
Bipin Tankaria/BBCبی بی سی گجراتی سے گفتگو کرتے ہوئے بِلّو بھائی بلوچ نے کہا کہ ’یہ کپڑے میں نے بلوچستان سے منگوائے ہیں‘جوناگڑھ کی ایک نامور کمپنی کے کار شو روم میں کام کرنے والے عبدالغفار بلوچ عام طور پر ٹی شرٹ اور پینٹ پہنتے ہیں۔ وہ کاٹھیاواڑی لہجے میں گجراتی بولتے ہیں۔ اپنے حلقے میں وہ بِلّو بھائی بلوچ کے نام سے زیادہ جانے جاتے ہیں۔ان کے گھر کی دیواروں پر ان کے مذہب کی نشانیاں نمایاں ہیں، لیکن ان کے لباس اور گفتگو سے کوئی اجنبی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ نرم مزاج ادھیڑ عمر بلوچ مسلمان ہیں۔ یہی بات ان کی اہلیہ ثمینہ بی بی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔گاڑیوں کے باڈی ورک کے کاریگر اور ان کی اہلیہ کو اپنی الماری میں رکھے گئے پانچ جوڑوں کپڑوں سے خاص لگاؤ ہے۔ ان میں بارہ فٹ لمبے نیفے والا پاجامہ، اس کے اوپر پہنا جانے والا کرتا اور بندی اور بیس فٹ سے بھی زیادہ لمبی پگڑی۔بی بی سی گجراتی سے گفتگو کرتے ہوئے بِلّو بھائی بلوچ نے کہا کہ ’یہ کپڑے میں نے بلوچستان سے منگوائے ہیں۔ یہ بلوچستان میں رہنے والے بلوچوں کا روایتی لباس ہے۔ مجھے یہ پہننا پسند ہے اور میں خاص مواقع پر اسے زیب تن کرتا ہوں۔ جوناگڑھ میں رہنے والے کئی دوسرے بلوچ بھی اس لباس کو پسند کرتے ہیں اور اکثر مجھ سے لے کر خوشی کے مواقع پر پہنتے ہیں۔‘سنہ 1880 کی دہائی میں جب قادر بخش المعروف 'قادو مکرانی‘ نے جوناگڑھ کے نواب کے خلاف بغاوت کی تو ان کے ساتھیوں میں ایک جمعدار غلام محمد بھی تھے۔ بِلّو بھائی بلوچ اسی جمعدار غلام محمد کے پڑپوتے ہیں۔بِلّو بھائی کہتے ہیں کہ ’گذشتہ دس بارہ برسوں سے میں یہ کوشش کر رہا ہوں کہ جوناگڑھ میں رہنے والے بلوچ اپنی اصل ثقافت سے جڑے رہیں۔‘جوناگڑھ کا نوابی دور اور بلوچ جنگجوBipin Tankaria/BBCسنہ 1880 کی دہائی میں قادر بخش المعروف ’قادو مکرانی‘ نے جوناگڑھ کے نواب کے خلاف بغاوت کیجوناگڑھ میں مقیم مؤرخ ڈاکٹر پردھومنا کھچر کا کہنا ہے کہ بلوچستان اس وقت پاکستان کا ایک خطہ ہے اور وہاں کے لوگ بلوچ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ بلوچستان کے صوبہ مکران کے لوگ مکرانیوں کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ چونکہ قادربخش کا خاندان بھی مکران سے ہے، اس لیے وہ قادو مکرانی کے نام سے مشہور ہیں۔ان کے مطابق ’مکرانی اور بلوچ نہایت جَذباتی مزاج اور لڑاکا فطرت کے حامل تھے۔ اسی وجہ سے ہندوستان میں کم از کم ایک ہزار برس سے، یعنی خلجی، مغل، مرہٹے، برطانوی اور سوراشٹر-گجرات کی مقامی ریاستوں نے اپنی فوج اور پولیس میں انہیں شامل رکھا تھا۔‘ڈاکٹر کھاچر مزید کہتے ہیں کہ ’ان کا بنیادی کام چوکیداری، حفاظت اور فوج و پولیس میں خدمات انجام دینا رہا۔ وہ کس قدر وفاداری سے کام کرتے تھے، اس کی بہترین مثال ہمیں قادو مکرانی کے واقعے سے ملتی ہے۔ قادو مکرانی خواتین کے احترام کے قائل تھے اور غریب لوگوں کو پریشان نہ کرنے کے جذبے سے وابستہ تھے۔ یہ دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ یہ ایک خوددار برادری ہے۔‘ڈاکٹر کھاچر کا کہنا ہے کہ مکرانی لوگ سوراشٹر میں جوناگڑھ کے علاوہ جام نگر، بھاونگر، دھرانگدھرا اور دیگر شاہی ریاستوں میں بھی ملازمتیں کرتے تھے۔نواب آف جوناگڑھ کے خلاف بغاوتBillu Blochبِلّو بھائی بلوچ جمعدار غلام محمد کے پڑپوتے ہیںزویَرچند میگھانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’تقریباً 1840-50 کے دوران جوناگڑھ کے نواب کی فوج میں شامل عربوں نے بغاوت کی تو دو غیر ملکی مکرانیوں نے ان عربوں کو پکڑنے کا بیڑا اٹھایا۔‘میگھانی کے مطابق ’مکرانیوں نے ان عربوں کا سراغ لگایا۔ عربوں نے لوٹ کے سامان میں سے آدھا حصہ دینے کا لالچ دیا، لیکن مکرانیوں نے اسے قبول نہ کیا اور نواب کے وفادار رہے۔ نتیجتاً ایک جھڑپ ہوئی۔ اس میں کچھ مکرانی مارے گئے، لیکن عربوں کو لوٹ کے مال سمیت گرفتار کرنے میں مکرانی کامیاب رہے۔‘ان کی اس بہادری کے صلے میں نواب نے مکرانیوں کو ایک گاؤں جاگیر میں عطا کیا۔ آج یہی گاؤں گِیر سومناتھ ضلع کے کلکٹر اور پولیس سربراہ کے دفاتر کا مرکز ہے۔کتاب میں درج ہے کہ گاؤں ملنے کے بعد مکرانی جمعداروں نے اپنے رشتہ داروں کو مکران سے بلا لیا۔ ان میں جمعدار علی محمد اور ولی محمد بھی شامل تھے، جو مکران میں حکمرانی کرنے والے رِند قبیلے کے افراد تھے۔سنہ 1881 میں جب مردم شماری شروع ہوئی تو جمعدار علی محمد اور ولی محمد کو شبہ ہوا کہ یہ ’فرنگی‘ حکومت کا کوئی فریب ہے۔ اس لیے انھوں نے مردم شماری کی مخالفت کی۔ تاہم لوگوں کی سمجھانے پر آخرکار مردم شماری کا کام مکمل ہوا۔میگھانی لکھتے ہیں کہ ایک اندرونی جھگڑے کے بعد جب پولیس اور مجسٹریٹ تحقیقات کے لیے گاؤں آئے تو مکرانیوں نے انھیں اندر داخل ہونے نہ دیا۔ معاملہ بگڑ گیا، اور مکرانیوں کو گاؤں خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن جب انھوں نے انکار کیا تو نواب نے فوج بھیجنے کا حکم دیا۔ اس پر جمعدار علی محمد، قادر بخش اور دیگر مکرانی فوج کے مقابلے کے لیے پہنچ گئے۔قادو مکرانی اور شیر کے بچوں کا تحفہ Bipin Tankaria/BBCبہادری کے صلے میں نواب نے مکرانیوں کو ایک گاؤں جاگیر میں عطا کیازویَرچند میگھانی لکھتے ہیں کہ قادو مکرانی ایک گاؤں کے محافظ سپاہی تھے۔ انھوں نے شیر کے دو بچوں کو زندہ پکڑ کر نواب کو تحفے میں دیا، جس پر نواب نے انھیں امرپور میں 40 ایکڑ زمین عطا کی۔میگھانی کے مطابق ’جب فوج کے مقابلے میں کئی مکرانی مارے گئے تو قادو مکرانی نے حالات کو دیکھتے ہوئے جمعدار علی محمد سے کہا کہ موت کو گلے لگانے سے مکرانیوں کی بدنامی ہوگی۔‘اسی سوچ کے تحت قادو مکرانی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ گاؤں سے نکل گئے اور 1881-82 میں جوناگڑھ ریاست کے خلاف بغاوت پر اتر آئے۔میگھانی لکھتے ہیں کہ قادو مکرانی اور ان کے ساتھیوں نے سورٹھ کے کئی گاؤں اجاڑ دیے اور آخرکار وہ کراچی پہنچے۔ کراچی سے مکران جانے کے لیے انھوں نے ایک اونٹ کرائے پر لیا، لیکن اونٹ والے نے پولیس کو خبر دے دی اور یوں وہ گرفتار ہو گئے۔ڈاکٹر کھاچر کے مطابق قادو مکرانی کو سنہ 1887 میں کراچی میں پھانسی دی گئی۔قادو مکرانی کی گرفتاری کے بعد ان کے کئی ساتھی بھی پکڑے گئے، جن میں ایک جمعدار غلام محمد تھے۔ غلام محمد جمعدار اس وقت صرف 14 برس کے تھے۔ انھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی، لیکن ان کی کم عمری دیکھ کر نواب نے سزا کو عمر قید میں بدل دیا۔ بعد میں ان کی سزا معاف کر دی گئی اور نواب نے غلام محمد جمعدار کو جنگلات کے محکمے میں ملازمت دے دی۔قادو مکرانی، جو انگریزوں کی حمایت کرنے والوں کی ناک کاٹ ڈالتااپنی ماں کا قاتل رحمان ڈکیت، جس نے بھتے اور منشیات سے کمائی دولت سے ایران تک میں جائیدادیں خریدیںکیا خان آف قلات بلوچستان کو انڈیا کا حصہ بنانا چاہتے تھے؟فقیر ایپی: جنگِ آزادی کا ’تنہا سپاہی‘ جس نے پاکستان بننے کے بعد علیحدہ مملکت کا اعلان کیاBipin Tankaria/BBCجہانگیر بلوچ کے مطابق گجرات کے 34 اضلاع میں سے 32 میں بلوچ برادری کے لوگ رہتے ہیںمکرانی برادری اب جوناگڑھ میں کیا کر رہی ہے؟جہانگیر بلوچ گجرات حکومت میں منتظم کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ جہانگیر بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچوں کی آمد ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں سات سو سے آٹھ سو برس پہلے شروع ہوئی تھی۔ان کے مطابق سب سے پہلے گجرات میں جام نگر کے راجاؤں نے ان پر بھروسہ کیا۔بی بی سی گجراتی سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر بلوچ نے کہا ’جام صاحب نے ہمارے لوگوں کو بلا کر اچھے عہدے دیے۔۔ انھیں سپہ سالار بنایا، نائب سپہ سالار بنایا، صوبیدار بنایا اور بعض گاؤں کے جاگیردار بھی بنے۔‘انھوں نے مزید کہا جام صاحب کی اہلیہ کو جوناگڑھ کے نواب نے منھ بولی بہن بنایا تھا۔ ’اس رشتے کے سبب جب نواب کو یہ بات معلوم ہوئی تو بلوچستان کے مکران علاقے سے ایک بڑا گروہ جوناگڑھ آیا اور نواب کی حفاظت، سلامتی اور وفاداری کے لیے یہاں آباد ہوا۔ جام نگر اور جوناگڑھ میں ہماری برادری تقریباً ساڑھے چار سو برس پہلے آئی تھی۔‘جہانگیر بلوچ کے مطابق گجرات کے 34 اضلاع میں سے 32 میں بلوچ برادری کے لوگ رہتے ہیں اور ان کی آبادی تقریباً دس لاکھ ہے۔ سب سے زیادہ آبادی جام نگر، جوناگڑھ، گِیر سومناتھ، پاٹن، سابر کانٹھا اور بناس کانٹھا اضلاع میں ہے۔ان کا کہنا ہے ’ہم سب یہاں آنے کے بعد جہاں روزگار ملا وہاں بس گئے اور مقامی ثقافت کے ساتھ گھل مل گئے۔ گجرات میں ہیں تو گجراتی بولتے ہیں اور مہاراشٹر میں مراٹھی۔ آج ہمارے سماج کے کئی لوگ پولیس میں ہیں۔ ہماری برادری زیادہ تر کھیتی اور مویشی پالنے کے کام سے جڑی ہے، لیکن تعلیم یافتہ بھی ہے۔ جام نگر جیسے بڑے شہروں میں آپ کو ہمارے سماج کے پچاس پچاس وکیل ملیں گے، جن میں خواتین وکیل بھی شامل ہیں۔‘ڈاکٹر کھچر کہتے ہیں کہ گجراتی شاعر شیونی پالنپوری بھی بلوچ تھے۔ اس کے علاوہ کچھ بلوچ رہنما جام نگر اور گر سومنات اضلاع میں بھی ایم ایل اے بن چکے ہیں۔جوناگڑھ کے بلوچ فلم ’دھورندھر‘ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟Bipin Tankaria/BBCبلو بھائی کہتے ہیں کہ ’ہماری برادری اپنی وفاداری اور بہادری کے لیے جانی جاتی ہے، تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ بلوچوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا؟‘فلم ’دھورندھر‘ میں سنجے دت نے چوہدری اسلم نامی پاکستانی پولیس افسر کا کردار ادا کیا ہے اور ایک ڈائیلاگ میں کہتے ہیں کہ ’انھیں مگرمچھ پر بھروسہ کرنا چاہیے لیکن بلوچ پر نہیں۔‘بلو بھائی اور ان کی اہلیہ ثمینہ بین کا کہنا ہے کہ ’دھورندھر‘ میں ان کی برادری کی تصویر کشی مناسب نہیں ہے۔ بلو بھائی کہتے ہیں کہ ’ہماری برادری اپنی وفاداری اور بہادری کے لیے جانی جاتی ہے، تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ بلوچوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا؟‘گل محمد جمعدار کے ورثا نے سنہ 1973 میں قادو مکرانی کے بارے میں گجراتی فلم میں ان کے خاندان کی تصویر کشی پر بھی احتجاج کیا۔ جہانگیر بلوچ کا کہنا ہے کہ ایسا بیان ’ان کے معاشرے کی توہین‘ ہے۔اس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’فلم کی تصویر کشی میں بہت سی فرضی باتیں ہیں۔ بلوچوں نے کبھی پاکستانی حکومت کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ وہ 1947 سے پاکستانی حکومت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اب بھی لڑ رہے ہیں۔ جنھوں نے سب سے زیادہ دہشت گردوں کو ختم کیا اور ان کا سب سے زیادہ سامنا کیا وہ ہماری بلوچ مکرانی برادری ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’اس فلم میں بلوچوں کو پسماندہ پیش کیا گیا ہے، وہ جعلی کرنسی نوٹ بناتے ہیں، وہ دہشت گردوں کو ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں کمتر کے طور پر پیش کرنے کی کوششوں کے خلاف ہیں۔‘Bipin Tankaria/BBCڈاکٹر پردیومن کھچر بھی فلم 'دھورندھر' میں بلوچ کمیونٹی کے لیے بولے گئے مکالموں سے ناراض ہیںجوناگڑھ کے ایک وکیل اعجاز مکرانی کا کہنا ہے کہ ’دھورندھر‘ کے ڈائیلاگ کی وجہ سے بلوچ مکرانی برادری میں غصہ ہے۔انھوں نے بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ ’اگر ہم بلوچ مکرانی برادری کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایسا کبھی نہیں ہوا جب بلوچ برادری نے کسی کا اعتماد توڑا ہو یا کوئی تنازع پیدا کیا ہو۔‘ڈاکٹر پردیومن کھچر بھی فلم ’دھورندھر‘ میں بلوچ کمیونٹی کے لیے بولے گئے مکالموں سے ناراض ہیں۔ ڈاکٹر کھچر کا کہنا ہے کہ ’یہ گروہ جوناگڑھ، جام نگر، بھاو نگر، دھرانگدھرا، گر وغیرہ کی ریاستوں میں کام کرتا تھا، لیکن جب سے قادو مکرانی کو نکالا گیا تو اس وقت برطانوی حکومت نے ان مکرانی اور بلوچوں کے ساتھ طویل عرصے تک بہت ظلم کیا۔‘’قادو مکرانی نے جوناگڑھ کی پوری نواب حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کے بعد بہت سے شہزادے مکرانیوں سے خوفزدہ بھی ہو گئے تھے۔ اس لیے میرے خیال میں فلم میں ایسی وفادار اور جنگجو برادری کو ایسے الفاظ سے مخاطب کرنا مناسب نہیں ہے۔‘’یہ لوگ سوراشٹر کی تمام شاہی ریاستوں میں اپنی ملازمتیں بڑی وفاداری سے کرتے تھے۔‘قادو مکرانی، جو انگریزوں کی حمایت کرنے والوں کی ناک کاٹ ڈالتااپنی ماں کا قاتل رحمان ڈکیت، جس نے بھتے اور منشیات سے کمائی دولت سے ایران تک میں جائیدادیں خریدیںلیاری گینگ وار: عالمی کھلاڑیوں کے علاقے میں موت کے کھلاڑی کیسے پیدا ہوئے؟کیا خان آف قلات بلوچستان کو انڈیا کا حصہ بنانا چاہتے تھے؟فقیر ایپی: جنگِ آزادی کا ’تنہا سپاہی‘ جس نے پاکستان بننے کے بعد علیحدہ مملکت کا اعلان کیاجب بغاوت کے الزام کے تحت خان آف قلات کی گرفتاری کے لیے بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوا