
Getty Imagesجولائی کے آخری ہفتے میں انڈین خاتون وکیل اندرا جیسنگ نے سپریم کورٹ میں جنسی تعلق قائم کرنے کی قانونی عمر، جو کہ فی الحال 18 برس ہے، کے خلاف ایک پٹیشن فائل کی جس کے بعد نوعمری میں رضامندی سے سیکس کو جرم قرار دینے کے معاملے پر بحث نے دوبارہ زور پکڑ لیا ہے۔یاد رہے کہ انڈیا میں رائج قانون کے مطابق اگر آپ 18 سال سے کم عمر میں سیکس کرتے ہیں، چاہے وہ باہمی رضا مندی سے ہی کیوں نہ کیا گیا ہو، تو یہ عمل غیرقانونی اور قابل گرفت جرم ہے۔اندرا جیسنگ نے اپنی درخواست میں یہ استدلال کیا ہے کہ کم عمری میں رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرنا نہ تو استحصال پر مبنی ہے اور نہ ہی یہ ابیوز کے زمرے میں آتا ہے۔ انھوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ نوعمری میں رضا مندی سے سیکس کے معاملے کو قابل گرفت جرم کے زمرے سے نکالا جائے۔ انھوں نے اس ضمن میں عمر کی حد 16 سال کرنے کی استدعا کی ہے۔انھوں نے عدالت کے سامنے تحریری طور پر اپنا یہ مؤقف رکھا ہے کہ ’عمر کی بنیاد پر بنائے گئے قوانین کا مقصد ابیوز یا بدسلوکی کو روکنا تھا، نہ کہ رضامندی اور مناسب عمر میں سیکس کو۔‘لیکن انڈیا کی وفاقی حکومت نے اس پٹیشن کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ قانون میں اس طرح کی چھوٹ متعارف کروانے سے بچوں (انڈین قوانین کے مطابق 18 سال سے کم عمر کے تمام افراد) کی حفاظت اور تحفظ خطرے میں پڑ جائے گا اور اُن سے بدسلوکی اور استحصال کا راستہ کُھل جائے گا۔سپریم کورٹ میں دائر کردہ اس کیس نے انڈیا میں رضامندی اور سیکس کے بارے میں بحث کو پھر سے ہوا دی ہے۔ بحث یہ بھی جاری ہے کہ آیا انڈین قوانین، خاص طور پر بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق ملک کے اہم قانون کو تبدیل کیا جانا چاہیے تاکہ 16 سے 18 سال کے بچوں کو رضامندی سے جنسی تعلق رکھنے کے عمل کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔بچوں کے حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ نوعمر افراد (16 سال یا اس سے بڑے) کو اس حوالے سے استثنیٰ دینا اُن کی خودمختاری کے تحفظ کا ضامن بنے گا جبکہ اس کے مخالفین متنبہ کرتے ہیں کہ اس سے معاشرے میں نوعمری میں شادی اور ٹریفکنگ جیسے جرائم پنپیں گے۔ماہرین سوال کرتے ہیں کہ اگر نوعمر افراد سے اس کی آڑ میں کوئی زیادتی کی جاتی ہے تو کیا بارِ ثبوت بھی انھی پر ہو گا، یعنی یہ ان نوعمر افراد کو ہی ثابت کرنا پڑے گا کہ ان کا عمل رضامندی سے تھا یا بغیر رضامندی یا زور زبردستی، اور آیا کیا نوعمر اس چیز کا بوجھ برداشت کر پائیں گے۔Getty Imagesبہت سے ممالک کی طرح انڈیا نے بھی جنسی رضامندی کی عمر مقرر کرنے کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔ امریکہ کے برعکس، جہاں یہ ریاست کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے، انڈیا بھر میں اس ضمن میں یکساں عمر کے قانون کا نفاذ ہے جو کہ 18 برس ہے۔انڈیا میں جنسی تعلقات کے لیے قانونی عمر بھی بیشتر یورپی ممالک، یا برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک (جہاں یہ عمر 16 سال ہے) سے کہیں زیادہ ہے۔مگر جب انڈیا میں ضابطہ فوجداری 1860 کا نفاذ ہوا تھا تو رضامندی دینے کی عمر محض 10 سال تھی مگر سنہ 1940 میں اسے بڑھا کر 16 سال کر دیا گیا تھا۔ سنہ 2012 میں قانون میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس عمر کی حد بڑھا کر 18 برس کر دی گئی۔لیکن گذشتہ ایک دہائی کے دوران بچوں کے حقوق کے متعدد کارکنوں اور حتیٰ کہ عدالتوں نے بھی اس قانون پر تنقید کرتے ہوئے اسے 18 سے 16 برس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ 18 سال کا قانون نوعمروں میں رضامندی سے قائم کیے جانے والے رشتوں کو کنٹرول کرنے یا انھیں روکنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، خاص طور پر جب بات لڑکیوں کی ہوتی ہے۔انڈیا جیسے بنیاد پرست معاشرے میں سیکس ایک ممنوعہ موضوع گفتگو ہے، اس کے برعکس کہ ملک کی ایک بڑی آبادی نوعمر افراد پر مبنی ہے جو جنسی طور پر فعال ہیں۔’بیوی کے ساتھ زبردستی غیر فطری جنسی تعلق قائم کرنا ریپ نہیں‘: انڈین ہائیکورٹ کا قید کی سزا پانے والے شوہر کو بری کرنے کا حکماودے پور کے سکول میں ’نوٹ بُک کے جھگڑے‘ پر قتل: ’میرے بیٹے کو سزا ملنی چاہیے مگر پورے خاندان کو سزا کیوں دی گئی‘سیکس اور رضامندی سے متعلقبدلتے خیالات جو جاپان کو ریپ قوانین میں تبدیلی لانے پر مجبور کر رہے ہیں’تجرباتی سیکس‘ کے دوران گلا دبنے سے موت: ’اس قسم کا جنسی عمل خطرناک ہوتا ہے‘بچوں کے جنسی استحصال کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’فاؤنڈیشن فار چائلڈ پروٹیکشن: مسکان‘ کی شریک بانی شرمیلا راجے کہتی ہیں کہ ’بطور معاشرہ، ہم ذات پات، طبقے اور مذہبی خطوط پر بھی بٹے ہوئے ہیں، جو (رضامندی کی عمر) کے قانون کے غلط استعمال کو مزید حساس معاملہ بنا دیتا ہے۔‘سنہ 2022 میں کرناٹک ہائیکورٹ نے انڈیا کے لا کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے رضامندی کی عمر کے قانون پر نظر ثانی کرے۔ہائیکورٹ نے ایسے بہت سے کیسوں کا حوالہ دیا جن میں 16 سال اور اس سے بڑی عمر کی لڑکیوں نے رضامندی سے سیکس کیا اور جنسی تعلقات قائم کیے مگر اس کی پاداش میں لڑکوں کو اغوا اور ریپ کے مقدمے بھگتنے پڑے۔ایسے کئی کیسز کا جائزہ لیا گیا جن میں 16 سال سے زیادہ عمر لڑکیاں محبت میں مبتلا ہوئیں، گھر سے چلی گئیں اور جنسی تعلقات قائم کیے۔ اس کے بعد پوکسو اور فوجداری قانون کے تحت لڑکوں پر ریپ اور اغوا کے الزامات عائد کیے گئے۔Getty Imagesلا کمیشن نے اگلے سال اپنی رپورٹ میں رضامندی کی عمر کم کرنے کی تجویز مسترد کی تاہم 16 سے 18 سال عمر کے لڑکوں لڑکیوں کے کیسز میں سزاؤں کے حوالے سے ’گائیڈڈ جوڈیشل ڈسکریشن‘ کی تجویز کی، یعنی ایسے معاملات میں ججز خود فیصلہ کریں جب تعلقات رضامندی سے قائم کیے گئے ہوں۔اگرچہ اس پر عملدرآمد ہونا باقی ہے تاہم ملک بھر کی عدالتیں اس تجویز کو استعمال کرتے ہوئے مقدمے کے حقائق اور متاثرہ کی گواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپیلوں کی اجازت دینے، ضمانت دینے، بری کرنے اور مقدمات کو خارج کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔راجے سمیت کئی سماجی کارکن زور دیتے ہیں کہ نفاذ کو معیاری بنانے کے لیے اس شق کو وضع کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو عدالتیں اس اصول کو نظر انداز بھی کر سکتی ہیں۔اپریل میں مدراس ہائی کورٹ نے ایک کیس میں بریت کو کالعدم قرار دے دیا جہاں 17 سالہ متاثرہ لڑکی 23 سالہ ملزم کے ساتھ تعلقات میں تھی۔ متاثرہ کے والدین کی جانب سے اس کی شادی کسی دوسرے شخص سے کرنے کے بعد دونوں فرار ہوگئے جبکہ ملزم کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔محقق شروتی رام کرشنن نے اخبار انڈین ایکسپریس میں اس کیس کے حوالے سے لکھا کہ ’عدالت نے پوسکو ایکٹ پر لفظی عملدرآمد کیا۔۔۔ یہ ناانصافی تھی۔‘جیسنگ کے مطابق سزا سنانے میں عدالتی صوابدید کافی نہیں کیونکہ ملزم کو اب بھی طویل تحقیقات اور مقدمات کا سامنا ہے۔انڈیا کا عدالتی نظام سست روی کا شکار ہے جہاں عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ انڈیا چائلڈ پروٹیکشن فنڈ کے ایک تحقیقی مقالے سے پتا چلا ہے کہ جنوری 2023 تک پوسکو ایکٹ کے قریب ڈھائی لاکھ مقدمات سماعت کے لیے قائم خصوصی عدالتوں میں زیر التوا تھے۔جیسنگ کے مطابق یہ طویل عمل ہی بہت سے لوگوں کے لیے سزا جیسا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’ہر کیس کو ججز کی صوابدید پر چھوڑنا بھی بہتر حل نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں غیر مساوی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور تعصب کا امکان برقرار رہتا ہے۔‘انھوں نے 16 سے 18 سال کے لڑکے لڑکوں کے درمیان رضامندی کے سیکس سے متعلق استثنیٰ کی تجویز دی ہے تاکہ ایسے کیسز میں متاثرین کو مجرم تصور نہ کیا جائے۔وکیل اور بچوں کے حقوق کے کارکن بھون ریبھو نے خبردار کیا ہے کہ اغوا، سمگلنگ اور بچوں کی شادی کے معاملات میں ایسی کسی رعایت کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہ عدالتی صوابدید کی وکالت کرتے ہیں۔’ایچ اے کیو: سینٹر فار چائلڈ رائٹس‘ کی شریک بانی ایناکسی گنگولی جیسنگ سے اتفاق کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم تبدیلیاں صرف اس لیے کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے کہ ہمیں قانون کے غلط استعمال کا ڈر ہے۔‘’قانون کو موثر اور متعلقہ بنانے کے لیے اسے معاشرے کی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا۔‘جب انڈین نوجوان کا آئی فون 13 چندے کے ڈبے میں گر کر ’بھگوان‘ کا ہو گیاانڈین طیارے کی آخری ویڈیو بنانے والا نوجوان: ’بیٹا اتنا خوفزدہ ہے کہ اس نے فون استعمال کرنا چھوڑ دیا‘ہنی ٹریپ میں پھنس کر 49 لاکھ روپے گنوانے والا نوجوان جس سے پہلی بار خاتون نے صرف 350 روپے مانگےانڈیا میں وائرل فیشن شو جس میں کچی آبادی کے نوجوان ماڈلنگ کر کے سلیبریٹی بن گئےباپ کے ساتھ مل کر چار بہنوں اور ماں کا قتل: ’محلے دار میری بہنوں کو جسم فروشی کے لیے نہ بیچ دیں، اس لیے میں نے انھیں مار دیا‘