
Getty Images’یہاں گھر بنانا اور رہنا ایک خواب تھا۔ چند ماہ پہلے تک ہماری سوسائٹی میں سکون تھا اور باہر کے حالات کا یہاں کوئی اثر نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اب یہاں کے رہائشیوں میں ایک بے چینی ہے، خدشات ہیں اور سوالات ہیں۔ اگر صورتحال ایسے ہی برقرار رہتی ہے تو اس سے بہت نقصان ہو گا۔‘یہ کہنا ہے پنجاب کے ضلع راولپنڈی کی حدود میں واقع نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے رہائشی فہد احمد کا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ویسے تو گذشتہ کچھ عرصے کے دوران بحریہ ٹاؤن میں رہنے والوں کے لیے سوسائٹی انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ سروسز کی فراہمی کچھ حد تک متاثر تھیں مگر اب گذشتہ چند دنوں میں سامنے آنے والی خبروں نے یہاں رہنے والوں کے ذہنوں میں بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے۔فہد کا اشارہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے اس حالیہ بیان کی طرف تھا جس میں انھوں نے حکومتی اداروں کی جانب سے پڑنے والے مبینہ دباؤ کا تذکرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان بھر میں بحریہ ٹاؤن کی تمام سرگرمیاں مکمل طور پر بند کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور یہ کہ وہ یہآخری اقدام اٹھانے سے محض ایک قدم کی دوری پر ہیں۔بی بی سی نے بحریہ ٹاؤن میں رہائش پذیر بہت سے شہریوں سے بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ حکومت اور ملک ریاض کے درمیان خراب ہوتے معاملات سے وہ براہ راست متاثر ہو رہے ہیں اور ذہنی الجھن کا شکار ہیں۔بحریہ ٹاؤن کے ہی ایک اور رہائشی عبدالقدوس کے مطابق ’بحریہ ٹاؤن کے اندر سکیورٹی کی گاڑیاں اور گارڈز اپنے فرائض انجام دیتے نظر آتے تھے، جس سے تحفظ کا إحساس ہوتا تھا۔ کچرہ روز صاف ہوتا تھا۔ کسی گھر میں اگر پانی کا نلکا یا واش روم کا فلش کام نہیں کر رہا، تو ایک کال پر بحریہ کا پلمبر اس گھر پہنچ جاتا تھا۔ یہاں نہ پانی کی فراہمی کا مسئلہ تھا اور نہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا۔ یہ ضرور ہے کہ اس سب کے عوض تمام رہائشی ماہانہ مینٹیننس چارجز ادا کرتے ہیں۔‘عبدالقدوس کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے سے صورتحال ایسی نہیں ہے، سکیورٹی عملہ کم ہو گیا، سٹریٹ لائٹس عموماً بند رہتی ہیں اور باقی سروسز بھی متاثر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اب سب کے ذہنوں میں خدشہ یہی ہے کہ اگر بحریہ ٹاؤن کے آپریشنز بند ہو گئے تو کیا ہو گا؟‘انھوں نے کہا کہ ’اب پڑوسی، دوست اور یہاں رہنے والے رشتہ دار یہی سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ آگے کیا ہو گا؟ کیا اب یہاں سے کہیں اور چلے جائیں یا پھر کوئی بہتری کی صورت بھی نکل سکتی ہے؟‘بحریہ ٹاؤن کے ہی رہائشی شاہد جاوید کا کہنا ہے کہ ’میں نہ صرف یہاں کا رہائشی ہوں بلکہ میں نے اپنی جمع پونجی سے یہیں ریئل سٹیٹ میں سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ مگر ملک ریاض اور حکومت کے بیچ جاری تنازعات کی وجہ سے اب یہاں خرید و فروخت کا عمل جیسے ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔‘یاد رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بدھ (پانچ اگست) کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں ’بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کے حقوق محفوظ ہیں اور حالیہ کارروائی صرف اُن افراد کے خلاف کی جا رہی ہے جو براہ راست منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔‘بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض گذشتہ کچھ عرصے سے بیرون ملک مقیم ہیں جبکہ پاکستان میں اُن کے اور ان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف متعدد الزامات کے تحت تحقیقات جاری ہیں۔ لگ بھگ تین مقدمات میں ملک ریاض کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے جبکہ حال ہی میں نیب نے بحریہ ٹاؤن کی ملکیتی اربوں روپے مالیت کی چند جائیدادوں کی نیلامی کا انعقاد بھی کیا ہے۔ حال ہی میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کو ایک جاری تفتیش میں ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف ایک ارب روپے سے زائد کی مبینہ منی لانڈرنگ کے ثبوت ملے ہیں جس پر مزید تفتیش جاری ہے۔ دوسری جانب ملک ریاض اپنے اوپر عائد کردہ تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں اور اپنے حالیہ بیان میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’گذشتہ چند ماہ کے دوران حکومتی اداروں کی جانب سے پے در پے بے مثال دباؤ، درجنوں سٹاف ارکان کی گرفتاریوں، کمپنی کے تمام بینک اکاؤنٹس کی انجماد، عملے کی گاڑیوں کی ضبطی اور دیگر سخت اقدامات کے باعث بحریہ ٹاؤن کا ملک بھر میں آپریشن شدید طور پر مفلوج ہو چکا ہے اور روزمرہ سروسز فراہم کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔‘تاہم اس تمام تر صورتحال کے باعث بحریہ ٹاؤن میں رہنے والے رہائشی کچھ فکر مند نظر آتے ہیں۔بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں اور یہاں سرمایہ کاری کرنے والوں کے تحفظات اور انھیں لاحق پریشانی سے متعلق تفصیل سے بات کرنے سے قبل، یہ جاننا ضروری ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے پاکستان میں آپریشنز کتنے وسیع ہیں اور اگر اس سوسائٹی کی انتظامیہ اپنی سرگرمیاں بند کرتی ہے تو اس کا مطلب کیا ہو گا؟ یہ بھی بحریہ ٹاؤن کے ریئل سٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والے شہریوں پر اس صورتحال کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔بحریہ ٹاؤن کے آپریشنز کتنے وسیع ہیں؟بی بی سی نے اس ضمن میں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ سے جڑے چند افراد سے بات کی ہے جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تفصیلات شیئر کی ہیں۔بحریہ ٹاؤن کی سوسائٹیز اور دیگر منصوبے پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور نوابشاہ میں موجود ہیں۔انتظامیہ کے ذمہ داران کے مطابق ملک بھر میں بحریہ ٹاؤن کی رہائشی سکیموں میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب گھر ہیں، پچاس ہزار کے قریب ملازمین اور تین لاکھ کے قریب پلاٹ مالکان ہیں۔انتظامیہ کے ایک عہدیدار کے مطابق اگرچہ اصل تعداد تو فی الحال معلوم نہیں لیکن بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کی مجموعی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔کراچی میں واقع بحریہ ٹاؤن دیگر تمام شہروں کے بحریہ ٹاؤنز کے مقابلے میں سب سے بڑی ہاؤسنگ سکیم ہے۔لاہور سے بحریہ ٹاؤن کی ایک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ بحریہ ٹاؤن میں رہائشی اور کمرشل پراپرٹی کے علاوہ بڑے بڑے کاروبار ہیں جو ایک ’منی اکانومی‘ ہے اور ہزاروں لوگوں کا روزگار اس سے منسلک ہے۔بحریہ ٹاؤن اپنے ممبران کو کیا سہولیات فراہم کرتی ہے؟اسلام آباد میں بحریہ انکلیو کے رہائشی عبدالطیف نے بی بی سی کو بتایا کہ بحریہ ٹاؤن اپنی ہاؤسنگ سکیمز میں رہائشیوں کو سکیورٹی، سٹریٹ لائٹس، بجلی، پانی، گیس، صفائی اورمینٹیننس کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ ان کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے بلا تعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اپنے گرڈ سٹیشن قائم رکھے ہیں اور بحریہ واپڈا کے نرخوں سے قدرے زیادہ پر بجلی فروخت کرتا ہے اور خود بل وصول کرتا ہے۔ عبدالطیف کے مطابق اب بجلی کی اس طرح سے فراہمی کی سہولت سے بحریہ ٹاؤن دوسری سکیموں پر سبقت کا دعویدار بھی ہے۔بحریہ ٹاؤن میں جائیداد کی خرید و فروخت کا اپنا نظام ہے اور مکانات اور پلازوں کی تعمیرات کی منظوری کے دفاتر بھی بحریہ ٹاؤن کے اندر موجود ہیں۔ دلاور خان نے حال ہی میں بحریہ ٹاؤن میں مکان کی تعمیر کا کام شروع کیا ہے اور ابھی وہ ضروری دستاویزات جمع کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے رواں ہفتے کے دوران ہی مکان کی تعمیر کے لیے بحریہ ٹاؤن سے نقشے کی منظوری حاصل کی ہے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ تین ماہ سے اُن کے اس سوسائٹی میں چکر لگ رہے ہیں۔ اُن کے مطابق دفاتر میں کام کرنے والا عملہ کم ہوا ہے، مگر ایسا نہیں ہے کہ کام رُکا ہوا ہے۔ان کے مطابق صرف مکان کی تعمیر کے لیے جو نقشے درکار ہوتے ہیں اس عمل میں کچھ وقت لگتا ہے مگر ٹرانسفر اور خرید و فروخت ابھی معمول کے مطابق جاری ہے۔Getty Images’بحریہ ٹاؤن کی سرگرمیاں بند کرنے سے ایک قدم کی دوری پر ہیں‘: اس بیان کا مطلب کیا ہے؟بحریہ ٹاؤن کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ ایک برس میں بحریہ ٹاؤن کو اپنے آپریشنز چلانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جس کی وجہ سے روز مرہ کام کرنے والے عملے کی تعداد میں خاطر خواہ کمی کی گئی ہے اور اس صورتحال کا سکیورٹی اور سہولیات کی فراہمی پر بھی کسی حد تک اثر پڑا ہے۔ملک ریاض کی صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے خود دعویٰ کیا ہے کہ ’بحریہ ٹاؤن کی رقوم کی روانی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اور ہم اپنے دسیوں ہزاروں سٹاف کی تنخواہیں ادا کرنے کے قابل نہیں جبکہ حالات لمحہ بہ لمحہ بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’یہ صورتِحال اس ادارے کے بنیادی ڈھانچے کو مفلوج کر چکی ہے جو پچاس ہزار محنتی افراد پر مشتمل ہے۔ کئی سینیئر ملازمین تاحال لاپتہ ہیں، سروسز معطل ہیں، ترقیاتی منصوبے رُک چکے ہیں اور ہماری کمیونٹیز میں معمول کی دیکھ بھال اور سہولیات کی فراہمی شدید متاثر ہو چکی ہے۔‘یاد رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات نے گذشتہ روز کہا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے معاملات کی نگرانی کرنے والے کرنل خلیل کو حراست میں لے لیا گیا ہے تاہم انھوں نے وضاحت کی تھی کہ کارروائی صرف ان افراد کے خلاف کی جا رہی ہے جو غیرقانونی کاموں میں ملوث ہیں۔بحریہ ٹاؤن کے اہلکار کے مطابق عملے کے اراکین کی گرفتاریوں کا عمل کافی عرصے سے جاری ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ نیب کے اہلکار ہر روز اب بحریہ ٹاؤن کے ہیڈ آفسز میں جا کر خود وصولیاں کر رہے ہیں۔’ان جگہوں پر جو رہائشی بل جمع کروا رہے ہیں یا ٹرانفسر کی فیس ادا کر رہے ہیں وہ انتظامیہ کے بجائے حکومت کے پاس جا رہی ہے۔‘انھوں نے وضاحت کی کہ جیسا کہ ملک ریاض نے کہا ہے کہ صورتحال نہ بدلی تو سرگرمیاں بند ہو جائیں گی، اس کی مطلب یہ ہے کہ سروسز کی فراہمی جو پہلے ہی شدید متاثر ہے، اگر اور متاثر ہوئی بحریہ ٹاؤن اپنے انتظامی آفس بند کر دے گا جن میں پہلے ہی عملے کی کمی ہے۔ ’صورتحال ایسی ہی رہی تو بحریہ ٹاؤن بھی دوسرے محلوں اور علاقوں کی طرح ہی بن جائے گی، جہاں باقاعدگی سے کوڑا اور کچرا لے جانے والے نہیں ہوں گے۔‘بحریہ ٹاؤن میں رئیل سٹیٹ کے شعبے سے منسلک افراد کا کیا کہنا ہے؟Getty Imagesکچھ عرصہ پہلے تک بحریہ ٹاؤن میں سرمایہ کاری کو ایک سرمایہ کاروں کی جانب سے ایک محفوظ آپشن قرار دیا جاتا تھا جس کے باعث پاکستان کے بہت سے شہریوں نے بحریہ ٹاؤن کے منصوبوں میں رہائشی، کمرشل پرآپرٹیز اور کاروباروں میں سرمایہ کاری کی۔بحریہ ٹاؤن کے رہائشی شاہد جاوید نہ صرف یہاں رہائش پذیر ہیں بلکہ یہیں پراپرٹی کے کاروبار سے بھی منسلک ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’حکومت اور ملک ریاض میں معاملات کشیدہ ہونے کے باعث گذشتہ بہت عرصے سے خرید و فروخت کا عمل پہلے ہی متاثر ہے اور اگر انتظامیہ آفسز بند کر دیتی ہے تو مکان اور پلاٹ ٹرانسفر کی سہولت بھی نہیں رہے گی اور یہ سلسلہ اس وقت تک مکمل ٹھپ ہو جائے گا جب تک اس کے کسی متبادل کا بندوبست نہیں ہو جاتا۔‘بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے قریب واقع ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک نے بی بی سی کو بتایا کہ پرویز مشرف کے دور سے یہاں کاروباری حالات بہتر ہوئے اور پھر سرمایہ کاروں کو بہت منافع ملنا شروع ہوا۔ ان کے مطابق اب گذشتہ کچھ عرصے سے بحریہ ٹاؤن کے پراجیکٹس میں صورتحال کچھ ایسی ہے کہ ہر کوئی اپنی سرمایہ سمیٹ کر باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ملک ریاض کی بحریہ ٹاؤن کے آپریشنز کی بندش کی تنبیہ، جائیدادوں کی نیلامی رکوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوعتخت پڑی، ملک ریاض اور ڈی ایچ اے: راولپنڈی کے جنگل پر ’قبضے‘ کی کہانیپاکستان میں بحریہ ٹاؤن کی متعدد جائیدادیں سیل: ’ملک ریاض کے کِیے کی سزا عام آدمی کو نہ دی جائے‘کیا ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن دبئی میں سرمایہ کاری خلاف قانون ہے اور نیب اسے ’منی لانڈرنگ‘ کیوں قرار دے رہا ہے؟بحریہ ٹاؤن میں کام کرنے والے ایک سرمایہ کار نے بتایا کہ جہاں پہلے روزانہ درجنوں رہائشی اور کمرشل پراپرٹیز کی ٹرانسفر ہوتی تھی وہ گذشتہ ایک سال کے دوران 15 سے 20 تک پہنچ گئی ہے۔کراچی میں پراپرٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے ایک سرمایہ کار نے بتایا کہ ’کراچی بحریہ ٹاؤن میں کمرشل پراپرٹی کی ٹرانسفر کا عمل پہلے ہی رکا ہوا ہے اور اب بحریہ ٹاؤن کی سرگرمیاں بند ہونے کی اطلاعات کی وجہ سے مزید نقصان ہو رہا ہے۔‘شاہد جاوید نے حکومت پر زور دیا کہ اگر انتظامیہ یا ملک ریاض نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کا حساب ضرور ہونا چاہیے مگر اس کی قیمت عام پاکستانی شہریوں کو ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس ضمن میں شہریوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔انھوں نے کہا کہ ’ادارے ہی تھے جنھوں نے بحریہ ٹاؤن کو تعمیرات کی اجازت دی، این او سی جاری کیے اور نقشے منظور کیے جن کی بنیاد پر عام شہریوں نے سرمایہ کاری کی۔‘ شاہد جاوید کے مطابق ’کسی ایک شخص نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو پھر اس نے یہ سب اکیلے تو نہیں کیا ہے۔‘ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کو کن حالیہ تنازعات کا سامنا ہے؟بحریہ ٹاؤن کے مالک اور پراپرٹی ٹائیکون القادر ٹرسٹ کیس میں اشتہاری قرار دیے جا چکے ہیں جس میں سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف رہنما عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام ہے کہ انھوں نے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے سینکڑوں کنال پر محیط اراضی اُس 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض حاصل کی، جس کی شناخت برطانیہ کے حکام نے کی تھی اور یہ رقم پاکستان کو واپس کر دی تھی۔اس کیس میں عمران خان، بشری بی بی، ملک ریاض، احمد علی ریاض و دیگر کو ملزم قرار دیا گیا تھا۔رواں برس نو جنوری کو احتساب عدالت نے ملک ریاض اور اُن کے بیٹے احمد علی ریاض سمیت کیس کے پانچ دیگر شریک ملزمان کو مقدمے کی تفتیش میں شامل نہ ہونے پر اشتہاری قرار دیتے ہوئے پاکستان میں موجود اُن کی جائیدادیں منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔پاکستان میں ملک ریاض سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے ساتھ ساتھ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے روابط کے لیے جانے جاتے تھے اور اُن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہر مشکل سے نکلنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں، تاہم اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔جعلی بینک اکاؤنٹس کیسسنہ 2020 میں قومی احتساب بیورو نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے مقدمے میں ملک ریاض کے داماد زین ملک کے خلاف چھ مقدمات میں نو ارب پانچ کروڑ اورپانچ لاکھ روپے میں ان کی پلی بارگین کی منظوری دی تھی۔اس پلی بارگین کے تحت زین ملک نے یہ رقم تین سال کی سہ ماہی اقساط میں جمع کروانی تھیں۔بحریہ ٹاون کے چیئرمین کے داماد زین ملک کی جن ریفرنسز میں پلی بارگین منظور کی گئی ان میں میگا منی لانڈرنگ، پنک ریزیڈنسی، اے ون انٹرنیشنل اکاؤنٹ، اوپل جوائنٹ وینچر کے علاوہ آٹھ ارب روپے کی مشتبہ ٹرانزیکیشنز بھی شامل تھیں۔یہ پیسے نہ دینے کی صورت میں بحریہ ٹاؤن نے رہن کے طور پر چھ پراپرٹیز نیب کو دی تھیں۔ ملک زین یہ رقم واپس نہیں کر سکے اور اب نیب ان چھ پراپرٹیز کو نیلامی کے لیے گذشتہ روز پیش کیا گیا تھا۔ملک ریاض کی بحریہ ٹاؤن کے آپریشنز کی بندش کی تنبیہ، جائیدادوں کی نیلامی رکوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوعتخت پڑی، ملک ریاض اور ڈی ایچ اے: راولپنڈی کے جنگل پر ’قبضے‘ کی کہانیپاکستان میں بحریہ ٹاؤن کی متعدد جائیدادیں سیل: ’ملک ریاض کے کِیے کی سزا عام آدمی کو نہ دی جائے‘’وعدہ معاف گواہ نہیں بنوں گا‘: عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس سے ملک ریاض کا کیا تعلق ہے؟محمد حنیف کا کالم: ملک ریاض پر فوجی عدالت میں مقدمہ چل سکتا ہے؟کھڑکی توڑ ملک ریاض بمقابلہ نظامِ ریاست