمپ

ایران اب امن کی طرف بڑھ سکتا ہے، چاہوں گا کہ اسرائیل بھی ایسا کرے: ڈونلڈ ٹرمپ

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی