
Getty Imagesکچھ آٹسٹک خواتین کو ماہواری ذیادہ شدت سے محسوس ہوتی ہےبہت سی خواتین کے لیے ماہواری ایک ایسا مشکل وقت ہوتا ہے جب ان کو شدید درد، ہارمونز کے اُتار چڑھاؤ، مزاج میں تبدیلی جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم آٹزم میں مبتلا خواتین کے لیے پیریڈز خاص طور پر شدید مشکل کا باعث ہو سکتے ہیں۔صدف کے لیے پیریڈز کے دوران جسمانی اور ذہنی درد اکثر یکجا ہو جاتے ہیں۔ آٹزم کا شکار صدف بنیادی طور پر افغانستان میں پلی بڑھیں تاہم اب وہ لندن میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ماہواری کے دوران جسمانی درد کی وجہ سے ’اچانک اداسی یا گھبراہٹ‘ جیسی ذہنی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔صدف کے مطابق ان کے لیے جسمانی اور ذہنی کیفیت کو الگ کرنا مشکل ہے کیونکہ دونوں میں گہرا تعلق ہے۔ اس حوالے سے سوانسی یونیورسٹی کی پبلک ہیلتھ لیکچرر ڈاکٹر ایمی گرانٹ کا کہنا ہے کہ آٹزم کی شکار خواتین کو ماہواری کے دوران اضافی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن میں حساسیت میں اضافہ، جذباتی بے ترتیبی اور تبدیلی سے نمٹنے میں دشواری شامل ہیں۔وہ آٹزم سے مینوپاز تک 10 سالہ مطالعے کی سربراہی کر رہی ہیں جس میں اب تک 200 سے زیادہ لوگوں سے گفتگو کی جا چکی ہے۔ حساسیتخواتین میں ہارمونز کے اتار چڑھاؤ اور اس سے متعلق موڈ میں تبدیلیاں ماہواری سے پہلے اور دوران عام ہیں۔ تاہم اگر آپ آٹزم کا شکار ہیں تو یہ زیادہ شدید اور مشکل ہوسکتی ہیں۔جسم کے اندرونی نظام میں محسوس کرنے کی صلاحیت کونٹروسیپشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مثلاً یہ نظام احساس دلاتا ہے کہ آپ کتنے بھوکے ہیں یا آیا آپ کو بیت الخلا جانے کی ضرورت ہے، وغیرہ۔ ڈاکٹر گرانٹ خود بھی آٹزم کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آٹزم سے متاثرہ افراد کو یا تو زیادہ سگنل ملتے ہیں اور وہ چیزوں کے بارے میں زیادہ آگاہ ہوتے ہیں یا بہت کم محسوس ہو پاتا ہے اور وہ چیزوں کے بارے میں اس وقت تک آگاہ نہیں ہوتے جب تک کہ وہ حقیقی جسمانی درد محسوس نہ کریں۔ Getty Imagesآٹزم سے متاثرہ افراد کو یا تو زیادہ سگنلز ملتے ہیں یا وہ بہت کم محسوس کر پاتے ہیںاگرچہ بہت سی خواتین درد کے ابتدائی احساس کو پہچان لیتی ہیں یا محسوس کر لیتی ہیں کہ وہ پری مینسٹرول سنڈروم (ماہواری شروع ہونے سے پہلے ہارمونز کی تبدیلی کا عمل) کی وجہ سے چڑچڑا پن محسوس کر رہی ہیں۔ تاہم آٹسٹک لوگوں کو اس وقت تک احساس نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ انتہائی بُرا محسوس نہ کریں۔سپین میں رہنے والی 32 سالہ لیلیٰ کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’اس کی مثال ایسے ہے کہ مجھے کھانا چاہیے، لیکن مجھے بھوک نہیں لگتی۔ مجھے پھر سر درد ہو جاتا ہے لیکن میں اس سر درد کو بھوک سے نہیں جوڑ سکتی یا یہ نہیں سمجھ سکتی کہ میرے جسم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، لہذا اسی مثال سے میری ماہواری کا تصور کریں جس میں محسوس نہ ہونے سے سب کچھ بہت شدید ہو جاتا ہے۔‘ڈاکٹر گرانٹ کی تحقیق سے یہ سامنے آیا کہ ماہواری سے پہلے ڈسفورک ڈس آرڈر (مزاج اور رویے میں شدید بگاڑ آنا) کے کیسز آٹزم سے متاثر افراد میں زیادہ ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ماہواری کے سائیکل میں ہونے والی تبدیلیوں پر انتہائی جذباتی ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔‘بڑھتی ہوئی حساسیت ماہواری کے دوران حفظان صحت کی مصنوعات کے استعمال کو اور بھی مشکل بنا سکتی ہے۔38 سالہ صدف میں حال ہی میں آٹزم کی تشخیص ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پیڈ کی بجائے مخصوص کپ کو استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں کیونکہ وہ زیادہ پائیدار ہیں۔انھوں نے کپ استعمال کرنے کے بارے میں اچھی طرح پڑھا اور خود کو ذہنی طور پر تیار کیا لیکن وہ ان کے لیے دشوار مرحلہ بن گیا۔ ’اسے اندر داخل کرنے اور ہٹانے کا کام میرے لیے ایک بہت مشکل تجربہ ثابت ہوا لہذا فی الحال میں پیڈ ہی استعمال کروں گی۔‘تاہم لیلی کے لیے جو چیز ایک دن بہتر ہوتی ہے دوسرے دن اس میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میرے پاس ہمیشہ کئی مختلف پیریڈ پروڈکٹس ہوتی ہیں جیسے ٹیمپون، پیڈز، پیریڈ پینٹیز اور کپس۔ انھیں استعمال کرنا اس بات پر منحصر ہے کہ میں کب کیسا محسوس کرتی ہوں۔‘Getty Imagesآٹزم سے متاثرہ افراد کے لیے صرف ایک ہی طریقہ پیریڈز کی مشکلات سے نمٹنے میں آزمودہ نہیں رہتاتبدیلی مشکلات کا باعث ڈاکٹر گرانٹ کہتی ہیں کہ بہت سے آٹزم سے متاثر افراد کو واقفیت اور یکسانیت میں سکون ملتا ہے۔یہاں تک کہ باقاعدگی سے آنے والی ماہواری بھی کسی بھی آٹسٹک خاتون کے معمولات میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ غیر متوقع یا بے قاعدگی سے آنے والی ماہواری آٹزم سے متاثرہ خواتین کے لیے مشکل کا سبب بنتی ہے۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے کام جس میں انتظامی امور اورذہنی مہارتیں دونوں شامل ہوں آٹزم والے لوگوں میں چیلنجنگ ہو جاتی ہیں اور ان کے لیے اکثر تبدیلیوں سے نمٹنا مشکل ہوجاتا ہے۔ماہواری کے دوران پیڈز، کپ یا دیگر مصنوعات کے استعمال میں فیصلہ سازی انھیں تھکاوٹ سے دوچار کرسکتی ہے۔ صدف کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنا پیڈ تبدیل کرنا یا پھر درد سے نجات کے لیے ادویات لینا یا ہیٹ پیڈ کے استعمال کا انتظام کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘وہ اپنے موبائل فون پر ایسی ایپ کا استعمال کرتی ہیں جو ماہواری کے دوران انھیں ٹریک پر رکھنے اور ان دنوں کو زیادہ آسانی سے منظم کرنے میں مدد دے سکے۔آٹزم سے متاثرہ بچوں کے والدین: ’سب سے مشکل اس حقیقت کو قبول کرنا تھا کہ شاید میرا بیٹا مجھے ماں نہیں بلا سکتا‘’ماہواری نارمل ہے بس تم نے کسی کو بتانا نہیں‘آٹزم: ’میں چاہتی ہوں کہ یہ دنیا میرے بیٹے کی اتنی ہی ہو جتنی دوسروں کی ہے‘صابن کھانے والی آٹزم سے متاثرہ لڑکی جو غیر معمولی ذہانت کی مالک ہےتولیدی صحت کی تعلیمعالمی ادارہ صحت کی 2024 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پانچ میں سے صرف دو سکول (39 فیصد) ماہواری سے متعلق صحت کی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔اگرچہ بہت سی نوجوان بچیوں کو گھر پر تولیدی صحت کے بارے میں سکھایا جاسکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ لاکھوں خواتین بغیر کسی پیشگی آگاہی کے ماہواری کا سامنا کرتی ہیں۔ 27 سالہ لیلیٰ کا کہنا ہے کہ انھیں ایران کے سکول میں پیریڈز سے متعلق تھوڑا سا سکھایا گیا تھا لیکن ان میں سے زیادہ تر ’بنیادی طور پر غلط معلومات تھیں‘ جس میں سے ایک یہ بھی بات تھی کہ جسم ہمارے خون کو فلٹر کرتا ہے اور ہم میں سے اس دوران نکلنے والا خون فلٹر شدہ ہے۔اور پھر جب ان کو ماہواری شروع ہوئی تو وہ اس کو سمجھ ہی نہ سکیں۔ لیلیٰ نے کہا کہ ’مجھے لگا کہ میں مر رہی ہوں اور اس لیے(خون) لیک ہو رہا ہے مجھے شدید گھبراہٹ ہوئی۔‘Getty Imagesآٹزم سے متاثر خواتین کے لیے اپنے حساب سے پیریڈز کے دوران چیزیں منتخب کرنا چیلنج رہتا ہے صدف کہ مطابق ان کی پہلی بار کی ماہواری شاید زیادہ تر لوگوں سے بہت مختلف تھی کیونکہ افغانستان میں ماہواری اور آٹزم جیسے موضوعات پربات کرنا ثقافتی طور پر قابل قبول نہیں تھا جس کی وجہ سے ان کی ماہواری کافی مشکل رہی۔ ڈاکٹر گرانٹ کا کہنا ہے کہ اگر آٹزم بچیاں اس سے آگاہ بھی ہوں تو بھی شاید یہ نہ سمجھ پائیں کہ ماہواری شروع ہونے پر کیا محسوس ہونے والا ہے۔لیلی کہتی ہیں کہ وہ برسوں تک جذباتی اور جسمانی طور پر جدوجہد کرتی رہیں اور انھیں یہ احساس نہیں ہوا کہ ان کی بہت سی علامات جو ماہواری کی وجہ سے ہیں دراصل آٹزم کی وجہ سے بڑھ گئی ہیں۔حل اور طریقہ کارGetty Imagesیوگا اور ذہنی طور پر پُرسکون رہنے کی مشقیں آٹزم سے متاثر خواتین کو ماہواری میں مدد کرتی ہیں پیریڈز کے نظام کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس دوران جسم کیا کام کر رہا ہوتا ہے۔ آٹزم فرینڈلی گائیڈ ٹو پیریڈز کی مصنفہ روبی سٹیورڈ خود بھی آٹزم سے متاثرہ خاتون ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آٹزم کے شکار بچوں کو آگاہی دیتے وقت لغوی ہونا اور مبہم الفاظ کا استعمال نہ کرنا ضروری ہے۔ یہاں تک کے جسم کے اعضا کے درست نام رکھنا ضروری ہے۔‘ ان کے مطابق ’ماہواری کی آگاہی میں مادری زبان کا استعمال نہ کرنا خطرناک ہوسکتا ہے. مثال کے طور پر ٹیمپون داخل کرنے کے بارے میں تعلیم دیتے وقت یہ کہنا ضروری ہے کہ اسے کب وجائنا میں داخل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ درست سمجھ سکیں۔لیلی کے لیے آٹزم کی تشخیص نے ان کے ماہواری کے تجربے کو سمجھنے میں بہت بڑی مدد کی ہے.وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے دراصل اپنے اطراف اور ماحول کے بارے میں زیادہ علم رکھنا شروع کر دیا تھا۔ میری کوشش تھی کہ میں ایک حساس وقت میں اپنی حِسوں پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرسکوں۔‘لوگوں کے پاس اس حالت سے مقابلہ کرنے کے بہت سے مختلف طریقے ہیں۔مراقبہ اور ذہن سازی کی مشقیں لیلی کو ’جذبات پر اچانک رد عمل نہ کرنے میں مدد کرتی ہیں جو ماہواری کے دوران بہت شدت سے سامنے آتے ہیں اور حقیقت میں ان کا تجزیہ کرنے میں مددگار رہتے ہیں۔‘صدف کا کہنا ہے کہ گانے، رقص اور یوگا جیسے غیر روایتی طریقوں نے بھی انھیں پیریڈز کے دوران محسوسات کو کنٹرول کرنے میں مدد کی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے جذبات کو دبانے یا کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے انھیں ایک محفوظ جگہ میں گزرنے کا موقع دیتی ہوں۔‘’ماہواری نارمل ہے بس تم نے کسی کو بتانا نہیں‘آٹزم سے متاثرہ بچوں کے والدین: ’سب سے مشکل اس حقیقت کو قبول کرنا تھا کہ شاید میرا بیٹا مجھے ماں نہیں بلا سکتا‘آٹزم: ’میں چاہتی ہوں کہ یہ دنیا میرے بیٹے کی اتنی ہی ہو جتنی دوسروں کی ہے‘ماہواری کے درد کے بارے میں کب پریشان ہونا چاہیے؟جنسی خواہش میں کمی، اندام نہانی کی خشکی اور بے چینی: خواتین پیری مینوپاز کی علامات کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہیں؟خواتین میں آٹزم کی تشخیص مشکل کیوں