
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے پیر کو گذشتہ برس احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے طالب علم ابو سعید کے قتل کا مقدمہ شروع کر دیا ہے۔ یہ وہی طالب علم ہیں جن کا قتل ملک گیر مظاہروں کا سبب بنا تھا، اور جس کے نتیجے میں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 23 سالہ ابوسعید کی رنگپور شہر میں ہلاک ہوئے تھے۔ وہ پولیس کے مظاہرین پر کریک ڈاؤن کے دوران ہلاک ہونے والے پہلے طالب علم تھے۔16 جولائی 2024 کو ان کے آخری لمحات کی فوٹیج، جس میں انہوں نے گولی لگنے سے قبل اپنے بازو پھیلائے ہوئے تھے، شیخ حسینہ واجد کے زوال کے بعد بنگلہ دیشی ٹیلی ویژن پر بار بار دکھائی گئی۔بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے ٹریبونل کے استغاثہ نے اس قتل کے سلسلے میں 30 افراد پر فرد جرم عائد کی ہے۔ لیکن صرف چار ہی حراست میں ہیں جن میں دو پولیس افسر، ایک یونیورسٹی اہلکار اور ایک طالب علم رہنما شامل ہیں، جبکہ باقی 26 کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔شیخ حسینہ کے اقتدار میں رہنے کی کوشش کے دوران مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں اقوام متحدہ کے مطابق گذشتہ برس جولائی اور اگست کے درمیان 14 سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے کہا کہ عدالت نے باضابطہ الزامات کو قبول کر لیا ہے اور مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے بتایا ہے کہ شیخ حسینہ نے اس وقت کے وزیر داخلہ کو مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس وقت کے انسپکٹر جنرل آف پولیس نے اس ہدایت پر عمل کیا، اور سینیئر پولیس افسران کے ماتحت فورسز نے حکم پر عمل کیا۔‘ابو سعید کے آخری لمحات کی فوٹیج شیخ حسینہ واجد کے زوال کے بعد بنگلہ دیشی ٹیلی ویژن پر بار بار دکھائی گئی۔ (فوٹو: ایکس)یونیورسٹی انتظامیہ کے سینیئر ارکان نے بھی احتجاج کو کچلنے کی کارروائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔‘ان میں ان میں بیگم روقیہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر حسیب الرشید بھی شامل ہیں۔ابو سعید کے قتل کے مقدمے کا آغاز طلبا کی احتجاجی تحریک کے ایک برس پورے ہونے سے ایک دن پہلے ہوا ہے۔