کراچی سے اغوا ہونے والا بچہ مسجد کے باہر بھیک مانگتے ہوئے کیسے ملا؟


’میں نے جیسے ہی مسجد سے باہر قدم رکھا، میری نظر ایک بھیک مانگنے والے بچے پر پڑی۔ میں ایک لمحے کے لیے رُکا اور پھر اس چہرے کو غور سے دیکھا، وہ چہرہ، وہ آنکھیں، یہ میرا بھتیجا حسین تھا۔‘یہ کہنا تھا کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن کے رہائشی ناصر حسین کا جنہوں نے اڑھائی ماہ قبل لاپتہ ہونے والے اپنے بھتیجے کو مسجد کے باہر اچانک بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔یہ واقعہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مضافاتی علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں پیش آیا، جہاں مئی 2025 کو تین سالہ حسین علی اپنے گھر کے باہر کھیلتے ہوئے لاپتہ ہو گیا تھا۔بچے کی گمشدگی کے فورا بعد اہلخانہ نے تھانہ شاہ لطیف ٹاؤن میں رپورٹ درج کروائی۔ دفعہ 363 کے تحت ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا، لیکن کئی ہفتے گزرنے کے باوجود حسین علی کا کوئی سراغ نہ ملا۔محمد حسین کے چچا نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’21 جولائی کو وہ معمول کے مطابق فاروق اعظم مسجد میں نماز عشا ادا کرنے گئے تھے کہ مسجد میں ان کے بھتیجے کے کمسن دوست نے انہیں بتایا کہ ان کا بھتیجا حسین مسجد کے باہر بھیک مانگ رہا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’بچے کی بات سن کر وہ جیسے ہی مسجد سے باہر آئے تو ان کی نظر ایک بچے پر پڑی جو بھیک مانگ رہا تھا۔ قریب جا کر دیکھا تو وہ ان کا بھتیجا حسین ہی تھا جو رواں سال مئی کے مہینے میں لاپتہ ہوا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’بچے کے چہرے پر گرد جمی ہوئی تھی، کپڑے میلے، اور آنکھوں میں خوف تھا۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ’بچے کے ساتھ ایک مشکوک شخص کھڑا تھا، جو اُس سے بھیک منگوا رہا تھا۔ انہوں نے فوری طور پر شور مچایا، جس پر اہل علاقہ اکٹھے ہو گئے اور اس مشکوک شخص کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔‘پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش میں گرفتار شخص کی شناخت شہریار ولد مشتاق حسین کے طور پر ہوئی ہے۔ایس ایچ او شاہ لطیف پولیس سٹیشن صدرالدین میرانی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے گرفتار ملزم کی نشاندہی پر واقعہ میں ملوث مزید دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے. گرفتار ملزمان میں ملزم شہریار کی ساس شامل ہیں.پولیس نے بچے کو بازیاب کر کر فوری طور پر والدین کے حوالے کر دیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)پولیس نے اردو نیوز کو بتایاکہ شہریار نے اعتراف کیا ہے کہ حسین کو اسے اس کے سسر سلطان نے دیا تھا اور وہ گزشتہ دو ماہ سے بچے سے مختلف علاقوں میں بھیک منگوا رہا تھا۔پولیس نے بچے کو بازیاب کر کے فوری طور پر والدین کے حوالے کر دیا۔ تھانہ شاہ لطیف ٹاؤن میں شہریار کے خلاف مزید دفعات کے تحت کارروائی جاری ہے۔بچے کے اغوا کی تفتیش کرنے والے ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق یہ محض انفرادی واقعہ نہیں بلکہ ممکنہ طور پر اس میں ایک منظم گروہ ملوث ہو سکتا ہے جو بچوں کے اغوا اور ان سے جبری مشقت لینے جیسے جرائم میں ملوث ہے۔تفتیشی حکام کے مطابق ملزم کے سسر سلطان کی تلاش جاری ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس گروہ میں مزید افراد بھی شامل ہیں، جو کراچی کے مختلف علاقوں میں بچوں سے جبری بھیک منگواتے ہیں۔حسین علی کے والدین کے مطابق وہ ہر دن اذیت میں گزارتے رہے، اور اب جب حسین واپس آ گیا ہے تو وہ اس کے مکمل ذہنی اور جسمانی علاج کے لیے کوشاں ہیں۔بچے کے والد آصف حسین کا کہنا ہے کہ ہمارا بیٹا واپس آ گیا، لیکن وہ اب بھی ڈرا ہوا ہے، بات نہیں کرتا، صرف خاموشی سے ہمیں دیکھتا رہتا ہے۔پاکستان میں ہر سال سینکڑوں بچے لاپتا ہوتے ہیں۔ کئی سے اغوا کے بعد جبری جبری مشقت کروائی جاتی ہے یا بھیک منگوائی جاتی ہے۔ قانون تو موجود ہے، مگر عمل درآمد کی کمی اور متاثرہ خاندانوں کی سماجی و مالی کمزوری ان مجرموں کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہے۔ایس ایس پی کا مزید کہنا تھا کہ یہ گروہ ایک منظم نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکا تھا (فوٹو: سندھ پولیس)روشنی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ ویلفیئر آرگنائزیشن ایک نجی فلاحی ادارہ ہے جو بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے اور کراچی پولیس کے ساتھ مل کر گمشدہ بچوں کے سراغ اور بازیابی کے لیے معاونت فراہم کرتا ہے۔ان کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے جون کے دوران کراچی میں 597 بچے لاپتہ یا اغوا ہوئے، جن میں سے 579 کو بازیاب کر لیا گیا، جب کہ 18 بچے تاحال لاپتا ہیں۔یاد رہے کہ رواں ہفتے سپیشلائزڈ انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) نے کراچی میں کارروائی کرتے ہوئے بچوں کو اغوا کرنے والے میاں بیوی اور ایک خاتون کو گرفتار کیا ہے۔ایس ایس پی ایس آئی یو شعیب میمن کے مطابق ملزموں نے گزشتہ سال یکم دسمبر کو رحمت جان کالونی سعیدآباد سے چار سالہ بچے کو اغوا کیا تھا، جسے اب بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ تفتیش میں انکشاف ہوا کہ اغوا کار بچوں کے والدین کو اپنے آستانے پر بلا کر 2 لاکھ روپے لیتے اور پھر یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ روحانی علم سے بچے کی موجودگی کا پتا چلا رہے ہیں۔ایس ایس پی کا مزید کہنا تھا کہ یہ گروہ ایک منظم نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکا تھا جو بچوں کو اغوا کرنے کے بعد والدین کی بے بسی کا فائدہ اٹھا کر انہیں دھوکہ دیتا اور پیسے بٹورتا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزموں سے تفتیش جاری ہے اور ان کے دیگر ساتھیوں کی  گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

حکومت بلوچستان کا سینیٹر ایمل ولی خان کے بیان پر شدید ردعمل

بلوچستان اسمبلی میں جوڑے کےقتل کیخلاف مذمتی قرار منظور

نئی کسٹمز ویلیوایشن، سولر پینلز کی قیمتیں کتنی کم ہوں گی؟

ڈیگاری: پہاڑوں میں قید وہ علاقہ جہاں مرد اور خاتون کا قتل عرصے تک چھپا رہا

نو مئی واقعات: شاہ محمود بری، یاسمین راشد سمیت دیگر ملزمان کو دس، دس سال قید کی سزا

ڈی ایچ اے اسلام آباد میں بہہ جانے والے باپ بیٹی کا سراغ نہ مل سکا: شہروں میں ’اربن فلڈنگ‘ کے چار خطرات اور ان سے بچاؤ کا طریقہ

سابق گورنر پنجاب میاں اظہر انتقال کرگئے

سانحہ 9 مئی کیس: شاہ محمود سمیت 6 ملزمان بری، 8 کو سزائیں

بلوچستان واقعہ آنر کلنگ نہیں، صدیوں پرانا سرداری نظام ہے، ایمل ولی

کراچی سے اغوا ہونے والا بچہ مسجد کے باہر بھیک مانگتے ہوئے کیسے ملا؟

آج کاروبار کا دن نہیں ہے‘، گلگت بلتستان کے ہوٹلوں اور گھروں کے دروازے کھول دیے گئے

شاہراہِ قراقرم اور بابوسر ٹاپ دونوں اطراف سے لینڈ سلائیڈنگ کے باعث مکمل طور پر بند

دریائے جہلم اور چناب میں سیلاب کا خدشہ، راولپنڈی اور گجرانوالہ ڈویژن میں اربن فلڈنگ کا الرٹ جاری

آج کاروبار کا دن نہیں ہے‘، گلگت بلتستان کے مقامی ہوٹلوں اور گھروں کے دروازے کھول دیے گئے

’خواتین اور بچوں کو نہ نکالا جا سکا‘، بابوسر میں عینی شاہدین نے کیا دیکھا

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی