
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو جنگ میں دھکیلنے کا داؤ کھیلا۔ شاید یہ داؤ وقتی طور پر مددگار بھی ثابت ہوا۔ ٹرمپ نے پیر کی شام یہ اعلان کیا تھا کہ دونوں ممالک نے جنگ بندی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب دیرپا امن کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔ اگر امریکی صدر درحقیقت اپنے بقول اس ’12 روزہ جنگ' کو ختم کر دیتے ہیں تو یہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لینے والی کشیدگی سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے مترادف ہو گا۔ مگر اس سے قبل ایرانی جوہری تنصیبات پر فضائی حملوں سے ایسا لگا تھا کہ امریکہ بھی اسرائیل کے ساتھ ایران کے خلاف اس جنگ میں شریک ہو رہا ہے۔ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل ایرانیوں کے خلاف صبح چار بجے سے پہلے اپنی غیر قانونی جارحیت بند کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اپنے ردعمل کو مزید جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اسے شاید جنگ بندی نہیں کہا جا سکتا لیکن جیسے ہی تہران میں صبح کے چار بجے کی ڈیڈ لائن ختم ہوئی تو اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے حملے بند کر دیے۔ بظاہر لگتا ہے کہ دونوں فریقین تناؤ کم کرنے کے قریب ہیں۔ یہ پیشرفت ایک ہنگامہ خیز دن کے بعد سامنے آئی۔ جب ایران نے سنیچر کے امریکی حملے کا بدلہ لینے کا اپنا وعدہ پورا کیا تھا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق امریکی اڈے پر داغے گئے تمام ایرانی میزائل قطر نے روک لیے تھے اور امریکہ کا اس میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا تھا۔ صدر ٹرمپ نے قوم سے سنیچر کی رات خطاب میں ایران کو خبردار کیا تھا کہ امریکی مفادات پر ایرانی حملے کا بھرپورا جواب دیا جائے گا۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر امریکی افواج کی جانب سے مزید اہداف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ 24 گھنٹوں کے دوران دنیا منتظر تھی کہ ایران کیا کرے گا۔ اور پھر جیسے ہی ایران نے اپنا ردعمل دیا تو دنیا کی توجہ پھر سے امریکی صدر کی جانب مڑی کہ وہ کیا کریں گے اور پھر چند گھنٹوں کے بعد انھوں نے اس پر اپنا پہلا بیان دیا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر امریکی صدر نے لکھا ’ایران نے اپنی جوہری تنصیبات پر ہمارے حملے کے بعد سرکاری طور پر ایک بہت کمزور جواب دیا ہے، جس کی توقع تھی اور ہم نے اس کا بہت موثر طریقے سے جواب دیا ہے۔‘پینٹاگون نے جوہری تنصیبات پر حملے سے پہلے کیسے ’ٹاپ سیکرٹ‘ پروازوں کے ذریعے دنیا کی نظریں ایران سے ہٹا کر ایک جزیرے پر مرکوز کروا دیںقطر میں العدید ایئر بیس سمیت امریکی فوج مشرقِ وسطیٰ میں کہاں اور کیوں موجود ہے؟’ایک نوبیل انعام پاکستانی عوام کے لیے‘پُراسرار نقل و حرکت، سرمئی دھول اور ملبے کے آثار: امریکی حملے میں ایرانی جوہری تنصیبات کو کتنا نقصان ہوا؟BBCان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاید اب ایران خطے میں امن اور ہم آہنگی کی جانب بڑھ جائے۔ اگرچہ اطلاعات کے مطابق نقصان کم ہوا ہے، صدر ٹرمپ بظاہر یہ امید کر رہے ہیں کہ ایران سنجیدگی کے مذاکرات کرنا چاہے گا۔ اور پس پردہ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ وہ قطری مصالحت کاروں اور اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ سیز فائر پر کام کرنے کے لیے بات کر رہے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال جنوری 2020 میں سامنے آئی جب ٹرمپ نے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد میں ایک حملے میں قتل کرنے کا حکم دیا۔ ایران نے عراق میں امریکی اڈے پر میزائل حملے کیے جس میں 100 سے زیادہ امریکی سپاہی زخمی ہویے لیکن امریکہ نے کوئی جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق پیر کو ایران نے امریکی اڈے پر اتنے ہی میزائل مارے جتنے امریکی جنگی جہازوں نے ایران میں ہفتے کے اختتام پر حملوں میں گرائے تھے۔ ایران کی جانب سے قطری حکومت کو ان میزائل حملوں کے بارے میں پیشگی اطلاع کی گئی تھی۔ اس حوالے سے ٹرمپ نے کہا کہ وہ شکرگزار ہیں کہ ایرانی تناسب چاہتے ہیں اس میں اضافہ نہیں چاہتے۔اس دن ٹرمپ کی توجہ تیل کی قیمتوں، امریکی میڈیا کی کوریج اور سابق روسی صدر کی اس رائے پر مرکوز رہی کہ ایران کو کوئی بیرونی ملک جوہری ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ صدر نے اپنے پیشرو کے برعکس خطرات کو دیکھ کر اقدامات اٹھائے ہیں۔ اگر ایران دوبارہ سے حملے کرتا ہے اور ان میں امریکیوں کی اموات ہوتی ہیں یا بڑا نقصان ہوتا ہے تو ردعمل کے لیے صدر ٹرمپ پر دباؤ بڑھے گا۔ بہرحال اس وقت ایسا لگتا ہے کہ وہ مزید لڑائی نہیں چاہتے اور دونوں ممالک یہ مطالبہ سن رہے ہیں۔ قطر میں العدید ایئر بیس سمیت امریکی فوج مشرقِ وسطیٰ میں کہاں اور کیوں موجود ہے؟’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟پُراسرار نقل و حرکت، سرمئی دھول اور ملبے کے آثار: امریکی حملے میں ایرانی جوہری تنصیبات کو کتنا نقصان ہوا؟پینٹاگون نے جوہری تنصیبات پر حملے سے پہلے کیسے ’ٹاپ سیکرٹ‘ پروازوں کے ذریعے دنیا کی نظریں ایران سے ہٹا کر ایک جزیرے پر مرکوز کروا دیں’ایک نوبیل انعام پاکستانی عوام کے لیے‘