
BBCپنجاب کے دارالحکومت لاہور سمیت سیلاب نے پاکستان کے مختلف دیہی اور شہری علاقوں کو متاثر کیا ہےامدادی کارکنوں اور رشتہ داروں نے ایک سالہ زارا کی لاش کی تلاش میں کوئی کسر نہ اٹھا چھوڑی۔ وہ گھٹنوں گھٹنوں پانی میں اتر کر اسے تلاش کرتے رہے۔زارا اچانک آنے والے سیلاب میں بہہ گئی تھی جبکہ اس کے والدین اور تین بہن بھائیوں کی لاشیں چند دن پہلے ہی مل چکی تھیں۔زارا کے دادا ارشد نے اگست میں پاکستان میں شمالی پنجاب کے گاؤں سمبڑیال میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے متاثرہ ایک کچی سڑک دکھاتے ہوئے بتایا: ’ہم نے اچانک بہت سا پانی آتے دیکھا۔ میں چھت پر چڑھ گیا اور انھیں بھی اوپر آنے کے لیے کہا۔‘ان کا خاندان چھت پر پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ پانی کے تیز دھارے میں گھر کے باقی چھ افراد بہا گئے۔ہر سال پاکستان میں مون سون کے موسم کے دوران تباہ کن سیلاب آتے ہیں۔رواں سال بارشوں کا آغاز جون کے آخر میں ہوا تھا اور تین ماہ کے اندر سیلاب نے بہت سی جانیں لے لیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے اوچا (او سی ایچ اے) کے مطابق اس سیلاب میں کم از کم 69 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔جنوبی ایشیا کا یہ ملک (پاکستان) عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں صرف ایک فیصد حصہ ڈالتا ہے، مگر ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات بھگت رہا ہے۔ان اثرات کو دیکھنے کے لیے بی بی سی نے تین ماہ تک شمال کے پہاڑوں سے لے کر جنوب کے میدانوں تک سفر کیا۔ ہر صوبے میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات مختلف نظر آئے۔ مگر ایک بات سب میں مشترک تھی اور وہ یہ کہ ان میں سب سے زیادہ نقصان غریب طبقے کو ہوا۔ہم نے ایسے لوگوں سے ملاقات کی جن کے گھر، روزگار اور عزیز و اقارب سب کچھ چھن گئے تھے، اور وہ اگلے مون سون میں دوبارہ اسی سب سے گزرنے کے لیے تیار نظر آئے۔Getty Imagesہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے بلند پہاڑوں میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز ہیںجھیلوں کا پھٹنا اور فلیش فلڈمون سون کے سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر شمالی علاقے ہوئے، جہاں عالمی حدت نے اپنی سب سے نمایاں صورت گلگت بلتستان میں دکھائی۔ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے بلند پہاڑوں میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز ہیں جو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے پگھل رہے ہیں۔ان کے پگھلے ہوئے پانی جھیلوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، جو اچانک بند توڑ کر باہر نکل سکتے ہیں جس سے ہزاروں دیہات خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔حالیہ گرمیوں میں ان کی وجہ سے سینکڑوں گھر تباہ ہو گئے اور سڑکیں لینڈ سلائیڈنگ اور اچانک آنے والے سیلابوں (فلیش فلڈ) سے متاثر ہوئیں۔ایسے ’گلیشیرز سے بنی جھیل کے پھٹنے‘ اور ان سے آنے والے سیلاب کی پیشگی اطلاع دینا مشکل ہے۔ یہ علاقے دور افتادہ ہیں جہاں رسائی مشکل ہے اور موبائل سروس ناقص ہے۔ پاکستان اور عالمی بینک ابتدائی انتباہی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر پہاڑی خطہ اکثر ان میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ایسے میں برادرانہ تعاون کا جذبہ ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوتا ہے۔ وصیت خان جب پانی کی زور دار گونج سے جاگے، تو وہ بہتر سگنل والے مقام کی طرف بھاگے اور جتنے زیادہ لوگوں کو ہو سکا، انھوں نے اس سیلاب سے خبردار کیا۔انھوں نے بی بی سی اردو کے محمد زبیر کو بتایا: ’میں نے سب کو کہا کہ اپنا سامان چھوڑ دو، گھر چھوڑ دو، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو لے کر فوراً نکل جاؤ۔‘ کہتے ہیں کہ وصیت خان کے بروقت انتباہ کی بدولت درجنوں لوگ بچ گئے۔شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا میں خطرہ ایک مختلف صورت میں سامنے آیا۔ گدون میں بی بی سی نے سینکڑوں گاؤں والوں کو ہاتھوں سے پتھروں کے ڈھیر کو کھودتے دیکھا۔ایک مقامی اہلکار نے بتایا کہ علی الصبح ایک بادل پھٹنے سے اچانک سیلاب آیا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب نم اور مرطوب ہوا میں اچانک ابھار سے محدود علاقے میں شدید بارش برستی ہے۔ اس فلیش فلڈ نے کئی گھر بہا دیے اور لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بنے۔اردگرد کے دیہات کے مرد مدد کے لیے دوڑے، ان کی کوششیں قیمتی مگر ناکافی تھیں ۔ کھدائی کی بھاری مشینیں جن کی اشد ضرورت تھی، بند سڑکوں میں پھنس گئی تھیں۔ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا: ’جب تک مشینیں نہیں پہنچتیں، کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔‘پھر اچانک ایک خاموشی چھا گئی۔ درجنوں مرد ایک کونے میں ساکت کھڑے تھے۔ دو بچوں کی لاشیں، جو گہرے کیچڑ میں لتھڑی ہوئی تھیں، ملبے کے نیچے سے نکال کر لے جائی جا رہی تھیں۔ایسے مناظر پورے صوبے میں دیکھنے کو ملے، جہاں درخت اکھڑنے اور بنیادی ڈھانچے کے تباہ ہونے کی وجہ سے امداد میں تاخیر ہوئی۔ ایک امدادی ہیلی کاپٹر بھی خراب موسم کے باعث گر کر تباہ ہو گيا اور اس پر سوار تمام ارکان ہلاک ہو گئے۔BBCخیبرپختونخوا کے گاؤں گدون میں سیلاب کئی مکانات کو بہا لے گئے جس کے بعد امدادی کارکن اور گاؤں والے زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کر رہے ہیںپاکستان کے سیلابی میدانوں پر تعمیراتدیہات اور شہروں میں لاکھوں لوگ دریاؤں اور نالوں کے کنارے آباد ہیں، جو سیلاب کے خطرے والے علاقے ہیں۔ پاکستان کا ریور پروٹیکشن ایکٹ دریاؤں یا ان کی شاخوں سے 200 فٹ (61 میٹر) کے اندر تعمیر پر پابندی عائد کرتا ہے، مگر بہت سے لوگوں کے لیے کہیں اور آباد ہونا ممکن نہیں۔غیر قانونی تعمیرات نے صورتِ حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ماحولیاتی سائنس دان فہد سعید اس کی ذمہ داری مقامی بدعنوانی پر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکام قانون پر عمل درآمد میں ناکام رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے اسلام آباد میں ایک نامکمل چار منزلہ کنکریٹ کی عمارت کے سامنے بات کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ یہ عمارت ایک نالے کے کنارے تعمیر ہو رہی تھی، وہی نالہ جو اس سال گرمیوں میں طغیانی کے دوران ایک بچے کی جان لے گیا۔انھوں نے مایوسی کے ساتھ کہا کہ ’پارلیمنٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر بھی ایسے کام ہو رہے ہیں۔ یہ بدانتظامی ہے، حکومت کا کام نگرانی کرنا ہے۔‘سابق وزیرِ موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن، جو سینیٹ کی ماحولیاتی کمیٹی کی سربراہ ہیں، اسے ’رشوت ستانی‘ یا اجازت نامے جاری کرتے وقت ’آنکھیں بند کر لینا‘ قرار دیتی ہیں۔پنجاب میں سیلابی صورت حال: کون سے علاقے زیادہ متاثر، اونچے یا درمیانے درجے کا سیلاب کیا ہوتا ہے؟’اوپر کوبرا تھا اور نیچے 10 فٹ پانی‘: سیلاب سے بچاؤ کے لیے 24 گھنٹے درخت پر گزارنے والے شخص کی کہانی’سامان چھوڑو، بیوی بچوں اور بوڑھوں کو لے کر نالے سے دور ہوجاؤ‘: چرواہے کی گلیشیئر جھیل پھٹنے کی اطلاع جس نے گلگت بلتستان میں درجنوں جانیں بچائیںجب کوئٹہ میں رنگ برنگے بادلوں کے سبب ’میزائل تجربے‘ کی افواہیں پھیلیںBBCپاکستان میں دریاؤں کے قریب تعمیرات پر پابندی کے قوانین موجود ہیں لیکن اس کی پاسداری کم ہو پاتی ہےملک کی زرعی اراضی پانی میں ڈوب گئیاگست کے آخر تک صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں سیلاب سے 4,500 دیہات زیرِ آب آ گئے جس نے پاکستان میں ’اناج پیدا کرنے کے مرکز‘ کو مفلوج کر دیا اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جو اکثر خوراک درآمد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔پہلی بار تین دریاؤں ستلج، راوی اور چناب میں ایک ساتھ طغیانی آ گئی جس کے نتیجے میں کئی دہائیوں کا سب سے بڑا ریسکیو آپریشن شروع کرنا پڑا۔قومی آفات سے نمٹنے کے ادارے (این ڈی ایم اے) کے چیف رسک آفیسر سید محمد طیّب شاہ نے کہا: ’یہ سب سے نمایاں غیر معمولی واقعہ تھا۔‘پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں امیر اور غریب طبقوں پر اس کے اثرات بالکل مختلف تھے۔ راوی دریا کی طغیانی میں پارک ویو سٹی، جو ایک محفوظ اور پوش علاقہ سمجھا جاتا ہے، زیرِ آب آ گیا۔ اس کی خوبصورت گلیاں ناقابلِ گزر ہو گئیں، اور عالی شان گھروں کے رہائشیوں کو علاقہ خالی کرنا پڑا۔نقصان کا جائزہ لیتے ہوئے دو مقامی افراد عبداللہ اور ان کے والد گلریز پُر اعتماد تھے کہ پانی جلد نکال دیا جائے گا، کیونکہ علاقے کے پراپرٹی ڈویلپر علیم خان وفاقی وزیر ہیں۔گلریز نے بی بی سی کو بتایا: ’کوئی مسئلہ نہیں، علیم خان کر لیں گے۔‘لیکن غریب بستی ’تھیم پارک‘ کے رہائشیوں کے لیے یہ سیلاب تباہ کن ثابت ہوا۔ ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں بار بار ان لوگوں کو بچانا پڑا جو پانی کم ہوتے ہی اپنے گھروں کی طرف تیر کر واپس جاتے، تاکہ جو کچھ بچ سکتے ہیں، بچا لیں۔ مگر پھر پانی دوبارہ بڑھ جاتا اور وہ پھنس جاتے۔BBCلاہور کے تھیم پارک محلے میں موجود سمیرا کا گھر پانی میں ڈوب گیا۔ وہ اپنے بیٹے عرش کے ساتھ ایک خیمے میں رہ رہی ہیں جبکہ ان کے ہاں جلد ہی ایک اور ولادت متوقع ہےہم نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے گھر سے واپس آ رہا تھا، اور اس کی کمر کے ساتھ ربڑ کی ٹیوب بندھی ہوئی تھی۔کچھ متاثرین کو الخدمت فاؤنڈیشن کی طرف سے فراہم کردہ خیموں میں منتقل کیا گیا تھا۔ گرمیوں کی تپش میں ایک خیمے کے باہر بیٹھی سمیرا کے ہاں چند ہفتوں میں بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ وہ بہت کمزور نظر آ رہی تھی۔سمیرا نے اپنے ننھے بیٹے عرش کو سنبھالتے ہوئے کہا: ’ڈاکٹر کہتا ہے اس ہفتے مجھے دو خون کی بوتلیں لگیں گی۔‘قریب ہی علی احمد اپنے کندھے پر ایک چھوٹا سا بلی کا بچہ بٹھائے کھڑا تھا۔ وہ ان چند خوش نصیب بچوں میں سے تھا جن کے پاس سونے کے لیے بستر موجود تھا۔اقوامِ متحدہ کے مطابق، مون سون کے اختتام تک صرف پنجاب میں ہی 27 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے اور 10 لاکھ ہیکٹر سے زیادہ زرعی زمین متاثر ہوئی۔مزید جنوب میں جائیں تو آپ کو ملتان ملتا ہے جو ہمیشہ سیلاب سے بری طرح متاثر رہتا ہے۔ وہاں انسانی بحران کی شدت اور واضح نظر آتی ہے۔ جب بی بی سی کا گزر وہاں سے ہوا تو کچی سڑکوں اور شاہراہوں کے کنارے خیمے قطار میں لگے نظر آئے۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولتوں تک رسائی پہلے ہی ایک مسئلہ تھی، لیکن سیلاب کے بعد یہ مسئلہ خاص طور پر خواتین کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گیا۔بی بی سی اردو کی ترہب اصغر دو خواتین سے ملیں جو نو ماہ کی حاملہ تھیں۔ ایک ڈاکٹر نے انھیں خبردار کیا تھا کہ وہ مناسب پانی نہیں پی رہی ہیں۔ انھوں نے اپنی بوتل دکھا کر وضاحت کی کہ وہ کیوں پانی نہیں پی رہی ہیں کیونکہ پانی مکمل طور پر گدلا تھا۔BBCیاسمین لاری نے ایسے گھر بنائے ہیں جو ان کے بقول موسمیاتی تبدیلی کے لیے موزوں ہیںمختلف قسم کے حل کی تلاشکچھ لوگ سیلاب سے نمٹنے کے لیے مختلف قسم کے حل آزما رہے ہیں۔یاسمین لاری نے درجنوں ایسے گھر بنائے جنھیں وہ ’ماحولیاتی تبدیلی سے محفوظ گھر‘ کہتی ہیں۔ حیدرآباد کے قریب پونو گاؤں میں خواتین نے بی بی سی کو وہ جھونپڑیاں دکھائیں جو انھوں نے خود بنائی تھیں۔ یہ لکڑی کے ستونوں پر کھڑا ایک گول، کشادہ ڈھانچہ تھا۔ ڈاکٹر لاری اسے تربیتی مرکز کہتی ہیں، جہاں لوگ اپنا سامان منتقل کر کے پناہ لے سکتے ہیں۔لیکن ڈاکٹر لاری کے مطابق، پورا گاؤں ستونوں پر بنانا ممکن نہیں اور بہت مہنگا ہے۔ ان کے مطابق، ان کے ڈیزائن ایسے ہیں کہ چھتیں گرنے سے محفوظ رہیں، اور بانس اور چونے کے گارے جیسے قدرتی مواد استعمال کر کے گاؤں والے خود اپنے گھروں کو جلدی دوبارہ بنا سکیں۔انھوں نے کہا کہ ’پاکستان اب ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں بات عمارتوں کو بچانے کی نہیں، زندگیوں کو بچانے کی ہے۔‘یہی پاکستان کی زمینی حقیقت ہے۔ بی بی سی سے بات کرنے والے تمام ماہرینِ ماحولیات اور سیاست دان اس بات پر متفق ہیں کہ مستقبل مزید خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔این ڈی ایم اے کے سید محمد طیّب شاہ نے کہا: ’ہر سال مون سون زیادہ طاقتور اور بے قابو ہوتا جائے گا۔ ہر سال ہمارے لیے ایک نیا حیران کن امتحان آئے گا۔‘ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے روز افزوں اور بدلتے ہوئے مسائل کے درمیان غریب لوگ انہی گھروں کی جانب واپس ہو رہے ہیں جہاں اگلے سال پھر سے ڈوبنے کا خطرہ ہے۔ ان مسائل سے سب سے زیادہ متاثر غریب طبقہ ہوتا ہے لیکن ان کا کہنا ہے: ’میرے پاس جانے کے لیے اور کوئی جگہ نہیں۔‘’اوپر کوبرا تھا اور نیچے 10 فٹ پانی‘: سیلاب سے بچاؤ کے لیے 24 گھنٹے درخت پر گزارنے والے شخص کی کہانیسلال ڈیم: کیا انڈیا کے ڈیمز پنجاب کے دریاؤں میں دوبارہ سیلاب کا باعث بن سکتے ہیں؟’سکینہ کے خاندان میں کوئی مرد نہیں بچا، ایک نسل دفن ہو گئی‘: کشمیر اور خیبر پختونخوا میں سیلاب سے کئی گھر اجڑ گئےخیبر پختونخوا میں سیلاب کی تباہ کاری سے ہلاکتیں 300 سے زائد: ’گھر والوں سے فون پر کہا کہ گھر سے نکل جاؤ مگر جب وہاں پہنچا تو کُچھ باقی نہیں بچا تھا‘پنجاب میں سیلاب: ایک ہی خاندان کے چھ افراد کی ہلاکت اور گاڑی میں تین بچوں کا جنمسیلابی ریلوں کی آمد کے باعث چناب اور راوی دریاؤں کے بہاؤ میں اضافہ، ملحقہ علاقوں میں انخلا جاری