
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں بلاول ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا جس میں وفاقی حکومت کو بطور اتحادی مزید وقت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس میں ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال، سانحہ کارساز اور جمہوریت کے شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس@BBhuttoZardari pic.twitter.com/u0FRHrij8w— PPP (@MediaCellPPP) October 18, 2025
میڈیا سے گفتگو میں سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کا ساتھ دیا اور کسی قسم کی مراعات یا وزارتوں کا مطالبہ نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سازی کے وقت کیے گئے وعدوں پر تاحال عمل نہیں ہوا تاہم وفاقی حکومت کو ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ ایک ماہ بعد پارٹی کی سی ای سی اجلاس میں حکومتی کارکردگی کا جائزہ لے کر آئندہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
شیری رحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ دہشت گردی کی مخالفت کی ہے اور ملک کی مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔ سانحہ کارساز میں پارٹی کے کارکن ہماری ڈھال بنے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر تشویش ہے جبکہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے مسائل پر بھی پارٹی فعال کردار ادا کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری نے حالیہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کیے اور وفاقی حکومت نے ان کی تجاویز تسلیم کرتے ہوئے متاثرین کے بجلی کے بل معاف کیے۔ شیری رحمان نے مطالبہ کیا کہ کاشتکاروں کو گندم کے مناسب نرخ دیے جائیں اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے متاثرین کو امداد پہنچائی جائے۔
ندیم افضل چن نے کہا کہ پنجاب میں بجلی مہنگی ہونے سے انڈسٹریز بند ہو رہی ہیں جبکہ صوبائی حکومت نے وفاق کی ایمرجنسی پالیسی پر عمل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب سے گندم اور گنے کی قیمتوں کے حوالے سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے اس لیے ہم اپنے مطالبات پر قائم ہیں۔
اجلاس میں صدر آصف علی زرداری، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی، راجہ پرویز اشرف، سینیٹر رضا ربانی، سید قائم علی شاہ، مرتضیٰ وہاب، سعید غنی اور عبدالقادر پٹیل سمیت دیگر رہنما شریک ہوئے۔
شیری رحمان نے مزید کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران پارٹی کے تحفظات پیش کیے جن پر وزیراعظم نے یقین دہانیاں کرائیں اور عمل درآمد کے لیے وقت مانگا۔ پارٹی ایک ماہ بعد دوبارہ جائزہ لے گی کہ وعدوں پر کتنا عمل ہوا۔