
غزہ میں اسرائیل اور امریکہ کی حمایت سے چلنے والے امدادی مرکز کے ایک سابق سکیورٹی کنٹریکٹر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھوں نے بارہا اپنے ساتھیوں کو ایسے بھوکے فلسطینیوں پر فائرنگ کرتے دیکھا ہے جو کسی طرح سے خطرے کا باعث نہیں دکھائی دیتے تھے۔ سابق عہدیدار کے مطابق ان فلسطینیوں پر فائرنگ میں مشین گنز کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس سابق عہدیدار نے اپنی گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ایک موقع پر واچ ٹاور (حفاظتی ٹاور) پر تعینات ایک محافظ نے مشین گن سے محض اس لیے فائرنگ کی کیونکہ خواتین، بچے اور بزرگ افراد کے ایک گروہ کی رفتار اُس وقت بہت آہستہ تھی جب وہ امدادی مرکز سے دور جا رہے تھے۔ دنیا بھر سے تازہ ترین خبریں اب آپ کے واٹس ایپ پر! بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریںجب ان الزامات پر ردعمل جاننے کے لیے غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) سے پوچھا گیا تو انھوں نے ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے انھیں جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔بی بی سی کو دیے گئے بیان میں تنظیم نے دعویٰ کیا کہ جی ایچ ایف کے امداد کی تقسیم کے مراکز پر کبھی کسی شہری پر گولی نہیں چلائی گئی۔یاد رہے کہ غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن نامی اس تنظیم نے رواں برس مئی کے آخر میں غزہ میں امدادی کاموں سے متعلق آپریشن کی شروعات کی ہیں اور یہ تنظیم جنوبی اور وسطی غزہ میں واقع چند مراکز سے محدود مقدار میں امداد تقسیم کرتی ہے۔ اس سے قبل اسرائیل نے 11 ہفتوں تک غزہ کی مکمل ناکہ بندی کی ہوئی تھی جس دوران علاقے میں اشیائے خوردونوش کی ترسیل مکمل طور پر رُکی رہی تھی۔ جی ایچ ایف کے ذریعے فلسطینوں کو امداد کی تقسیم کے نظام کو اس وجہ سے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کہ اس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو جنگ زدہ علاقوں سے پیدل گزر کر امداد بانٹنے کے مٹھی بھر مراکز تک جانا پڑتا ہے۔اقوامِ متحدہ اور مقامی ڈاکٹروں کے مطابق جی ایچ ایف کے ذریعے امداد کی تقسیم کے آغاز کے بعد سے (یعنی مئی 2025 کے بعد سے) اسرائیلی فوج نے امداد لینے کے لیے آنے والے 400 سے زائد فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے۔اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ امداد کی تقسیم کے اس نظام کا مقصد اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ عام شہریوں کے لیے دستیاب یہ امدادی سامان حماس تک نہ پہنچ پائے۔سابق کنٹریکٹر نے اس فلاحی تنظیم کے ایک مرکز میں محافظوں کی جانب سے فلسطینیوں کے گروہ پر گولی چلائے جانے کے واقعے سے متعلق مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسے ہی یہ واقعہ ہوا وہاں کھڑے ایک اور کنٹریکٹر نے بھی ہجوم پر آٹومیٹک ہتھیار سے 15 سے 20 گولیاں داغ دیں۔‘سابق کنٹریکٹر کے مطابق ’ایک فلسطینی آدمی زمین پر بے حس و حرکت گر گیا، جس پر وہاں کھڑا ایک کنٹریکٹر بولا کہ ’اوہ، لگتا ہے تم نے ایک (شخص) کو مار گرایا۔‘ پھر وہ سب اس پر ہنسنے لگے۔‘سابق کنٹریکٹر نے الزام عائد کیا کہ جی ایچ ایف کے منیجرز نے اُن کی اس واقعے سے متعلق رپورٹ کو محض ایک اتفاق قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور کہا کہ ’ممکن ہے وہ فلسطینی آدمی ٹھوکر کھا کر گر گیا ہو یا تھکاوٹ سے بے ہوش ہو گیا ہو۔‘دوسری جانب جی ایچ ایف نے دعویٰ کیا ہے یہ الزامات لگانے والا شخص ایک ’منحرف (ناراض) سابق کنٹریکٹر‘ ہے جسے بدانتظامی کے باعث نوکری سے نکالا گیا تھا۔ تاہم بی بی سی سے بات کرنے والے اس سابق عہدیدار نے فلاحی تنظیم کے اس الزام کر تردید کی ہے۔ سابق کنٹریکٹر نے اپنی بات کے ثبوت میں ہمیں اپنی تنخواہوں کی رسیدیں دکھائیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ عہدہ چھوڑنے کے دو ہفتے بعد تک بھی انھیں تنخواہ دی جاتی رہی۔ انھوں نے ثبوت دکھایا کہ انھوں نے اچھی ٹرمز پر نوکری چھوڑی تھی۔سابق عہدیدار کا دعویٰ ہے کہ وہ جی ایچ ایف کے چاروں تقسیمی مراکز پر کام کر چکا ہے۔ انھوں نے تمام مراکز کے ماحول کو قانون سے بالاتر اور بے قاعدگیوں سے بھرپور قرار دیا جہاں گنے چنے ضوابط اور انتہائی کم کنٹرول تھا۔انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ امدادی مراکز کے کنٹریکٹرز کو کوئی واضح قواعد، طریقۂ کار یا ضابطۂ عمل نہیں دیا گیا تھا یہاں تک کے ایک ٹیم لیڈر نے انھیں کہا تھا کہ ’اگر آپ کو خطرہ محسوس ہو تو پہلے گولی چلاؤ، مار ڈالو اور سوال بعد میں کرو۔‘انھوں نے الزام لگایا کہ کمپنی کا ماحول ایسا تھا جیسے ’ہم غزہ جا رہے ہیں جہاں کوئی قانون نہیں ہے۔ جو دل چاہے کرو۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر کوئی فلسطینی امداد کے مرکز سے دور جا رہا ہے اور اس نے کسی بھی قسم کی دشمنی ظاہر نہیں کی اور ہم پھر بھی اس پر گولیاں چلا رہے ہیں تو یہ ہماری غلطی ہے، یہ مجرمانہ غفلت ہے۔‘تین دن میں ہلاکتوں کے تین واقعات: غزہ میں امداد کی ’متنازع‘ تقسیم، امریکی کنٹریکٹر اور اسرائیلی فوج کی ’مشکوک افراد پر‘ فائرنگکیا اسرائیل بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کر کے غزہ پر ’قبضہ‘ کر سکتا ہے؟ پانچ اہم سوالوں کے جوابجنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملوں کے پیچھے چھپی نتن یاہو کی حکمت عملی اور نیا امریکی منصوبہامدادی ٹرکوں کو لوٹنے اور نذر آتش کرنے کے واقعات: وہ اسرائیلی رضا کار جو غزہ کے لیے امداد کی ’جنگ‘ لڑ رہے ہیںسابق کنٹریکٹر کے مطابق ’ہر مرکز میں سی سی ٹی وی کیمرے علاقے کی نگرانی کر رہے تھے، ایسے میں جی ایچ ایف کا ڈٹے رہنا کہ وہاں کسی کو نقصان نہیں پہنچا یا کسی پر گولی نہیں چلائی گئی محض ایک جھوٹ ہے۔‘ تاہم جی ایچ ایف نے کہا ہے کہ بی بی سی کو فراہم کردہ ویڈیوز میں جو گولیوں کی آواز سنائی دے رہی ہے وہ اسرائیلی فورسز کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ کی آواز ہے۔اس سابق کنٹریکٹر نے بتایا کہ ٹیم لیڈرز نے غزہ کے لوگوں کو’غیر اہم‘ قرار دیتے ہوئے انھیں ’زومبیوں کے جتھے‘ (زومبی ہورڈز) کہا۔اُن کے مطابق ’فلسطینی جی ایچ ایف کے مراکز پر دیگر طریقوں سے بھی زخمی ہو رہے تھے، مثلاً دستی بموں کے ٹکڑوں سے چوٹ لگنے، مرچوں والے سپرے کے چھڑکاؤ یا بھیڑ میں دھکم پیل کے باعث خاردار تاروں سے ٹکرانے سے بھی لوگ زخمی ہو رہے تھے۔‘ سابق کنٹریکٹر کے مطابق انھوں نے کئی مواقع پر فلسطینیوں کو شدید زخمی ہوتے دیکھا جن میں ایک شخص شامل تھا جس کے چہرے پر مرچوں والے سپرے کا پورا ڈبہ خالی کیا گیا تھا، اور ایک عورت کے سر پراس دستی بم کا دھاتی حصہ لگا تھا جو بھیڑ میں فائر کیا گیا تھا۔’یہ دھاتی ٹکڑا سیدھا اس عورت کے سر پر لگا اور وہ زمین پر بے حس و حرکت گر گئی، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مر گئی تھیں یا زندہ بچیں۔ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ بے ہوش اور بلکل بے حس و حرکت تھیں۔‘Reutersغزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن سے امداد لینے کے لیے لوگوں کو جنگ زدہ علاقوں سے پیدل چل کر مراکز تک جانا پڑتا ہےرواں ہفتے 170 سے زائد فلاحی اداروں اور این جی اوز کی جانب سے غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن کو بند کرنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ ان تنظیموں میں آکسفام اور سیو دی چلڈرن بھی شامل ہیں جنھوں دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی فورسز اور مسلح گروہ ’روزانہ‘ امداد لینے والے فلسطینیوں پر گولی چلاتے ہیں۔اسرائیل نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کے فوجی جان بوجھ کر امداد وصول کرنے والوں پر گولی چلاتے ہیں اور ساتھ ہی دعویٰ کیا ہے کہ جی ایچ ایف کا نظام ان لوگوں تک براہ راست امداد پہنچاتا ہے جنھیں اس کی ضرورت ہے اور تاکہ حماس تک امداد نہ پہنچ پائے۔غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ اس نے پانچ ہفتوں میں 5 کروڑ 20 لاکھ سے زائد لوگوں کو کھانا تقسیم کیا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ دیگر امدادی تنظیمیں ’بے بسی سے دیکھتی رہتی ہیں اور ان کی امداد لوٹ لی جاتی ہے۔‘یاد رہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں فوجی کارروائی حماس کے سات اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملے کے جواب میں شروع کی تھی، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ تب سے اب تک 57 ہزار سے زائد فلسطینی اس جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ تین دن میں ہلاکتوں کے تین واقعات: غزہ میں امداد کی ’متنازع‘ تقسیم، امریکی کنٹریکٹر اور اسرائیلی فوج کی ’مشکوک افراد پر‘ فائرنگکیا اسرائیل بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کر کے غزہ پر ’قبضہ‘ کر سکتا ہے؟ پانچ اہم سوالوں کے جوابجنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملوں کے پیچھے چھپی نتن یاہو کی حکمت عملی اور نیا امریکی منصوبہغزہ کے لیے امداد لے جانے والی کشتی جسے اسرائیلی فوج نے روک لیا