
Getty Imagesپاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک میں بسنے والے 20 لاکھ سے زائد افعان باشندوں کو مرحلہ وار ان کے ملک واپس بھیجنے سے متعلق پالیسی پر عملدرآمد کے حوالے سے اسلام آباد انتظامیہ سمیت چاروں صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کر دی ہیں اور انھیں اس ضمن میں ضروری اقدامات کرنے کے بارے میں بھی کہا ہے۔وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ سمیت چاروں صوبائی حکومتوں سے ان علاقوں میں رہنے والے افغان باشندوں کی تعداد اور ان کے تازہ ترین سٹیٹس سے متعلق بھی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔اس کے علاوہ متعقلہ صوبائی حکومتوں سے جیلوں کے علاوہ ان ممکنہ مقامات کی نشاندہی کرنے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے جہاں پر پہلے مرحلے میں31 مارچ کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد پاکستان میں رہ جانے والے افغان باشندوں کو رکھا جائے گا۔ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق 31 مارچ تک ان افغان باشندوں کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے گا جن کے پاس افغان سیٹیزن کارڈ ہیں۔یہ کارڈ پاکستانی حکومت نے ان افغان شہروں کو جاری کیے تھے اور حکومت کے پاس ان افغان شہروں کے تمام کوائف بھی موجود ہیں۔وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس ائی کے علاوہ انٹیلیجنس بیورو کو ذمہ داری سونپی گئی ہے جو اس پالیسی پر عملدرآمد سے متعلق رپورٹ وزیر اعظم سیکرٹریٹ کو بھیجا کریں گے۔واضح رہے کہ اس وقت سب سے زیادہ افغان باشندے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ہیں۔Getty Imagesپاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ 31 مارچ کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز غیر قانونی تصور ہوں گے’پولیس نے مقررہ ڈیڈ لائن سے پہلے ہی پکڑ دھکڑ شروع کر دی‘افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈر محمد عبداللہ اسلام آباد کی سبزی منڈی میں اڑہت کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جوں جوں پاکستان سے افغان باشندوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کی ڈیڈ لائن قریب آ رہی ہے، ان کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ گذشتہ 30 سال سے پاکستان میں ہیں اور اب تو ان کے بچوں کی شادیاں بھی پاکستانی خاندانوں میں ہو چکی ہیں تو ایسے حالات میں کیسے اپنا کاروبار اور اپنے بچوں کو لے کر افغانستان جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ اس کاروبار میں انھوں نے اپنے پاکستانی پارٹنر سے کہا ہے کہ وہ اس کا حصہ انھیں دے دیں تاہمعبداللہ کا کہنا ہے کہ انھیں ابھی تک ان کا حصہ نہیں ملا۔انھوں نے کہا کہ پولیس نے مقررہ ڈیڈ لائن آنے سے پہلے ہی افعان شہریوں کو پکڑنا شروع کر دیا۔Getty Imagesافغان شہریوں کے مطابق پولیس نے مقررہ ڈیڈ لائن سے پہلے ہی پکڑ دھکڑ شروع کر دی ہےعبد اللہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پولیس کے اہلکار روزانہ منڈی کے اوقات میں وہاں آ جاتے ہیں اور غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان باشندوں کے علاوہ ان افراد کو بھی گرفتار کر رہے ہیں جن کے پاس افغان سیٹیزن کارڈ ہیں۔انھوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس اہلکار ان افراد کو گرفتار کرنے کے کچھ دیر بعد ان سے پیسے لے کر چھوڑ دیتے ہیں تاہم اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ایسے افعان شہری کو ڈیڈ لائن گزرنے سے پہلے گرفتار نہیں کیا جا رہا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہیں جبکہ غیر قانونی طور پر اسلام آباد میں مقیم غیر ملکیوں کو گرفتار کرنے کا عمل جاری رہے گا۔واضح رہے کہ سنہ 2023 میں اس وقت کی نگران حکومت کی جانب سے افغان باشندوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے کے فیصلے کے خلاف ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچمیں دائر ہونے والی اس درخواست میں وزارت داخلہ کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ افغان سٹیزن کارڈ اور پی آو آر کارڈ حاصل کرنے والے افراد کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ اس جواب میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وفاقی کابینہ کے 20 جولائی 2024کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پی او ار کارڈ حاصل کرنے والوں کے قیام میں 30 جون 2025 تک توسیع کر دی گئی ہے۔افغان باشندوں کی واپسی: ’پاکستان نے کئی سال آغوش میں رکھا، برفباری کا موسم ختم ہونے کا انتظار کر لیتے‘افغان باشندوں کی پاکستان سے واپسی: ’کسی اور ملک نہیں جا سکتے، افغانستان میں خطرات ہیں اور یہاں اب کوئی رہنے نہیں دے گا‘افغان پناہ گزین: ’یہ بھی نہیں پتا کہ افغانستان میں ہمارا گھر کہاں ہے، پاکستان کو ہی اپنا گھر سمجھتے تھے‘وہ افغان جو ملک چھوڑ نہ سکے طالبان کے سائے میں ان کی زندگی کیسی ہے؟افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر غیر قانونی کیوں؟وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں بسنے والے افغان باشندوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے جس پالیسی کی منظوری رواں سال جنوری میں دی گئی تھی اسی پالیسی کو ملک بھر میں نافذ کیا جائے گا۔وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ جن افغان باشندوں کو افغان سیٹیزن کارڈ جاری کیے گئے ہیں ان کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے۔وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق جن افغان شہریوں کو افغان سیٹیزن کارڈ جاری کیے گئے ہیں ان میں سے 70 فیصد سے زائد ایسے ہیں جن کی پیدائش پاکستان میں ہوئی۔واضح رہے کہ سنہ 2017 میں پاکستانی حکومت نے افعان سٹیزن کارڈ کا اجرا شروع کیا تھا اور یہ وہ افغان باشندے ہیں، جنھوں نے پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی ار سے پروف آف رجسٹریشن کارڈ حاصل نہیں کیا تھا۔اہلکار کے مطابق ان افراد نے اقوام متحدہ کے ادارے میں اس وقت رجسٹریشن نہیں کروائی تھی۔Getty Imagesافغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کے پاکستان میں نہ صرف کاروبار ہیں بلکہ ان کے بچے بھی محتلف تعلمیی ادروں میں زیر تعلیم ہیںوزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کو وہ سہولیات حاصل نہیں جو پروف آف رجسٹریشن کارڈ والے کو حاصل ہیں۔پاکستان کی وزارت خارجہ کا بھی اس حوالے سے یہی موقف ہے کہ افغان شہریوں کے پاکستان میں رہنے کے حوالے سے پہلے ہی بہت زیادہ نرمی برتی گئی لیکن یہ نرمی غیر معینہ مدت کے لیے نہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ 31 مارچ کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز غیر قانونی تصور ہوں گے۔وزارت خارجہ کے مطابق جن افغان باشندوں کے پاس پاکستان میں رہنے سے متعلق قانونی دستاویزات ہوں گی ان کو خوش آمدید کہیں گے جبکہ غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔پی او آر کارڈ والے افغان شہری کب تک پاکستان میں رہ سکیں گے؟وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق ماضی میں افغان باشندوں کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنا ہوتا تھا تو وزارت داخلہ کے علاوہ ریاستی اور سرحدی امور کی وزارت اور افغان کمشنریٹ کے حکام مل کر فیصلہ کرتے تھے لیکن اب دونوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔اہلکار کے مطابق گذشتہ چار سال سے افغان پناہ گزین سے متعلق سہہ فریقی اجلاس نہیں ہوا جس میں پاکستان کے علاوہ اقوام متحدہ اور ڈونر ممالک کے نمائندے شریک ہوتے تھے۔وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق پی او آر کارڈ والے افغان باشندوں کی تعداد 12 لاکھ سے زیادہ ہے۔وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق پالیسی کے مطابق پی او آر کی کیٹیگری میں آنے والے افغان باشندوں کو 30 جون تک پاکستان میں رہنے کی اجازت ہے اور اس کے بعد انھیں اپنے وطن واپس جانا ہو گا۔EPAجو افغان شہری طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان آئے اور کسی تیسرے ملک جانا چاہتے ہیں، ان کی بھی پاکستان میں قیام کی مدت 30 جون تک ہے تاہم اس ضمن میں تین ماہ کی مدت بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہےکسی تیسرے ملک میں جانے کے خواہشمند افغان شہریوں کے ساتھ کیا ہو گا؟وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق جو افغان شہری افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان آئے تھے اور وہ کسی تیسرے ملک میں جانا چاہتے ہیں ان کی بھی پاکستان میں قیام کی مدت 30 جون تک ہے تاہم اس ضمن میں تین ماہ کی مدت بڑھانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق وزارت خارجہ کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ پاکستان میں قائم مختلف ملکوں کے سفارت خانوں سے رابطہ کریں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ ایسے افغان باشندوں کے ویزے کا عمل جلد از جلد مکمل کریں۔وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق اس کیٹیگری میں آنے والے افعان باشندوں کے لیے پاکستان میں قیام کی مدت 30 جون سے بڑھا کر ستمبر تک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اہلکار کے مطابق اگر اس عرصے کے دوران مختلف سفارت خانے ان افغان باشدوں کو ویزے جاری نہیں کرتے تو ایسے افراد کا 30 ستمبر کے بعد پاکستان میں قیام غیر قانونی تصور ہو گا۔وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق بہت سے ایسے افغان باشندے جو افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے پہلے مختلف سفارت خانوں یا بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کرتے تھے، ان میں سے متعدد مختلف ملکوں میں جا چکے ہیں۔ ’سب سے زیادہ افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز متاثر ہوں گے‘پاکستان میں اس وقت ایسے افغان باشندوں کی تعداد 4 لاکھ سے زیادہ ہے جن کے پاس نہ تو افغان سیٹیزن کارڈ ہے اور نہ ہی پناہ گزین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کی جانب سے پروف آف رجسٹریشن یعنی (پی او ار) کارڈ جاری کیا گیا۔افغان امور پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان کا کہنا ہے کہ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان نے افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے کہا کہ افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کی وہی پالیسی ہے جس پر عملدرآمد نومبر 2023 میں شروع ہوا تھا۔طاہر خان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے 31 مارچ کی ڈیڈ لائن دینے سے چند روز قبل افغان وزیر مولوی عبدالکبیر نے افغانستان میں پاکستان کے ناظم الامور سے ملاقات کر کے کچھ مزید وقت مانگا تھا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسی کی وجہ سے سب سے زیادہ افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز متاثر ہوں گے کیونکہ ان میں اکثریت کے پاکستان میں نہ صرف کاروبار ہیں بلکہ ان کے بچے بھی محتلف تعلمیی ادروں میں زیر تعلیم ہیں اور اس کے علاوہ ایسے کارڈ کے حامل افراد نے پاکستانیوں کے ساتھ مل کر جائیدادیں بھی بنا رکھی ہیں۔انھوں نے کہا کہ حکومت کے اعلان کے بعد اب ایسے لوگ شدید پریشان ہیں کہ وہ کس طرح اتنی جلدی اپنا کاروبار سمیٹ کر افعانستان جائیں گے۔طاہر خان کا کہنا تھا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت افغانستان میں کوئی لڑائی نہیں ہو رہی، اس لیے پاکستانی حکومت افعان باشندوں کو اپنے ملک واپس بھیجنا چاہتی ہے۔انھوں نے کہا کہ زیادہ تر افغان شہریوں کو طورخم بارڈر کے ذریعے ہی ان کے ملک واپس بھیجا جائے گا جبکہ یہ بارڈر ابھی بند ہے تاہم طاہر خان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ بارڈر مقررہ تاریخ یا پھر اس کے بعد کھول دیا جائے۔پاکستان میں مقیم افغان شہری: ’فکر ہے کہ افغانستان واپس جا کر کیا کروں گی‘افغان باشندوں کی واپسی: ’پاکستان نے کئی سال آغوش میں رکھا، برفباری کا موسم ختم ہونے کا انتظار کر لیتے‘افغان باشندوں کی پاکستان سے واپسی: ’کسی اور ملک نہیں جا سکتے، افغانستان میں خطرات ہیں اور یہاں اب کوئی رہنے نہیں دے گا‘افغان مہاجرین سے سلوک ناقابل قبول، پاکستان پالیسی پر نظر ثانی کرے: ذبیح اللہ مجاہدافغان پناہ گزین: ’یہ بھی نہیں پتا کہ افغانستان میں ہمارا گھر کہاں ہے، پاکستان کو ہی اپنا گھر سمجھتے تھے‘