
بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں پک اپ اور بڑی گاڑیاں عجلت میں آکر رک جاتی ہیں، مردوں کا ایک ہجوم ان میں سےنکل کر باہر آجاتا ہے، وہ کچھ تیز آوازوں کے ساتھ مقامی (براہوی) زبان میں باتیں کررہےتھے، اس دوران ایک گاڑی سے ایک خاتون باہر آتی ہے، اس دوران بہت تیز آوازوں میں لوگ باتیں کر رہے ہوتے ہیں، اس دوران مرد کہتے ہیں کہ خاتون کے ہاتھ سے قرآن پاک لے لو اور اس کے بعد وہ خاتون کہتی ہے کہ آپ کو صرف گولی مارنے کی اجازت ہے۔
ایسا لگتا تھا کہ لوگ بڑی جلدی میں تھے اور وہ یہاں سے جلدی نکلنا چاہتے تھے، پھر وہ خاتون آہستہ آہستہ چلتی ہوئی گاڑیوں سے پرے ان مردوں سے کچھ دور جا کر کھڑی ہوجاتی ہے، اس دوران گاڑی کے قریب کھڑا ایک مرد پسٹل سے اس پر فائر کھول دیتا ہے، دو گولیاں کھانے کے بعد وہ خاتون گر جاتی ہے، وہ پھر گولیاں برسانے کا سلسلہ نہیں رکتا اور اسے لگاتار 7 گولیاں مار دیتا ہے۔ اس کے بعد ایک مرد کو بھی اسی جگہ پر 9 گولیاں مار کر قتل کردیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے جب ہم نے تجزیہ کار صحافی نوراحمد سیاہ پاد سے پوچھا کہ آیا یہ روایت ہمارے ہاں موجود ہے تو انہوں نے بتایا کہ "اگر بلوچ تاریخ کو ایمانداری سے پڑھا جائے، تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بلوچ معاشرے میں "غیرت" کے نام پر قتل جیسا عمل سراسر روایات کے خلاف ہے۔"
نوراحمد سیاہ پاد کہتے ہیں کہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے نواحی علاقے ڈیگاری میں ایک ماں "بانو" اور ایک نوجوان "احسان" کو سرِعام گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔ کہا گیا کہ یہ قتل غیرت کے نام پر ہوا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا غیرت واقعی ایسی ہوتی ہے؟ کیا غیرت بلوچ تہذیب میں گولیاں مارنا، وڈیوز بنا کر تماشہ لگانا اور دو نہتے انسانوں کی تذلیل کا نام ہے؟
وہ مزید کہتے ہیں کہ بلوچ قبائل ہمیشہ اس طرح کے معاملات میں شرعی احکامات کو اولیت دیتے آئے ہیں۔ ایسے فیصلے جامع مشاورت، شہادتیں اور ثبوت، قبائلی جرگے میں مستند قاضی کی اسلامی عدالتوں کے ذریعے ہوتے رہے ہیں، نہ کہ سرِعام بندوق کی گولی سے۔
انہوں نے کہا حیرت کی بات یہ ہے بلکہ اس واقعے سے زیادہ سنگین معاملہ یہ ہے بانو اور احسان کا بہیمانہ قتل، جو صریحاً غیر شرعی، غیر انسانی بلوچی روایات کے برخلاف اور غیر قانونی عمل ہے، اسے بعض افراد سوشل میڈیا پر "روایت" کا نام دے کر جواز دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور افسوسناک تر پہلو یہ ہے کہ کچھ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے اس المناک واقعے کو ویوز کے لیے بازار بنا دیا ہے۔
جہاں ساتکزئی قبیلہ اور بانو کے معصوم بچوں کی نہ صرف عزت بلکہ مستقبل کو بھی نیلام کیا جارہا ہے، کیوں کہ بانو، جو باعزت ساتکزئی قبیلے کی خاتون تھی، اس کا سرِعام قتل نہ صرف انسانیت کا قتل ہے بلکہ بلوچ سماج کی اخلاقی بنیادوں پر کاری ضرب ہے۔ لیکن اس قتل کے بعد سوشل میڈیا پر بانو کے خاندان، قبیلے اور یہاں تک کہ اس کے معصوم بچوں کو بھی بدنامی اور رسوائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
نوراحمد نے سوالیہ انداز میں جواب دیا کہ کیا معاشرے کا شعور اتنا مردہ ہوچکا ہے اور ہمارا ضمیر مر گیا ہے کہ ہم ایک مظلوم ماں کے لہو سے اپنا کانٹینٹ چمکائیں؟
میرا ان سوشل میڈیا کے سورماؤں سے ایک تلخ سوال ہے کہ غیر شرعی تعلقات کے الزام میں سزائیں صرف بانو اور احسان جیسے غریبوں کے لیے ہی کیوں مخصوص ہیں؟ کیا اشرافیہ کے بچے اور بچیاں سب پارسا ہیں؟ آج تک کسی وزیر، سردار، وڈیرے، جاگیردار یا دولت مند کی بیٹی یا بیٹے پر اس طرح کا الزام کیوں نہیں آیا؟ وہ سب کے سب پارسا ہیں یا ان کے لیے جہالت کی دنیا میں قانون الگ ہے؟
نوراحمد سمجھتے ہیں یہ سچ ہے کہ بلوچ معاشرہ اس وقت نہ خالص بلوچی روایات پر کھڑا ہے، نہ شریعت پر اور نہ قانون پر۔ بانو کا قتل اسی بے سمتی اور بے ضمیری کا ثبوت ہے۔ اور پھر بھی اس کے خاندان کو مسلسل تضحیک، الزام تراشی اور تماشے کا نشانہ بنانا بہت بڑی ناانصافی کے مترادف ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے رپورٹرز کو پتہ ہونا چاہیے کہ صحافت کا تقاضا انصاف مانگنا ہے، کردار کشی کرنا نہیں۔ بانو کے قتل کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہییں اور قاتلوں کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ، بانو کے خاندان اور ساتکزئی قبیلے کو اس واقعے کی آڑ میں بدنام کرنا بھی ایک مجرمانہ فعل ہے۔ اس جرم کی سزا کس کو ملنی چاہیے؟
قتل کے بعد لاشوں کی تذلیل، اور عزتوں کا جنازہ اٹھانے والوں کو ویوز اور فالوورز کی بھینٹ چڑھانا، نہ صحافت ہے، نہ غیرت ہے یہ محض درندگی کا اور جہلا کا سوشل میڈیا پر وہ ننگا رقص ہے جو ہم سب کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ کوئٹہ جہاں تمام سرکاری مشینری اور طاقت موجود ہے وہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر یہ واقعہ ہوجاتا ہے، لیکن کسی کو علم نہیں ہوتا اور جب ویڈیو وائرل ہوجاتی ہے تو پولیس حکام اور بعد میں سب کو علم ہوجاتا ہے۔
ڈیگاری کا علاقہ کوئٹہ اور مچھ کا درمیانی علاقہ ہےجو یہاں کوئٹہ سے 50 کلو میٹر کےفاصلے پر واقع ہے، جہاں پر ایک مرد اور خاتون کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر سرعام قتل کیا جاتا ہے، جس کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس حرکت میں آتی ہے، مقدمہ درج کرکے گرفتاریاں شروع ہوجاتی ہیں، جس میں ایک سردار بھی شامل ہے، جس کو وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران سردار صاحب کہہ دیا تو اسے گرفتار کیا جاتا ہے۔
ادھر صحافی مصنف اور بلوچستان کے معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے عزیز سنگھور سمجھتےہیں کہ یہ فیصلے انصاف پر مبنی نہیں بلکہ مردانہ بالادستی، قبائلی رِوایات کے نام پر خواتین دشمن ذہنیت اور ریاستی سرپرستی میں پلنے والی وڈیرا شاہی سوچ کی پیداوار ہیں۔ ایک عورت کا اپنی زندگی پر حق ہونا سب سے بنیادی انسانی حق ہے، لیکن یہ حق قبائلی نظام میں صلب کرلیا جاتا ہے اور پھر اس ظلم کو "روایت" کا نام دے کر جائز بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا: یقینی طور پر یہ واقعات بلوچ معاشرے کے ترقی پسند، روشن خیال اور مزاحمتی چہرے کو مسخ کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ عزیز کے بقول: 'عورت کو "غیرت" کے نام پر قتل کرنا صرف جرم نہیں بلکہ اجتماعی بے حسی، سرداری مفادات اور اسٹیبلشمنٹ کے پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔
عزیز نے بتایا ان واقعات کو جان بوجھ کر ہوا دی جاتی ہے تاکہ بلوچ عوام کی توجہ جبری گمشدگیوں، قدرتی وسائل کی لوٹ مار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ہٹائی جائے۔
سردار اور اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ اس ظلم میں برابر کا شریک ہے۔ سردار اپنی سرداری قائم رکھنے کے لیے عوام کو جاہل، پسماندہ اور عورت کو تابع رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ریاست ان سرداروں کو اس لیے سپورٹ کرتی ہے کیونکہ یہی سردار بلوچستان میں اس کے مفادات کے محافظ ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا یہ ایک گہری سازش ہے کہ بلوچ معاشرے کو ایک وحشی، غیرت پسند اور عورت دشمن سماج کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ اس کی سیاسی مزاحمت، حقوق کی جنگ اور قومی خود ارادیت کی تحریک کو کمزور کیا جاسکے۔
"یہ صرف ایک عورت کا قتل نہیں تھا، یہ بلوچ سماج کے اندر ابھرنے والی عورت کی آواز، بغاوت اور قیادت کا قتل ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو حکومت کے خلاف کھڑی ہے، جو سرداری نظام کی دیواریں توڑ رہی ہے، جو بلوچ تحریک میں ہراول دستہ بن چکی ہے۔ اسی لیے اس آواز کو قتل کیا گیا، اسی لیے ویڈیو وائرل کی گئی تاکہ خوف پھیلایا جا سکے۔"
عزیز سمجھتے ہیں جب بلوچ عورتیں اپنے لاپتہ شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کے لیے سڑکوں پر نکلتی ہیں، حکومتی ادارے لاٹھی چارج کرتے ہیں، گرفتاریاں ہوتی ہیں۔ اس وقت یہی سردار، نواب، جرگہ و معتبر حضرات خاموش تماشائی بنے ہوتے ہیں۔ ان کی غیرت صرف اُس وقت جاگتی ہے جب عورت اپنے فیصلے خود لینے لگے، جب وہ کسی مرد کے برابر آ کھڑی ہو، جب وہ ظلم کے خلاف زبان کھولے۔
یہی سردار ہر الیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں، ان ہی کو وزراتیں دی جاتی ہیں، یہ وہ طبقہ ہے جو ریاست کا اتحادی ہے، نہ کہ بلوچ عوام کے نمائندے۔
ان کا کہنا تھا: 'مگر اب بلوچستان بدل رہا ہے۔ وہ بلوچ معاشرہ جس میں کبھی عورت کو پس منظر میں رکھا جاتا تھا۔'آج عورت فرنٹ لائن پر ہے۔
عزیز سنگھور سمجھتے ہیں کہ "یہ واقعہ محض غیرت کے نام پر قتل نہیں، بلکہ ایک سیاسی واردات ہے۔ اس کا مقصد صرف دو جانیں لینا نہیں، بلکہ بلوچ تحریک کے اندر خوف پھیلانا، خواتین کی شرکت ختم کرنا اور سرداری و ریاستی نظام کا کنٹرول بحال رکھنا ہے۔"
ڈیگاری واقعہ نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ قومی اور عالمی سطح پر اجا گر ہوا اس کے خلاف کوئٹہ میں سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی احتجاج کیا، جنہوں نے قاتلوں کو سزا دینے اور جرگہ سسٹم کو ختم کرنےکا مطا لبہ کیا۔
جہاں ایک طرف ڈیگاری واقعہ منظر عام پر آکر پذیرائی حاصل کرسکا وہاں پر خواتین کو قتل کرنےکا سلسلہ نہ رک سکا، اس کے بعد کوئٹہ اور اندرون بلوچستان مزید واقعات سامنےآئے جن میں اس طرح لوگوں نے غیرت کے نام پر اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو قتل کردیا۔
"اس واقعہ کے حوالے سےترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے بھی کراچی پریس کلب میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں ایک خاتون کو گولیاں مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے واقعے کا فوری نوٹس لیا ہے۔
شاہد رند کے مطابق ویڈیو کا تجزیہ کرنے کے بعد علاقے کا تعین کرلیا گیا ہے، اور اس وقت وہاں پولیس اور سی ٹی ڈی کی ٹیمیں موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ کسی بھی فرد یا ادارے کی جانب سے رپورٹ نہیں کیا گیا تھا، تاہم بلوچستان حکومت نے از خود کارروائی کرتے ہوئے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا ہے۔"