جھارا: 19 برس کی عمر میں جاپان کے انوکی کو شکست دینے والے پہلوان جو ’جوانی میں نشے کی لت‘ میں پڑ گئے


لاہور کی پرانی آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کرتی، راوی دریا کی جانب جاتی سڑک پر بھاٹی چوک سے کچھ ہی دور بائیں جانب پیر مکی کے علاقے میں اساطیری شہ زور بھولو پہلوان کے اکھاڑے میں ان کی اپنی قبر ہے، ان کے پہلوان بھائی دفن ہیں اور ایک بلند چبوترے پر ایک قبر ان کے بھتیجے محمد زبیر عرف جھارا پہلوان کی ہے۔ کَتبے پر تاریخ وفات 10 ستمبر 1991 درج ہے۔یعنی آج ہی کے دن، 34 برس پہلے۔ پروفیسر محمد اسلم کی کتاب ’خفتگانِ خاکِ لاہور‘ سے پتا چلتا ہے کہ وفات پر روزنامہ جنگ نے جھارا کی عمر 31 سال لکھی تھی۔جھارا کی قبر سے مغرب کی جانب چھ میٹر دور اُن کے چچا محمد اکرم عرف اَکی پہلوان دفن ہیں جن کی 1976 میںجاپانی پہلوان انتونیو اِنوکی سے شکست کا بدلہ لینے کی انھوں نے ٹھانی تھی۔ تب جھارا 16 سال کے تھے۔شاہد نذیر چودھری کی تحقیق ہے کہ 'جھارا پہلوانی زبان میں اصیل بوٹی' کو کہتے تھے۔ یعنی ان کے والد اور والدہ دونوںپہلوانوں کے خاندان سے تھے۔24 ستمبر 1960 کو لاہور میں رستم پنجاب اور رستم ایشیا محمد اسلم عرف اچھا پہلوان کے ہاں پیدا ہونے والے محمد زبیرعرف جھارا کےرستمِ زماں تایا منظور حسین عرف بھولو پہلوان، چچا اعظم پہلوان، اکرم پہلوان، حسو پہلوان اور معظم عرف گوگا پہلوان تھے۔ وہ رستم زماں گاما پہلوان کے بھائی رستم ہند امام بخش کے پوتے اور گاما کلو والا پہلوان کے نواسے تھے۔چودھری نے جھارا پہلوان کے تایا زاد ناصر بھولو کے حوالے سے لکھا ہے کہ زبیر پرائمری کے امتحانات میں فیل ہو گئے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی کیونکہ اب وہ پڑھائی کرنے کے بجائے پہلوان بن سکتے تھے۔اپنے ایک طویل مضمون میں چودھری لکھتے ہیں: 'موہنی روڈ کے اکھاڑے میں بھولو پہلوان کی کڑی نگرانی میں زبیر کو تیار کرایا جارہا تھا۔ بھولو پہلوان کے بعد ارشد بجلی پہلوانکو تمام اختیارات حاصل تھے۔ استاد کا کہا مانتا زبیر طبعاً شرمیلا اور کم گو تھا۔ وہ زبان کی بجائے اپنے ہاتھوں کی قوت سے مقابل کو مسخر کرنے کی تربیت پا رہا تھا۔اپنے پہلے دنگل میں جھارا نے ملتان کے زوار پہلوان کو بمشکل ایک ہی منٹ میں چت کردیا۔ اور دوسرے مقابلے میںگوجرانوالاسے رحیم سلطانی والا رستم ہند کے بیٹے معراج پہلوان کےشاگرد محمد افضل عرف گوگا پہلوان کو 27 جنوری 1978 کو قذافی سٹیڈیم لاہور میں مدافعت اور بچاؤ کی بجائے بڑھ چڑھ کر حملے کرتے ہوئے سترہ منٹ میں ہرا دیا۔تب بھولو برادران کے پروموٹر سلیم صادق نے بھولو کی رضا مندی سے 1978 ہی میں انوکی کی جھارا سے کشتی کا معاہدہ کرا دیا۔’وہ پہلوان جنھوں نے تاریخ رقم کی‘ کے عنوان سے چودھری نےاپنے مضمون میں لکھا ہے کہ جھارا کے نام کی دھوم مچ گئی تھی اور اب لوگ انھیں دیکھنے اکھاڑے میں اکٹھے ہو جایا کرتے تھے۔ بھولو انھیں دریائے راوی کے نئے پل کے پار پہلی بائیں طرف کی سڑک پر فرخ آباد لے گئے جہاں کامران کی بارہ دری کے اُس پارگاما رستم زماں کا اکھاڑا تھا۔’اس سے مراد جھارا کی نمائش بند کرنا بھی تھی۔ انھوں نے جھارا پر گھر کے دروازے بند کر دیے اور ارشد بجلی پہلوان کو ہدایت کر دی کہ جھارا کو اکیلا کبھی نہ چھوڑا جائے۔‘انوکی سے مقابلے کے لیے اختر حسین شیخ کی کتاب 'داستان شہ زوراں' میں جھارا کی تیاری یوں بیان کی گئی ہے:’جھارا کو اکھاڑے تک پہنچنے اور واپسی کے لیے راوی کو تیر کر عبور کرنے کا حکم تھا۔ اسے رات دو بجے اٹھا دیا جاتا۔ نماز کے بعد تین ہزار بیٹھکیں لگاتا۔ پھر فرخ آباد سے شاہی قلعہ لاہور تک دوڑ لگاتا۔ نصف گھنٹے میں اکھاڑا گوڈ کر اسے تیار کرتا اور دو ہزار ڈنڑ پیلتا۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد دو تنومند پہلوان اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتے اور وہ بھاگتا ہوا راوی پل کو چُھو کر واپس آتا۔‘چودھری نے اس میں اضافہ کیا ہے: وہ سہاگا چلاتا، لوہے کا کڑا ڈال کر ورزش کرتا۔ آدھ گھنٹا پی ٹی اور آدھ گھنٹا سوا من وزنی ڈمبل پھیرتا۔ چھوٹے بڑے پہلوانوں سے کئی کئی مرتبہ زور کرتا۔ اس کے بعد شام کی کسرت ہوتی تھی۔چودھری لکھتے ہیں کہ ناصر بھولو نے انھیں بتایا کہ زور کے دوران میں اور جھارا بھی ایک دوسرے سے کشتی لڑتے تھے مگر وہ مجھ سے تگڑا تھا۔ اس کے اندر سُرعت، پُھرتی اور جرأت بھولو پہلوان جیسی تھی۔ وہ 6 فٹ 2 انچ قدآور فولادی جسم کا مالک تھا۔ اچھا پہلوان اپنے سپوت کو دیکھتے تو بڑے مان سے کہتے 'جھارا اپنے تایا پر گیا ہے۔'شیخ لکھتے ہیں کہ ’وہ دو کلو گوشت، تین کلو گوشت کی یخنی، دو کلو دودھ اور پھلوں کا جوس نوش کرتا۔ پھر دو کلو بادام کی سردائی، ڈنٹر پیلنے کے دوران چاندی کے ورق، سچے موتی اور چھوٹی الائچی کا مرکب آدھا کلو مکھن کے ساتھ پیش کیا جاتا۔‘اور پھر 17 جون 1979 بھی آن پہنچا۔ چالیس ہزار کا جمِ غفیر لاہور کے قذافی سٹیڈیم پہنچ گیا تھا۔ ٹکٹ ہاتھوں ہاتھ بک گئے تھے۔ جو ٹکٹ حاصل نہ کرسکے، ہلا بولنے لگے تو لاٹھی چارج ہوا۔جھارا پہلوان سرخ گاؤن اور بڑی پگڑی سر پر جمائے اکھاڑے میں نمودار ہوئے۔ گاؤن پر واضح الفاظ میں پاکستان درج تھا۔ انوکی کا پیرہن بھی سرخ ہی تھا۔کھیلوں کے مبصر اریج عارِفین لکھتے ہیں کہ ایسے دور میں جب دنیا کے بیشتر حصوں کو بین الاقوامی میڈیا تک نہ ہونے کے برابر رسائی حاصل تھی، انوکی عالمی سطح پر پہچانے جاتے تھے۔ ان کی شہرت کا ثبوت محمد علی اور ہلک ہوگن جیسے بڑے کھلاڑیوں سے ان کے مقابلے ہیں جنھیں بے پناہ توجہ ملی۔’دوسری طرف زبیر کو کشتی کرتے ہوئے صرف تین سال ہوئے تھے اور ان کی عمر محض انیس برس تھی۔ چونکہ وہ اکرم پہلوان کے بھتیجے تھے، اس لیے یہ مقابلہ ایک مثالی انتقامی کہانی کی صورت اختیار کر گیا۔ اور توقع کے مطابق اس مقابلے کا جوش و خروش پورے ملک پر چھا گیا تھا۔‘پرویز محمود پاکستان ایئرفورس سے گروپ کیپٹن ریٹائر ہوئے ہیں اور سماجی اور تاریخی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ بھولو پہلوان کے خاندان سے اپنے ننھیال کے تعلق کی وجہ سے انھوں نے یہ دنگل خود دیکھا تھا۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ اس مقابلے سے پہلے ہی لاہور شہر میں ایک تہوار کا منظر تھا۔اکرم پہلوان نے کیا صرف خاندانی وقار کی خاطرانوکی سے کُشتی لڑی؟جاپانی پہلوان انوکی سے ایسا مقابلہ جو محمد علی کے ہسپتال جانے پر ختم ہواڈبلیو ڈبلیو ایف کے ’حقیقی لیجنڈ‘ ہلک ہوگن جنھوں نے ریسلنگ رنگ سے باہر ہالی وڈ میں بھی کیریئر بنایاجب انڈیا کی پہلی خاتون پہلوان حمیدہ بانو نے کہا ’مجھے دنگل میں ہرانے والا مجھ سے شادی کر سکتا ہے‘’داخلے کا کم از کم ٹکٹ سو روپے تھا، جو اس وقت کے حساب سے بڑی رقم تھی کیونکہ کرکٹ میچ کا ایک ٹکٹ تقریباً دس روپے میں مل جاتا تھا۔‘’اکرم عرف اکی کوچ کے طور پر اپنے بھتیجے کے ساتھ موجود تھے۔ ڈھول کی تھاپ پر ایک ٹانگ پر ناچتے ہوئےجھارا نے روایتی پہلوانی رقص کیا۔ اس کے بعد انوکی نے رنگ میں آ کر تماشائیوں کو ہاتھ ہلایا اور اپنے کونے میں چلے گئے۔‘’مقابلہ پانچ راؤنڈز پر مشتمل تھا، ہر راؤنڈ کے درمیان پانچ منٹ کا وقفہ تھا۔‘پرویز محمود کے مطابق تیزی سے آغاز ہوا مگر جلد ہی واضح ہو گیا کہ انوکی جھارا کے قریب آنے سے گریزاں ہیں، جبکہ جھارا پورے مقابلے میں جارحانہ موڈ میں رہے۔ انھوں نے انوکی کو کئی بار رنگ پر پٹخا اور رسیوں سے دھکیلا۔ عمر کا فرق جو تین سال پہلے اکرم پہلوان کے خلاف انوکی کے حق میں تھا، اس بار جھارا کے حق میں تھا۔’وقفوں میں انوکی رسیوں پر جھک کر آرام کرتے جبکہ جھارا رنگ میں چکر لگاتے رہتے۔’دوسرے راؤنڈ میں جھارا نے ایک بار پھر انوکی کو زمین پر گرا دیا اور ان کے سینے پر بیٹھ کر بازو موڑنے کی کوشش کی۔ جب جھارا نے 'دھوبی پٹکا' کا داؤ آزمایا اور انوکی کو پیٹھ کے بل پٹخا تو لاہوری تماشائی جھوم اٹھے۔ تماشائیوں کا جوش دو چند ہو گیا جب جھارا نے ایک موقع پر انوکی کو رنگ سے باہر پھینک دیا اور انھیں واپس آنے میں آدھا منٹ لگا۔‘پرویز محمود لکھتے ہیں کہ تیسرے راؤنڈ میں جھارا نے انوکی کو تقریباً گرا دیا اور ٹکر سے انوکی چکرا گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ننگے پاؤں جھارا کو سخت فرش والے رنگ پر بھاری جوتوں والے انوکی کے مقابلے میں نقصان پہنچ رہا ہے۔ چوتھے راؤنڈ میں انوکی زیادہ تر زمین پر رہتے اور جھارا کو قریب آنے سے روکنے کے لیے اپنے پیروں سے کام لیتے رہے۔’وہ بالکل نڈھال دکھائی دیے جبکہ جھارا آخر تک ترو تازہ رہے۔’پہلے چار راؤنڈز بے نتیجہ رہے۔ پانچویں راؤنڈ میں انوکی آہستہ آہستہ جھارا کی طرف بڑھے اور جھارا اچھلتے کودتے ان کے گرد گھومتے رہے۔ ایک موقع پر دونوں نے گردنیں جکڑ لیں تو جھارا نے زوردارٹکر ماری لیکن انوکی کے پیچھے جا کر گرفت نہیں بنا سکے۔ انوکی نے بازو اور انگلیاں مروڑنے کی کوشش کی مگر جھارا نے انھیں آسانی سے چھڑا لیا۔’مقابلے کے آخری لمحوں میں جھارا نے انوکی کو پشت کے بل دبا لیا۔ ایک موقع پر ایسا لگا کہ انوکی کے کندھے زمین کو چھو گئے ہیں مگر گھنٹی بج گئی۔‘پرویز محمود کے مطابق نتیجے کے اعلان سے قبل انوکی نے خود آگے بڑھ کر جھارا کا ہاتھ بلند کیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستانی پہلوان نے بہتر کارکردگی دکھائی۔ جھارا، ان کے ساتھی اور قریبی تماشائی خوشی سے اچھل پڑے۔ باقی مجمع نے بھی کچھ دیر بعد اس حقیقت کو سمجھا اور جشن منایا۔یوں عظیم گاما کے خاندان نے اپنی فتوحات میں ایک اور انمول اضافہ کیا — اس بار جاپان کے سُمو اور جوجتسو کی سرزمین سے۔ یہ مقابلہ اتنا ہی یادگار تھا جتنا کہ 1910 میں لندن میں گاما کا پولینڈ کے پہلوان زبِسکو کے خلاف دنگل۔ اور یہ معرکہ آج بھی لاہور کے لوگ یاد کرتے ہیں۔’علی ورسز انوکی‘ نامی کتاب کے مصنّف جوش گراسلکھتے ہیں کہ پانچ راؤنڈ تک زور آزمائی کے باوجود مقابلہ بے نتیجہ رہا، مگر انوکی نے آخر میں جھارا کا ہاتھ فضا میں بلند کر دیا۔’یہ منظر دیکھ کر لاہور کا مجمع جوش و خروش سے جھوم اٹھا۔ یہی لمحہ تھا جس نے انوکی کو پاکستانی عوام کے دلوں میں بسا دیا، جیسے اسلام کی طرف ان کے بڑھتے جھکاؤ نے۔‘ (بعد میں انوکی نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام محمد حسین رکھا تھا۔)عارفین لکھتے ہیں کہ ’حاضرین کے لیے یہ بات بالکل واضح تھی کہ جھارا نے ہر پہلو سے انوکی کو زیر کر لیا ہے۔’ججوں نے مقابلہ برابر قرار دیا، لیکن ایک غیر معمولی اقدام میں انوکی نے ازخود جھارا کے حق میں دستبرداری اختیار کر لی۔ جاپانی لیجنڈ نے جھارا کا ہاتھ بلند کیا تو شائقین اپنے مقامی ہیرو کے ساتھ جشن منانے کے لیے رنگ میں کود پڑے۔ اس تاریخی مقابلے کے بعد انوکی اور زبیر جھارا قریبی دوست بن گئے۔‘احمد اشفاق نے اس مقابلے کی دستیاب ویڈیو کی کوالٹی کو کچھ بہتر کر کے پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس مختصر ویڈیو میں انوکی کے اعلان اور ریفری کے فیصلے کو دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔اس ویڈیو میں پی ٹی وی مبصر ایس ایم نقی بتاتے ہیں کہ پانچ منٹ کے پانچ راونڈ ختم ہوچکے ہیں اور یہ کشتی برابر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ منتظمین کی طرف سے کیا اعلان کیا جاتا ہے۔(انوکی گلے ملتے ہیں اور جھارا کا ہاتھ کھڑا کر دیتے ہیں۔ جھارا کے حامی تیزی سے رنگ میں آتے ہیں اور نعرے لگاتے ہوئے اچھلنے لگتے ہیں۔)ریفری ایس ایم نقی کو بتاتے ہیں کہ زبیر جیت گئے ہیں۔ پانچ راؤنڈ تک مقابلہ برابر تھا لیکن پھر جاپانی ریسلر انوکی نے یہ تسلیم کرلیا کہ زبیر جیت گئے ہیں۔پرویز محمود لکھتے ہیں کہ ’اس رات لاہور میں یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ مقابلہ طے شدہ تھا اور انوکی نے پیسے لے کر شکست قبول کی ہے۔‘چودھری لکھتے ہیں کہ بھولو برادران نے اس افواہ کا سد باب کرنے کی انتہائی کوششیں کیں کہ کشتی کا اختتام طے شدہ تھا اور پریس میں وضاحت کی کہ یہ افواہ سازی ان کے مخالفین کررہے ہیں اور اس میں رتی بھر صداقت نہیں ہے۔گوگا پہلوان نے جھارا کو ایک بار پھر للکارا اور 17 اپریل 1981 کو ان دونوں کی کشتی ہوئی لیکن جھارا نے جارحانہ انداز میں انھیں پھر ہرا دیا۔چودھری نے لکھا ہے کیسے جھارا نے اپنے ایک محلے دار کی شکایت پر لاہور ریلوے سٹیشن پر انڈیا سے سمگل شدہ پان اور کپڑے کا بھتا لیتے دادا گیروں کی پٹائی کر دی۔ لیکنانھی دادا گیروں کے مخالف گروپ کی ہلا شیری پروہ خود ریلوے اسٹیشن پر جگا ٹیکس وصول کرنے لگ گئے۔’بھولو اور ان کے بھائیوںنے فیصلہ کیا کہ جھارا پہلوان کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے شادی کے بندھن میں باندھ دیا جائے۔ بات چلی اور ان کے چچا گوگا پہلوان کی بیٹیسائرہ کے ساتھ جھاراکی شادی کر دی گئی۔ وہ جھارا کو راہ راست پر لانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو گئیں مگرجھارا کے دوست نما دشمن انھیں پھر بدمعاشی کی دلدل میں لے گئے۔‘چودھری کے مطابق اب وہ نشہ بھی کرنے لگے تھے۔’ایک روز جھارا ٹیکسالی کے باہر ایک کباب فروش کے پاس کھڑے تھے۔ ان کی آنکھیں خمار سے بھری تھیں اور بدن میں اینٹھن بڑھی ہوئی تھی۔ نشہ کی انتہا کا اثر تھا کہ جھارا سارے کباب کھا گئے۔ یکا یک ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور قے کرنے لگے۔ ہسپتال میں ڈاکٹر نےانکشاف کیا کہ جھارا کو ہیروئن کی لت لگ گئی ہے۔‘جھارا پر اب کوئی نصیحت اثر نہیں کررہی تھی۔ بھولو نے ان کی سر زنش کرنا ترک کر دی تھی، مبادا عزت و احترام کا بھرم بھی ٹوٹ جائے۔چودھری لکھتے ہیں کہ چند ٹھیکیداروں نے ان کی عزت نفس ابھارنے کے لیے ان کا رستم لاہور بھولا گاڈی سے مقابلہ طے کر دیا۔’عین کشتی کے وقت جھارا نشیلے سگریٹ کا زہر اپنے اندر اتار کر اکھاڑے میں اترے تھے۔ گاما پہلوان، امام بخش پہلوان اور بھولو برادران کا آخری چراغ ٹمٹماتے دیے کی طرح اکھاڑے میں اپنے ڈولتے جسم کے ساتھ مضحکہ خیز لگ رہا تھا۔ مقابلہ ہوا اور جھارا نے بھولا گاڈی پر فتح حاصل کر لی۔’سنہ 1984 میں جھارا کی زوار ملتانی کے ساتھ کشتی باندھ دی گئی۔ بھولو پہلوان ان سے خفا ہو چکے تھے۔ بھائیوں نے زور لگایا کہ بھولو پہلوان جھارا کے ساتھ ملتان جائیں مگر وہ انکار پر ڈٹے رہے۔’میں نہیں جاؤں گا۔ میں تو کہتا ہوں جھارا کو اب کشتی نہ کراؤ۔ اس کی فتوحات کا جو بھرم قائم ہے اسے قائم ہی رہنے دو۔ کیوں عزت کا جنازہ اٹھانا چاہتے ہو،‘ انھوں نے کہا۔’بیرا پہلوان اور کلا پہلوان جھارا کو ملتان لے کر گئے۔ کشتی کے دن تک انھوں نے جھارا اور نشے کی پڑیوں کے درمیان پُر گداز منظر دیکھا۔ ان کے کلیجے بار بار پھٹ رہے تھے مگر کیا کرتے۔ زوار سے کشتی ہوئی مگر اب وہی زوارجو جھارا پہلوان کی زندگی کی ابتدائی کشتی لڑ چکے تھے، چٹان کی طرح مقابلے پر ڈٹ گئے۔ کشتی کافی طویل ہوگئی تھی،برابر چھڑا دی گئی۔ یہ جھارا کی آخری کشتی تھی۔‘چودھری کے مطابق ’اس کے بعد وہ اکھاڑے میں تو جاتے تھے مگر زور کرنے اور کشتیاں لڑنے سے پرہیز کرتے۔‘دس ستمبر 1991 کو جوانی میں ہی حرکتِ قلب بند ہونے سے چل بسے۔ جھارا پہلوان، گاما پہلوان کی طرح ناقابل شکست رہے۔لیکن 'خفتگانِ خاکِ لاہور' میں لکھا ہے کہ ’جوانی میں گھٹیا قسم کے نشے کی لت جان لیوا ثابت ہوئی۔‘جب ضیا الحق نے بھولو برادران کے انڈیا جانے پر پابندی عائد کر دی’اللہ میرا حتمی جج ہے۔۔۔‘: جب باکسر محمد علی نے امریکی فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کیاوہ داؤ جس نے پاکستان کو طلائی تمغہ دلوایاانڈیا کا دل جیتنے والا پاکستانی صادق پہلوان’مٹی کے اکھاڑوں سے میٹ ریسلنگ کا سفر آسان نہیں‘اکرم پہلوان نے کیا صرف خاندانی وقار کی خاطرانوکی سے کُشتی لڑی؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

برطانوی وزیراعظم سے ’مشکل ملاقات‘ کے بعد اسرائیلی صدر کا قطر پر حملوں کا دفاع، یمن پر اسرائیلی حملوں میں 35 افراد ہلاک

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ’قطر کی درخواست پر‘ ملتوی، یمن پر اسرائیلی حملوں میں 35 افراد ہلاک

بنوں فوجی مرکز پر حملے میں ہلاک ہونے والے ’ایڈونچر پسند‘ میجر عدنان اسلم کون تھے؟

اسرائیلی سفیر کا حماس کے رہنماؤں کو دوبارہ نشانہ بنانے کا عندیہ، قطر کا ’جارحیت کے خلاف سخت کارروائی‘ کا انتباہ

’ہم مکان کی بالائی منزل پر بیٹھے اپنے اجڑنے کا تماشہ دیکھتے رہے‘: گجرات شہر پانی میں کیسے ڈوبا؟

قطر میں اسرائیلی حملے کے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اتحاد پر کیا اثرات پڑیں گے؟

’تحریک کو موقع پرستوں نے ہائی جیک کر لیا‘: ’جین زی‘ گروپس کا نیپال میں پُرتشدد واقعات سے لاتعلقی کا اعلان

جھارا: 19 برس کی عمر میں جاپان کے انوکی کو شکست دینے والے پہلوان جو ’جوانی میں نشے کی لت‘ میں پڑ گئے

تیز بارش کا امکان.. کراچی میں آج کس وقت بادل برس سکتے ہیں؟

’تحریک کو موقع پرستوں نے ہائی جیک کرلیا‘: ’جین زی‘ گروپس کا نیپال میں پُرتشدد واقعات سے لاتعلقی کا اعلان

کراچی میں بارش کے بعد مختلف سڑکوں پر پانی جمع، ٹریفک کی روانی متاثر

کراچی میں سب سے زیادہ بارش کہاں ہوئی؟ محکمہ موسمیات نے بتا دیا

مبینہ جنسی حملے کے دوران حملہ آور کی زبان کاٹنے والی خاتون 61 برس بعد الزامات سے بری

کراچی میں موسلا دھار بارش ، تھڈو ڈیم اوور فلو، لٹھ ندی میں طغیانی

دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملہ جس نے ’سفارتکاری کے دروازے بند کر دیے‘

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی