
"تین شادیاں کر کے بھی کامیاب نہ ہو سکیں اور اب ہمیں رشتوں پر لیکچر دے رہی ہیں؟"
"میں سمجھتا تھا یہ شراب والے کیس میں بے قصور تھیں، اب لگتا ہے کہ ہمیشہ سے یہی سوچ رکھتی تھیں۔"
"ارینج میرج کو جبری رشتہ کہنا زیادتی ہے، آج کل شادی سے پہلے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو جاننے کا موقع حاصل کرتے ہیں۔"
اداکارہ عتیقہ اوڈھو کا ایک ڈرامہ ریویو شو میں دیا گیا بیان، جو بظاہر ایک معاشرتی زاویہ تھا، دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر طوفان بن گیا۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عتیقہ نے پاکستانی معاشرت میں رائج ارینج میرج کے تصور کو "نفسیاتی اذیت" سے تعبیر کیا اور کہا کہ شادی جیسے حساس بندھن کو بغیر کسی ذہنی تیاری کے قبول کرنا درحقیقت فرد کی آزادی اور جذبات کی توہین ہے۔
انہوں نے گفتگو کے دوران کہا کہ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ ایک لڑکی ساری زندگی پردے میں گزارتی ہے، غیر مردوں سے بات نہیں کرتی، اور پھر اچانک ایک اجنبی کو زندگی کا ساتھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ان کے مطابق ایسا ماحول نہ صرف عورت بلکہ مرد کے لیے بھی ذہنی دباؤ اور تکلیف کا باعث بنتا ہے۔
یہ بات سننا تھی کہ سوشل میڈیا پر درجنوں آراء کی یلغار ہو گئی۔ کچھ صارفین نے تو اسے لبرل پروپیگنڈا قرار دے دیا، جبکہ چند نے ان کی ذاتی زندگی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کسی نے ان کی تین ناکام شادیوں کا حوالہ دیا تو کسی نے کہا کہ عتیقہ خود اپنی زندگی میں فیصلے نہ کر سکیں، اب دوسروں کو رہنمائی دینے نکل پڑی ہیں۔
کچھ صارفین نے پروگرام پر پابندی کا مطالبہ کر دیا، پیمرا کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر یہی رویہ جاری رہا تو میڈیا معاشرتی اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گا۔ ان کا ماننا تھا کہ موجودہ دور میں ارینج میرج زبردستی نہیں بلکہ باہمی سمجھوتے پر مبنی فیصلے کا نام ہے۔ لڑکا اور لڑکی دونوں کو مکمل موقع ملتا ہے ایک دوسرے کو سمجھنے کا، اور ایسے میں ہر رشتے کو "جبری" کہنا درست نہیں۔