ساجد حسین بلوچ اور غریبوں کے بچے


جوانی میں یہ دنیا چھوڑ جانے والے دوستوں کا غم سِوا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ساری زندگی سے ایک مکالمہ جاری تھا۔ جانے والا خاموش ہو گیا، آپ اپنی خود کلامی جاری رکھیں اور اگر زیادہ یاد ستائے تو خود سوال اور ان کے جواب تصور کر کے دل ہی دل میں گفتگو جاری رکھیں۔ساجد حسین ہمارے صحافی اور لکھاری دوست تھے، کتابیں پڑھنے کی لت تھی، سوال اٹھانے کی بیماری تھی۔ زیادہ تر پڑھے لکھے نوجوانوں کی طرح کچھ وقت بی ایس او میں گزار چکے تھے لیکن پھر صحافت میں آئے تو اپنی سیاست کو نیوز روم کے باہر چھوڑ آئے۔ پرانے فیشن کی مستند رپورٹنگ کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے بلوچ ساتھی بھی ناراض رہتے تھے، اسٹیبلشمنٹ تو صدا سے روٹھی ہی ہوئی تھی۔یاروں دوستوں کی محفل میں سیاست پر اور خاص طور پر بلوچ قوم پرست سیاست پر بحث کرتے تھے، تاریخ کے حوالے دیتے تھے، علاقائی تناظر سمجھاتے تھے۔ جلا وطنی اختیار کرنے سے پہلے بلوچ مسلح جدوجہد کے مخالف تھے۔ نظریاتی طور پر آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کے حامی تھے لیکن اس وقت جو نئی نئی بلوچ مسلح تنظیمیں سامنے آ رہی تھیں، اس کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ بس غریبوں کے بچے مروائیں گے۔اپنی ذاتی زندگی میں ان کا ایک مشن واضح تھا کہ انھوں نے مسنگ پرسن نہیں بننا۔ ان کے انتہائی قریبی رشتے دار اٹھائے جا چکے تھے، کچھ کی مسخ شدہ لاشیں جل چکی تھیں، کئی غائب تھے۔ وہ رپورٹر کے طور پر اس طرح کی کئی کہانیاں بھی رپورٹ کر چکے تھے کہ مسنگ پرسن بننے سے بلوچ قوم کی کوئی خدمت نہیں ہو گی، اس سے بہتر ہے انسان کسی دور دیس میں مزدوری کرے، ساری عمر بلوچستان کو یاد کر کے آہیں بھرے لیکن مسنگ پرسن نہیں بننا، گھر والوں کو اپنی مسخ شدہ لاش نہیں دکھانی۔ آخر میں جلا وطنی کی زندگی میں سویڈن میں مسنگ ہو گئے۔ساجد پلیز واپس آجائیں!پنجابی مزدور، پنجابی دانشورجعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا؟ شدت پسندوں سے لڑنے والے پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانیپہاڑی چوٹیوں، دروں اور برساتی نالوں کی سرزمین: کالعدم بی ایل اے کا گڑھ سمجھی جانے والی ’وادی بولان‘ اتنی دشوار گزار کیوں ہے؟کئی ہفتے بعد ان کی لاش ایک سرد دریا کی تہہ میں ملی، پھر کئی ہفتے ایک ایئرپورٹ کے سرد خانے میں پڑی رہی،کیونکہ حکومت پاکستان ان کی میت واپس لانے کی اجازت دینے سے گریزاں تھی۔ آخر خدا خدا کر کے اجازت ملی اور اپنے آبائی گاؤں میں دفن ہو گئے۔ اچھا ہی ہوا آخری دیدار نصیب نہیں ہوا، ہم نہیں جاننا چاہتے تھے کہ ایک مسکراتی آنکھوں والا کتابی کیڑا بھائی ایک سرد دریا کی تہہ میں وقت گزار کر کتنا مسخ ہوا ہو گا۔Getty Imagesبولان میں ٹرین ہائی جیک، اس کے بعد ہونے والا آپریشن، ریاست کے سرداروں اور بلوچ سرمچاروں کے دعوے دیکھ کر ساجد حسین یاد آئے۔ دل کیا پوچھوں کہ غریبوں کے بچے کون ما رہا ہے اور کون مروا رہا ہے۔ جواب نہیں آیا تو خود ہی سوال اور خود ہی جواب والی مشق شروع کر دی۔ ریاست کو غریبوں کے بچوں کے خون کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم نے پشاور میں، سوات میں، پارا چنار میں، آواران میں قربانیاں دی ہیں تو یہ سب قربانیاں غریبوں کے بچوں نے ہی دی ہیں۔ اس سے پہلے سالہا سال تک ہم نے شیعہ بچوں کی قربانیاں دی ہیں، کراچی میں مہاجر بچوں کی کتنی قربانیاں دی ہیں، کسی کو گنتی بھی یاد نہیں۔ آج کل ریاست کی ناک کے عین نیچے بلکہ ریاست کی سرپرستی میں احمدی بچوں کی قربانی دینا قومی کھیل بن چکا ہے۔پہاڑوں سے ہتھیار اٹھا کر نیچے آنے والے سرمچار بھی غریبوں کے بچے ہیں، شناختی کارڈ دیکھ کر جن کو مارتے ہیں، وہ بھی روزی روٹی کی تلاش میں بلوچستان پہنچے تھے۔ مسنگ کیے جانے والے بھی غریبوں کے بچے ہیں، ان کو سالہا سال تک غائب کر کے تشدد کرنے والے بھی اپنے آپ کو غریبوں کی اولاد کہتے ہیں۔ غریبوں کے بچوں کو دوسرے غریبوں کے بچوں سے مروانا ایک قدیم روایت ہے اور ہماری ریاست اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ساجد بلوچ کو یہ بریکنگ نیوز دینی تھی کہ ہمارے جید صحافی ہمیں بتا رہے ہیں کہ بولان میں ٹرین ہائی جیک کے بعد ہونے والا آپریشن اتنا مثالی تھا کہ اسے نصاب کی کتابوں میں شامل ہونا چاہیے۔ ساجد تو یہی کہے گا کہ ایسے نصاب پڑھ کر ہی ہم اس حال کو پہنچے ہیں۔ ہم ایسے ہی تو دنیا میں دہشتگردی کا شکار ہونے والے ملکوں میں دوسرے نمبر پر نہیں پہنچے۔ساجد سے یہ بھی پوچھنا تھا کہ کیا وہ اب بھی بلوچ مسلح جدوجہد کے خلاف ہیں، چونکہ دوست خاموش ہے تو جواب خود ہی بنا لیتے ہیں کہ اب ہم جیسے سرد دریاؤں میں ڈوب جانے والوں، سڑکوں کے کنارے مسخ شدہ ملنے والوں، اجتماعی قبروں میں دفنا دیے جانے والوں کے مشورے کون سنتا ہے۔ بس اتنا بتا دو کہ کیا ہماری کہانیاں بھی کسی نصاب میں شامل ہوں گی۔جعفر ایکسپریس حملہ: کیا بلوچستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں روکنے کے لیے حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟ساجد پلیز واپس آجائیں!جعفر ایکسپریس حملہ: ’ہم نے میت کا آخری دیدار کسی کو بھی نہیں کرایا‘پنجابی مزدور، پنجابی دانشورجعفر ایکسپریس پر شدت پسندوں کے حملے کے عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟فوج کا 33 شدت پسندوں کی ہلاکت، 300 مغویوں کی بازیابی کا دعویٰ: ’جعفر ایکسپریس کے واقعے کے بعد رولز آف دی گیم تبدیل ہو گئے ہیں‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

امریکا میں طوفانی بگولوں سے تباہی ، عمارتوں کی چھتیں اڑ گئیں ، 33 افراد ہلاک

عیدالفطر 30 مارچ کو ہو گی یا 31 کو ؟ ماہرین فلکیات کی نئی پیشگوئیاں سامنے آ گئیں

نوشکی دالبندین شاہراہ پر سیکورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب دھماکا ، 5 افراد جاں بحق

انسانی اسمگلرز کی وجہ سے پاکستان کی بدنامی ہوئی ، ادارے جرم کے خاتمے کیلئے دن رات کام کریں ، شہباز شریف

پشاور اور کرک میں پولیس اسٹیشنز ، گیس فیلڈ پر حملے ، 4 اہلکار شہید

’بوگیوں میں جگہ، جگہ خون اور مسافروں کا بکھرا سامان‘: حملے کے بعد جعفر ایکسپریس کا دورہ کرنے والے صحافیوں نے کیا دیکھا؟

پہلا ٹی ٹوئنٹی ، پاکستان کو نیوزی لینڈ کے ہاتھوں عبرتناک شکست

صدر ، وزیراعظم اور وزیر داخلہ اہل نہیں ، عید کے بعد تحریک چلانے کا فیصلہ کرینگے ، مولانا فضل الرحمان

پٹرول اور ڈیزل پر لیوی مزید 10روپے بڑھا کر 70 روپے کر دی گئی

بلیک ہولز سے متعلق سٹیفن ہاکنگ کی قبر پر لکھا وہ فارمولا جو انھیں نوبل انعام دلا سکتا تھا

ساجد حسین بلوچ اور غریبوں کے بچے

31 مارچ سے افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز بھی غیرقانونی: اس کے بعد کون سے افغان شہری پاکستان میں رہیں گے؟

پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان کو نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست: ’بھائی یہ آپ کی گلی کا ٹیپ بال ٹورنامنٹ نہیں‘

انڈیا میں آئی ایس آئی کے لیے جاسوسی کے الزام میں اسلحہ فیکٹری کا ملازم گرفتار

محمد حنیف کی تحریر: ساجد حسین بلوچ اور غریبوں کے بچے

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی