’چلتا پھرتا مردہ‘: ماہی گیر کا رُوپ دھار کر ایرانی بیلسٹک میزائلوں کے پرزے یمن پہنچانے کا الزام، پاکستانی شہری کو 40 برس قید کی سزا


US Department of Justiceاستغاثہ کا کہنا تھا کہ پہلوان کی کشتی سے ملنے والے ہتھیار ایران کے تیار کردہ ’جدید ترین‘ ہتھیار تھےامریکی عدالت نے ایران سے بیلسٹک میزائل کے پرزہ جات اور دیگر ہتھیار یمن پہنچانے کا الزام ثابت ہونے پر پاکستانی شہری کو 40 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔محمد پہلوان نامی پاکستانی شہری پر یہ الزام تھا کہ وہ ماہی گیروں کی کشتی کا استعمال کر کے ایران کے بیلسٹک میزائل کے پرزے یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کو پہنچاتے تھے۔ محمد پہلوان کو جنوری 2024 میں بحیرہ عرب میں امریکی فوجی آپریشن کے دوران حراست میں لیا گیا تھا جس کے دوران امریکی نیوی کے دو اہلکار بھی ڈوب گئے تھے۔پہلوان کے ساتھ کام کرنے والے افراد نے امریکی عدالت میں گواہی دی کہ پہلوان نے اُن کے ساتھ دھوکہ کیا اور غلط بیانی کی۔ عملے کے مطابق اُنھیں صرف یہی معلوم تھا کہ وہ ماہی گیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ امریکی فوج نے گذشتہ برس یہ آپریشن ایسے وقت میں کیا تھا جب ایران نواز حوثی باغیوں نے حماس کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل میں میزائلوں اور ڈرونز سے حملے کیے تھے۔ حوثی باغیوں نےبحیرہ احمر اور خلیج عدن میں بین الاقوامی تجارتی بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ ایران نے حوثیوں کو مسلح کرنے کی مسلسل تردید کی ہے۔امریکی ریاست ورجینیا کی عدالت میں محمد پہلوان کے ساتھیوں کے بیانات اس غیر معمولی سمگلنگ آپریشن پر سے پردہ اُٹھاتے ہیں، جن کے ذریعے حوثی باغی بڑے حملے کرنے کے قابل ہوئے۔ امریکی وفاقی استغاثہ نے اس مقدمے کی سماعت کے بعد کہا کہ پہلوان کی کشتی پر پائے جانے والے اجزا ’کچھ جدید ترین ہتھیاروں کے نظام تھے جو ایران دوسرے دہشت گرد گروہوں تک پہنچاتا ہے۔‘انچاس سالہ محمد پہلوان کو جمعرات کو 40 برس قید کی سزا سنائی گئی، تاہم اس سے قبل اُنھیں دہشت گردی اور تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی سمگلنگ سمیت پانچ الزامات پر مجرم قرار دیا گیا تھا۔ US Department of Justiceپہلوان نے ایرانی ساختہ اینٹی شپ کروز میزائل کے اجزا اور وار ہیڈ سمگل کرنے کے لیے ماہی گیری کی کشتی کا استعمال کیا’چلتا پھرتا مردہ‘عدالت میں گواہی دینے والے عملے کے آٹھ ارکان کا کہنا تھا کہ اُنھیں نہیں معلوم تھا کہ ’یونس‘ نامی کشتی میں رکھے جانے والے بڑے بڑے تھیلوں میں کیا ہے۔عملے کے ایک رکن نے کہا کہ جب اُنھوں نے پہلوان سے اس بارے میں سوال کیا تو اسے جواب ملا کہ وہ صرف اپنے کام کو ذہن میں رکھیں۔پہلوان کے موبائل فون ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ پہلوان جانتے تھے کہ کارگو کتنا خطرناک ہے۔ اُنھوں نے اپنی بیوی کے ساتھ ٹیکسٹ میسجز کے تبادلے میں اپنے آپ کو ’چلتا پھرتا مردہ شخص‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’بس دعا کریں کہ ہم بحفاظت واپس آ جائیں۔‘ جواب میں اُن کی اہلیہ نے کہا تھا کہ ’آپ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں۔‘ اس پر پہلوان نے جواب دیا کہ ’میری نوکری ہی ایسی ہے۔‘ یہ پیغامات جنوری 2024 میں اُن کی گرفتاری سے قبل بھیجے گئے تھے اور انھیں شواہد کے طور پر عدالت میں بھی پیش کیا گیا۔سفر پر جانے سے پہلے پہلوان نے اپنی بیوی کو میسیج کیا کہ ’مجھے اپنی دعاؤں میں رکھنا۔ خدا مجھے بحفاظت وہاں لے جائے اور مجھے بحفاظت واپس لے آئے، ٹھیک ہے۔ دعا کرو۔‘اس سفر کے لیے پہلوان کو 33 ہزار 274 ڈالرز ادا کیے گئے، پراسیکیوٹرز نے عدالت میں اس ’خطرناک سفر‘ کے لیے اسے بھاری رقم قرار دیا تھا۔ اس وقت کے امریکی محکمہ دفاع (جو اب محکمہ جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے) نے جون میں ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ سفر ’ایک بڑے آپریشن کا حصہ‘ تھا جس کی مالی اعانت اور تعاون دو ایرانی بھائیوں یونس اور شہاب میرکازئی نے کی تھی۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ میرکازئی برادران مبینہ طور پر ایران کے پاسدارانِ انقلاب سے وابستہ ہیں۔ امریکہ نے پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔شہاب اور یونس میرکازئی دونوںپر امریکی حکام نے الزامات عائد کیے ہیں، لیکن وہ ابھی تک مفرور ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایران میں ہیں۔عالمی تجارت کے لیے ’خطرے کی علامت‘ بننے والے حوثی باغی کون ہیں اور وہ بحیرہ احمر میں جہازوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟عالمی تجارت کو ’نئے جھٹکے‘ کی وارننگ: بحیرہ احمر میں حوثی باغیوں کے حملے جو امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کو پریشان کر رہے ہیں؟امریکہ، ایران جوہری مذاکرات میں اصل رکاوٹ حوثی باغیوں اور ملیشیا کے حملے ہیں؟یو اے ای میں حوثی حملے میں مارا جانے والا پاکستانی: ’زندگی بچوں کے بغیر گزری، آئندہ لمبی چھٹی پر آؤں گا‘پہلوان اس سے قبل اکتوبر اور دسمبر 2023 میں اس نوعیت کے کامیاب سفر کر چکے تھے۔ انھوں نے اس کام میں مدد کے لیے 12 لوگوں کو بھرتی کیا جن سب کا تعلق پاکستان سے تھا اور یہ لوگ روزگار کی تلاش میں سرحد پار ایران گئے تھے۔عدالت میں بتایا گیا کہ دسمبر 2024 میں سفر پر روانہ ہونے سے قبل ایران کے جنوبی ساحل چابہار میں ان افراد کو کشتی پر بڑے پیکٹ لوڈ کرنے کا کام سونپا گیا۔ پھر پانچ یا چھ دن سمندر میں رہنے کے بعد، جب وہ صومالیہ کے ساحل کے قریب تھے، تو ایک اور کشتی ان کے قریب آئی جس میں پانچ سے چھ افراد موجود تھے اور پھر یہ سارا سامان اُس کشتی میں منتقل کیا گیا۔ عملے کے رُکن مہندی حسن نے عدالت کو بتایا کہ دوسری کشتی میں سوار افراد جو زبان بول رہے تھے، وہ اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ مہندی حسن نے عدالت میں بتایا کہ ان کا اگلا سفر جنوری 2024 میں تھا۔ چابہار جانے سے پہلے اُن کا سفر کونارک کی ایک چھوٹی بندرگاہ سے شروع ہوا، جہاں عملے کو بھاری بھرکم بکسوں کو کشتی پر لادنے کا حکم دیا گیا۔ امریکی بحریہ کے مطابق ان پیکجوں میں ایرانی ساختہ بیلسٹک میزائل کے پرزے، اینٹی شپ کروز میزائل کے پرزے اور ایک وار ہیڈ تھا۔US Department of Justiceنیوی سیلز نیتھن گیج انگرام اور کرسٹوفر چیمبرز دونوں پہلوان کی کشتی کو روکنے کے مشن کے دوران ڈوب گئے تھےعملے کی گواہی کے مطابق سمندر میں سفر کے دوران پہلوان خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور زیادہ تر کیبن میں بیٹھ کر اپنے فون پر فلمیں دیکھتے رہتے تھے۔ مہندی حسن نے کہا کہ کبھی کبھی وہ پہلوان کو دوسرے موبائل سیٹلائٹ فون پر بات کرتے دیکھتے تھے، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، کیونکہ وہ ایسی زبان میں بات کرتے تھے جسے وہ نہیں سمجھتے تھے۔مہندی حسن کے مطابق 11 جنوری کو وہ کشتی کے اُوپر ہیلی کاپٹر کی پرواز اور امریکی بحریہ کے ایک جہاز کی آواز سے بیدار ہوئے۔ اُن کے بقول اسی دوران پہلوان کیبن سے باہر نکلے اور سب کو کہا کہ ’چلتے رہو اور کشتی کو نہ روکو۔‘ مہندی حسن کہتے ہیں کہ شاید پہلوان کو یہ لگا کہ یہ کشتی اور ہیلی کاپٹرز بحری قذاقوں کے ہیں۔عملے کے ایک رُکن نے بتایا کہ مسلح امریکی نیوی سیلز اور کوسٹ گارڈ کے اہلکاروں نے ’یونس‘ پر سوار ہونے کی کوشش کی اور اس دوران بہت دھینگا مشتی ہوئی۔ امریکی بحریہ نے بعد میں اس حوالے سے اپنے بیان میں بتایا کہ اس دوران سپیشل وار فیئر آفیسر کرسٹوفر چیمبرز اپنی گرفت کھو بیٹھے اور سپیشل وارفیئر آفیسر فرسٹ کلاس ناتھن گیج انگرام نے اُنھیں بچانے کی کوشش کی۔بیان کے مطابق دونوں اہلکاروں نے وزنی سازو سامان پہن رکھا تھا اور وہ لمحوں میں ڈوب گئے۔ بعد ازاں ایک رپورٹ کے مطابق دونوں کی لاشیں کبھی نہیں ملیں اور 10 روز بعد اُنھیں مردہ قرار دے دیا گیا۔ BBCامریکی فوج کے مطابق حوثی باغیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر اس واقعے سے چند ماہ پہلے سے ہی حملے جاری تھے۔ لیکن یہ امریکہ کی جانب سے قبضے میں لی گئی ایرانی اسلحے کی پہلی کھیپ تھی۔عدالت میں بتایا گیا کہ امریکی بحریہ کے جہاز پر منتقل کیے جانے سے قبل عملے کو دو روز تک ’یونس‘ پر ہی رکھا گیا، جہاں اُنھِیں دو گروپس میں تقسیم کر کے کنٹینرز میں رکھا گیا۔پہلوان نے عملے کو جھوٹ بولنے اور یہ کہنے کا حکم دیا کہ کپتان پہلے ہی بھاگ چکا ہے۔ عملے کے ایک رُکن اسلم حیدر نے عدالت کو بتایا کہ ’کپتان نے ہمیں کہا کہ انھیں کہو کہ میں کپتان نہیں ہوں، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو میں آپ کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہوں۔‘اُن کے بقول ’پہلوان نے ہمیں دھمکانا شروع کر دیا اور ہمارے بیوی اور بچوں کو مارنے کی بھی دھمکی دی، ہم بہت ڈر گئے اور خاموش ہو گئے۔‘بعدازاں امریکی اہلکاروں نے جہاز میں موجود عملے کے ہر رُکن سے الگ، الگ تفتیش کی۔ پہلوان سمیت جہاز میں موجود ہر شخص سے سوالات کیے گئے۔ امریکی استغاثہ کے مطابق پہلوان نے اس دوران بار بار جھوٹ بولا اور معاملات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔امریکی فوج کے مطابق حوثی باغیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر اس واقعے سے چند ماہ پہلے سے ہی حملے جاری تھے۔ لیکن یہ امریکہ کی جانب سے قبضے میں لی گئی ایرانی اسلحے کی پہلی کھیپ تھی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2015 اور 2023 کے درمیان، امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں نے بحیرہ عرب میں چھوٹی کشتیوں سے گولہ بارود، 365 اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل اور 29,000 سے زیادہ چھوٹے ہتھیار اور ہلکے ہتھیار قبضے میں لیے۔عام طور پر، سمگلر صومالیہ کے ساحل کے قریب سامان کی نقل و حمل کے لیے ڈھوز - ایک قسم کی چھوٹی کشتی، اکثر ماہی گیری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کی رپورٹ کے مطابق ایسی ہی کشتیوں کے ذریعے ہتھیار یمن کے جنوبی ساحلوں سے دُور ویران ساحلوں کی جانب بھیجے جاتے ہیں۔ جہاں پھر انھیں صحرا کے پار حوثیوں کے کنٹرول والے علاقوں میں سمگل کیا جاتا ہے۔US Department of Justiceکارگو میں یہ ایرانی ساختہ وار ہیڈ بھی شامل تھا، جسے بیلسٹک میزائل کا حصہ بنانا تھابرطانیہ کے تھنک ٹینک کونسل آن جیوسٹریٹیجی سے تعلق رکھنے والے ولیم فریر نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ حوثیوں کے زیادہ تر حملوں میں چھوٹے ہتھیار شامل ہوتے ہیں، پہلوان کے جہاز پر پائے جانے والے اجزا ’بہت زیادہ پیچیدہ ہیں۔‘اُن کے بقول حوثی باغیوں کے حملوں کی وجہ سے ’بہت جلد، زیادہ تر شپنگ کمپنیوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے کے بجائے اپنے تمام جہازوں کو، جہاں ممکن ہو، جنوبی افریقہ کے گرد ری ڈائریکٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘اُن کے بقول یہ لمبا چکر ہر ٹرپ میں تقریباً 10 سے 12 روز اضافی لیتا ہے اور اس میں ایندھن بھی زیادہ لگتا ہے۔ایران پر امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور سعودی عرب کا الزام ہے کہ وہ حوثیوں کو سمندری راستے سے میزائل اور دیگر ہتھیار سمگل کر رہا ہے۔ ایران ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔رواں برس پانچ جون کو پہلوان کو دہشت گردوں کی مالی مدد اور وسائل فراہم کرنے کی سازش کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ عدالت میں رحم کی آخری اپیل میں، پہلوان کے وکیل نے لکھا کہ پہلوان کے ساتھ شادی کی وجہ سے ان کی بیوی اپنے خاندان سے طویل عرصے سے الگ ہیں اور یہ کہ ان کی گرفتاری کے بعد سے، ان کی اور ان کے بچے کی زندگی ’انتہائی مشکل اور سخت‘ ہو گئی ہے۔ان کے وکیل نے کہا کہ ’جیوری کے فیصلے کے بعد سے پہلوان کی ٹیلی فون پر بات چیت میں سب سے زیادہ توجہ ان کے خاندان کی بھلائی ہے۔وہ اپنی یا اپنی قسمت کے بارے میں بات نہیں کرتے۔ وہ اس فکر سے روتے ہیں کہ ان کی بیوی اور بچے کا کیا بنے گا۔‘لیکن عدالت نے فیصلہ دیا کہ اس جرم کی سنگین نوعیت کے پیش نظر پہلوان کو دی گئی سزا مناسب ہے۔’خفیہ دستاویزات کی برآمدگی، چینی حکام سے ملاقاتیں اور گفٹ بیگ‘: امریکہ میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہونے والے انڈین نژاد شہری کون ہیں؟امریکی عہدیدار کے قتل کی ’ایرانی سازش‘: پاکستانی شہری آصف مرچنٹ کا الزامات سے انکارعالمی تجارت کے لیے ’خطرے کی علامت‘ بننے والے حوثی باغی کون ہیں اور وہ بحیرہ احمر میں جہازوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟عالمی تجارت کو ’نئے جھٹکے‘ کی وارننگ: بحیرہ احمر میں حوثی باغیوں کے حملے جو امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کو پریشان کر رہے ہیں؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

افغان طالبان سے دوحہ میں مذاکرات: پاکستانی وفد کی وزیرِ دفاع کی قیادت میں شرکت، افغان مذاکراتی وفد کی سربراہی ملا یعقوب کر رہے ہیں

’میں اسے مار کر دفنا دوں گا اور وہ کبھی ڈھونڈ نہیں پائیں گے‘: قتل کا مقدمہ جس میں لاش تو برآمد نہ ہوئی لیکن سزا سنا دی گئی

خواتین اور شراب کا شوق، کامیابی کی خواہش اور پاکستان سے آنے والا مہاجر: گاندھی کے قتل میں ملوث لوگ کون تھے؟

پاکستان کی گل بہادر کے ٹھکانوں پر حملوں کی تصدیق: ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور عسکریت پسند جو کبھی ٹی ٹی پی کا حصہ نہ بنا

نیوکلیئر ماحول میں جنگ کی کوئی گنجائش نہیں، فیلڈ مارشل کا بھارت کو سخت انتباہ

پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کو وعدوں پر عمل درآمد کے لیے ایک ماہ کا وقت دے دیا

خزانے کو ’سونے کے سکّوں‘ سے خالی کرنے اور طیارہ گرانے کا الزام: کیا ایران کے سابق صدر حسن روحانی اپنا اثر و رسوخ قائم رکھ پائیں گے؟

ابوظہبی میں ڈیجیٹل نکاح: دنیا کے کسی بھی کونے سے صرف 218 ڈالر میں شادی ممکن

’چلتا پھرتا مردہ‘: ماہی گیر کا رُوپ دھار کر ایرانی بیلسٹک میزائلوں کے پرزے یمن پہنچانے کا الزام، پاکستانی شہری کو 40 برس قید کی سزا

سپریم جوڈیشل کونسل اجلاس: ججز کیخلاف 70 شکایات مسترد، 3 کارروائی کیلئے منظور

افغانستان میں متعدد پاکستانی شہری ہلاک: ’مرنے والے سپین بولدک مزدوری کرنے جاتے تھے‘ مزدور تنظیم کا دعویٰ

’اگر دونوں دستی بم پھٹ جاتے تو میں آج زندہ نہ ہوتا‘: دوست کی جان بچانے والے بپن جوشی جو خود حماس کی قید میں ہلاک ہو گئے

پاک، افغان مذاکرات کا پہلا دور مکمل، پاکستان کا دہشت گرد گروپوں کے خاتمے پر زور

ڈر تھا کہ لوگ غلط سمجھیں گے۔۔ جمع تقسیم کے ذیشان اصلی زندگی میں کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تعلیم اور نجی زندگی سے متعلق چند باتیں

سستے تیل کے بدلے بڑا امتحان: روسی تیل انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے؟

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی