
اسلام آباد کے نواحی علاقے ترامڑی کے رہائشی علی خضر(فرضی نام) ایک دن اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ان کے گھر ایک پارسل موصول ہوا جو ان کے نام پر تھا۔علی خضر کے گھر والوں نے 1500 روپے ڈیلیوری بوائے کو ادا کیے اور پارسل وصول کر لیا جس میں ذاتی استعمال کی کچھ اشیاء تھیں۔تاہم جب وہ رات کو گھر پہنچے اور انہیں معلوم ہوا تو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ان کے نام پر کوئی پارسل آیا ہے۔ویسے تو علی خضر آن لائن شاپنگ کرتے رہتے تھے لیکن اس مرتبہ انہوں نے کوئی خریداری نہیں کی تھی۔پاکستان میں ان دنوں آن لائن کام کرنے والی کچھ کمپنیوں کی جانب سے جان بوجھ کر یا انجانے میں شہریوں کے نام پر، ان کی اجازت کے بغیر، پارسل بھیجے جا رہے ہیں، جنہیں شہری کسی نہ کسی وجہ سے قبول بھی کر لیتے ہیں اور قیمت بھی ادا کر دیتے ہیں۔بعد میں انہیں علم ہوتا ہے کہ انہوں نے تو ایسا کوئی آرڈر دیا ہی نہیں تھا۔اسی طرح اسلام آباد کے ایک اور شہری کے گھر بھی ان کے ہی نام پر ایک پارسل آیا جس میں پرفیوم تھا۔ڈیلیوری بوائے ان کے گھر آیا، پارسل تھمایا اور پانچ ہزار روپے طلب کیے۔ لیکن چونکہ اس وقت وہ خود گھر پر موجود تھے تو انہوں نے پارسل لینے سے انکار کر دیا، اور یوں ڈیلیوری بوائے کو پارسل واپس لے جانا پڑا۔اس نوعیت کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں جن میں شہریوں کے گھروں میں بغیر آرڈر کیے پارسل موصول ہو رہے ہیں۔اردو نیوز نے اس رپورٹ میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا یہ کسی کمپنی کی منظم سکیم ہے یا محض تکنیکی یا انتظامی غلطیاں۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر سرگرم کچھ غیر معروف کمپنیوں سے بھی رابطے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔صارفین کے مطابق ڈیلیوری بوائز پیسے وصول کر کہ پارسل چھوڑ جاتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پیایک آن لائن کمپنی ’زیرو لائف‘ سے رابطہ کرنے پر ان کی آپریٹر وجیہہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ غلط ایڈریس پر پارسل پہنچنے کے امکانات تو ہوتے ہیں تاہم ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ تب ہوتا ہے جب کسٹمر کی معلومات نامکمل ہوں یا پتہ غلط درج کیا گیا ہو۔انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اگر اس طرح کا کوئی واقعہ ہو جائے تو کمپنی اس پر اندرونی انکوائری کرتی ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ پارسل غلط ایڈریس پر کیوں بھیجا گیا۔جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا ایک بار آرڈر کرنے کے بعد صارف کا ڈیٹا کمپنی کے پاس محفوظ رہتا ہے، تو انہوں نے بتایا کہ جب کوئی صارف آن لائن آرڈر دیتا ہے تو وہاں یہ آپشن موجود ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو اپنا ڈیٹا آئندہ کے لیے محفوظ رکھے۔ اگر وہ یہ آپشن منتخب کرے تو ان کا ڈیٹا محفوظ ہو جاتا ہے، ورنہ نہیں۔اس کے علاوہ اگر صارف اپنی ای میل یا دیگر رابطے کی معلومات فراہم کرے تو اسے بعد میں مختلف آفرز سے متعلق پیغامات یا ای میلز بھیجی جاتی ہیں۔اس حوالے سے سائبر سکیورٹی کے ماہر محمد اسد الرحمان نے کہا کہ ایک تو ممکنہ وجوہات میں یہ شامل ہے کہ کسی صارف نے اپنا ڈیٹا کسی ایسی آن لائن ویب سائٹ پر دیا ہو، اور پھر وہ ویب سائٹ اسی ڈیٹا کی بنیاد پر صارف کو بار بار پارسل بھیجتی ہو۔’یا پھر اگر صارف نے خود اپنا پتا فراہم نہ بھی کیا ہو تو ہو سکتا ہے کہ شہریوں کا اس نوعیت کا پتا چوری کر کے اسے مارکیٹنگ یا دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو۔‘انہوں نے ایک اور امکان بیان کرتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات کمپنیاں شہریوں کا ڈیٹا اپنے پاس محفوظ کر لیتی ہیں اور وہ ڈیٹا بعد میں انہی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی آن لائن پلیٹ فارم سے ڈیٹا کمپرومائز ہو گیا ہو اور وہ معلومات غلط طریقے سے استعمال ہو رہی ہوں، تاہم ان کے بقول اس کے امکانات کم ہوتے ہیں کیونکہ مستند کمپنیاں آرڈر پلیس ہونے کے بعد بھی ڈبل کنفرمیشن کرتی ہیں۔