
پاکستان میں ڈاکٹر بننے کا خواب ہر سال ہزاروں نوجوانوں کو بیرونِ ملک میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کی جانب لے جاتا ہے۔ والدین اپنی جمع پُونجی خرچ کرتے ہیں، طلبہ برسوں کی محنت کرتے ہیں اور پھر وطن واپسی پر اُمید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے ہسپتالوں میں مریضوں کی خدمت کر سکیں گے۔ تاہم حالیہ دنوں میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی جانب سے جاری ہونے والا ایک نوٹس اس خواب کو دُھندلا دینے کا سبب بن گیا ہے۔اچانک پالیسی کی اس تبدیلی نے ان طلبہ اور ان کے خاندانوں کو غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے جو پہلے ہی اپنی تعلیم پر خطیر سرمایہ اور وقت صرف کر چکے ہیں۔ نئی پالیسی سے ہزاروں طلبہ کیسے متاثر ہوں گے؟ اسلام آباد سے جاری پی ایم ڈی سی کے تازہ ترین فیصلے نے ہزاروں پاکستانی طلبہ کو غیر یقینی کے بھنور میں ڈال دیا ہے۔ رواں برس آٹھ ستمبر کو جاری ہونے والے پبلک نوٹس کے مطابق اب صرف وہی فارغ التحصیل طلبہ پاکستان میں ہاؤس جاب یا پروویژنل رجسٹریشن حاصل کر سکیں گے جنہوں نے پی ایم ڈی سی کے تسلیم شدہ اداروں سے تعلیم حاصل کی ہو۔اس اعلان کے ساتھ ہی غیرملکی اداروں کی وہ فہرست جو ماضی میں پی ایم ڈی سی کی ویب سائٹ پر دستیاب تھی، ختم کر دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ اچانک سامنے آنے کے بعد سب سے زیادہ متاثر وہ طلبہ ہوئے ہیں جو اس وقت چین، روس، کرغزستان، قازقستان، آذربائیجان اور مشرقی یورپ کے مختلف ممالک میں زیرِتعلیم ہیں۔یہ نوجوان جب ان ممالک کی یونیورسٹیوں میں داخل ہوئے تھے تو اُن اداروں کے نام پی ایم ڈی سی کی فہرست میں شامل تھے۔ اب اچانک اُس فہرست کو ختم کر دینا اُن طلبہ و طالبات کے لیے غیر یقینی اور مایوسی کا سبب بن گیا ہے۔حافظ آباد کے گل نواز جو چین کی ایک یونیورسٹی میں سیکنڈ ایئر کے طالب علم ہیں کہتے ہیں کہ ’میرے والدین نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لگا کر مجھے ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھا تھا۔’میں نے پی ایم ڈی سی کی فہرست میں موجود ہونے پر ہی اس میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تھا اور فیس جمع کروائی تھی، تاہم اب وہ فہرست ہی منسوخ کر دی گئی ہے۔‘پی ایم ڈی سی کے مطابق ’غیرملکی میڈیکل کالجز کے لیے امریکی کمیشن کی منظوری لازمی ہو گی‘ (فائل فوٹو: پی ایم ڈی سی)ان کا کہنا ہے کہ ’اب مجھے بالکل اندازہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ چین کے کئی میڈیکل کالجز ہیں جو بین الاقوامی سیاست کی وجہ سے امریکی کمیشن سے رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ فیصلہ کرتے ہوئے اِن چیزوں کا بھی خیال رکھنا ضروری تھا۔‘اسی میڈیکل کالج میں کراچی کی ایک طالبہ کرن جمال بھی ہیں جنہوں نے حال ہی میں میڈیکل کالج میں داخلہ لیا ہے، وہ کہتی ہیں کہ ’ہاؤس جاب کے بغیر نہ تو پاکستان میں پریکٹس ممکن ہے اور نہ ہی آگے سپیشلائزیشن۔‘’اگر پروویژنل رجسٹریشن ہی نہ ملے تو ڈگری کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اب اس نئی پالیسی میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکی کمیشن سے رجسٹرڈ نہ ہونے والے بین الاقوامی کالجز کے فارغ التحصیل پی ایم ڈی سی کے امتحان میں بھی نہیں بیٹھ سکیں گے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’پہلے تو طلبہ پی ایم ڈی سی کی فہرست والے کالجوں میں داخلہ لیتے تھے، پھر اپنے ملک جا کر پی ایم ڈی سی کا امتحان دیتے تھے اور ہاؤس جاب اور پریکٹس شروع کر دیتے تھے۔ اب ایسے لگ رہا ہے کہ ہم صرف چین میں ہی پریکٹس کر پائیں گے۔‘ خیال رہے کہ ماضی میں پی ایم ڈی سی غیرملکی میڈیکل اداروں کی ایک فہرست جاری کیا کرتی تھی۔ جو ادارے اس فہرست میں شامل ہوتے اُن سے فارغ التحصیل طلبہ باآسانی پروویژنل رجسٹریشن لے کر ہاؤس جاب شروع کر سکتے تھے۔ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں 50 ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)زیادہ تر کیسز میں نیشنل رجسٹریشن ایگزام جسے ’این آر ای‘ کہا جاتا ہے سے استثنیٰ بھی دیا جاتا تھا، تاہم اب صورتِ حال بدل گئی ہے۔ نئی پالیسی کے مطابق غیرملکی اداروں کو پاکستان میں تسلیم کروانے کے لیے نہ صرف سخت پروسیس سے گزرنا ہوگا بلکہ اس میں فزیکل انسپیکشن، دستاویزی جانچ اور امریکی ادارے ایجوکیشنل کمیشن فار فارن میڈیکل گریجویٹس (ای سی ایف ایم جی) کی منظوری لازمی ہو گی۔اعداد و شمار کے مطابق ہر سال پاکستان کے 8 سے 10 ہزار طلبہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرونِ ملک جاتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کا رُخ کرتی ہے۔یہ طلبہ وطن واپسی پر پاکستان کے صحت کے نظام میں موجود خلا پُر کرتے ہیں، خاص طور پر دیہی اور دُور دراز علاقوں میں اِن ہی نوجوان ڈاکٹروں کے ذریعے ہسپتالوں میں عملے کی کمی پوری کی جاتی ہے۔تاہم اب اگر اِن کی رجسٹریشن روک دی گئی تو ماہرین کے مطابق صحت کے شعبے میں ڈاکٹرز کی کمی ایک سنگین مسئلہ بن سکتی ہے۔ تعلیم اور صحت کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ میڈیکل ایجوکیشن کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اچانک اور سخت فیصلے ہزاروں طلبہ کے مستقبل کو تباہ کر سکتے ہیں۔ زیرِتعلیم طلبہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں کسی نہ کسی استثنیٰ کے تحت چُھوٹ دی جائے (فائل فوٹو: اے ایف پی)پروفیسر ڈاکٹر سلمان احمد شیروانی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’دنیا بھر میں میڈیکل ایجوکیشن کے معیار پر سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں اور ہمارے لیے بھی جعلی ڈگریوں یا غیرمعیاری اداروں کو روکنے کے لیے اقدامات ضروری ہیں۔‘’میڈیکل کا پیشہ اسی بات کا متقاضی ہے کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست انسانی جانوں سے ہے۔ اس طرح کے سخت فیصلے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور پی ایم ڈی سی کو اس کا اختیار حاصل ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’چند سال پہلے ورلڈ فیڈریشن فار میڈیکل ایجوکیشن نے کہا تھا کہ اگر کسی ملک میں ماڈیول سسٹم نہیں ہو گا تو اُن کے طالب علموں کو دنیا میں تسلیم نہیں کیا جائے گا۔‘’پی ایم ڈی سی نے فوری طور پر یہ اُصول لاگو کر دیا، دو سال بعد یہ نوٹیفیکیشن فیڈریشن نے واپس لے لیا اور ابھی آدھے میڈیکل کالجز ماڈیولر سسٹم پر ہیں اور آدھے پُرانے پر، تو یہ تو چلتا ہے۔‘ہیلتھ پالیسی کے ماہر ڈاکٹر عطا اللہ کہتے ہیں کہ ’اگر ایک ہی وقت میں ہزاروں طلبہ کی ڈگریاں غیر تسلیم شدہ قرار دے دی گئیں تو یہ نہ صرف اُن کی ذاتی زندگی کے لیے تباہ کن ہوگا بلکہ پاکستان کے نظام صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہو گا۔‘’پاکستان پہلے ہی ڈاکٹرز کی کمی کا شکار ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ہر ایک ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے، لیکن پاکستان میں یہ تناسب اِس سے کہیں کم ہے۔‘ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے زیادہ تر پاکستانی طلبہ چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کا رُخ کرتے ہیں (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)ڈاکٹر عطا اللہ کے مطابق ’اگر طلبہ نے داخلہ آپ کی فہرست میں شامل کالجز میں لیا تھا تو آپ بیک جنبش قلم اُن کو نظرانداز نہیں کر سکتے، بلکہ اس پالیسی کو الگے سال سے لاگو کرتے ہوئے اب تک جتنے طلبہ داخلہ لے چکے ہیں انہیں راستہ دینا چاہیے۔‘ اب آگے کیا ہو گا؟نئی پالیسی کے تحت بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کرنے والے گریجویٹس صرف اسی صورت پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کر سکیں گے جب ان کے ادارے کو پی ایم ڈی سی تسلیم کرے۔ بصورت دیگر انہیں نیشنل رجسٹریشن ایگزام میں بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں ملے گی۔ پی ایم ڈی سی نے واضح کیا ہے کہ جو ادارے ای سی ایف ایم جی سے منظورشدہ ہیں ان کے گریجویٹس کے لیے راستہ کھلا ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ وہ طلبہ جو پہلے سے غیر منظورشدہ اداروں میں زیرِتعلیم ہیں، اُن کے لیے کیا حکمتِ عملی اپنائی جائے گی؟متاثرہ طلبہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پہلے سے زیرِتعلیم طلبہ کو کسی نہ کسی استثنیٰ کے تحت چُھوٹ دی جائے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ غیرملکی اداروں کی منظوری کا عمل شفاف اور تیز رفتار بنایا جائے اور طلبہ کو متبادل راستے مثلاً خصوصی امتحان یا اضافی ٹریننگ کے ذریعے رجسٹریشن کا موقع دیا جائے۔ بیرونِ ملک زیرتعلیم پاکستانی طلبہ کے تعلیمی اداروں کو تسلیم نہ کیا گیا تو ہزاروں خاندان متاثر ہوں گے (فائل فوٹو: فائل فوٹو: شٹرسٹاک)اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں 50 ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اگر اُن کے تعلیمی اداروں کو تسلیم نہ کیا گیا تو لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور ہزاروں خاندان متاثر ہو سکتے ہیں۔ڈاکٹر سلمان کہتے ہیں کہ ’یہ ایک مستقل بحث ہے۔ ایک یہاں کے طلبہ و طالبات ہیں جو سخت ترین مقابلہ کر کے یہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ایک وہ طلبہ ہیں جو اس مقابلے کی فضا میں جائے بغیر ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔‘’ایک طرح سے یہ اُن کے ساتھ بھی زیادتی تصور کی جاتی ہے۔ ابھی یہ صورتِ حال ہے کہ امریکی کمیشن کے رجسٹرڈ کالجز سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اس پالیسی سے محفوظ رہیں گے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’اس لیے داخلہ لینے والے نئے طلبہ کمیشن کی ویب سائٹ یا جس کالج میں وہ پڑھ رہے ہیں وہاں کی انتظامیہ کو آگاہ کریں۔‘’ایسی صورت میں وہ کالجز بھی اپنے آپ کو رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس سینکڑوں طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں، اور آخری بات یہ ہےکہ پی ایم ڈی سی ٹرانزیشن کا عمل تھوڑا آسان بنائے۔‘