
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن، شاہ دی کھوئی میں ایک فارم ہاؤس سے نکلے پالتو شیر نے گذشتہ روز جمعرات کو شہریوں پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کے نتیجے میں دو بچوں سمیت تین افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر جناح ہسپتال منتقل کیا گیا۔پولیس کے مطابق شیر فارم ہاؤس کی دیوار پھلانگ کر گلی میں نکل آیا اور راہگیروں پر حملہ آور کر دیا۔ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں شیر کو دیوار پھلانگ کر ایک خاتون اور بچوں پر حملہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔زخمی بچے کے والد کی مدعیت میں تھانہ جوہر ٹاؤن میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ والد نے مقدمے میں الزام عائد کیا ہے کہ شیر کا مالک اپنے پالتو شیر کو بچوں پر حملہ کرتے دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران نے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا حکم دیا، جبکہ وائلڈ لائف ٹیم نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے شیر کو قابو کر لیا اور اسے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔حکام کے مطابق وائلڈ لائف رینجرز اور پولیس نے مشترکہ آپریشن کے ذریعے شیر کے مالک ملک اعظم عرف شانی، ان کے بیٹے بہرام اور بھائی ملک غلام مرتضیٰ کو گرفتار کر لیا ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف نے بغیر اجازت نامے کے شیر رکھنے پر ایف آئی آر درج کی جو کہ ایک ناقابل ضمانت جرم ہے۔ پولیس کے مطابق اس جرم کی سزا سات برس قید اور 50 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔آٹھ ماہ میں چھ افراد زخمی، ایک شیر ہلاکسینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے غیرقانونی طور پر جنگلی جانور رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دے دیا ہے۔ اس حوالے سے ترجمان ڈی آئی جی آپریشنز لاہور حافظ قیصر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’گذشتہ آٹھ ماہ میں لاہور میں پالتو شیر کے حملوں اور غیرقانونی طور پر جنگلی جانور پالنے سے متعلق چار واقعات رپورٹ ہوئے۔‘ان واقعات میں مجموعی طور پر چھ افراد زخمی ہوئے اور ایک شیر ہلاک ہوا۔ دسمبر 2024 میں ہربنس پورہ کی ہاؤسنگ سکیم میں ایک شیر فارم ہاؤس سے نکل کر گلیوں میں آیا جسے گارڈز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے میں تین افراد زخمی ہوئے اور گارڈ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔اسی مہینے ٹک ٹاکر اور یوٹیوبر رجب بٹ کو شادی کے موقع پر شیر کا بچہ تحفے میں دیا گیا جس کے باعث انہیں غیرقانونی طور پر شیر اور اسلحہ رکھنے پر 50 ہزار روپے جرمانہ اور ایک برس کی کمیونٹی سروس کی سزا سنائی گئی تاہم ان کی ضمانت منظور کر لی گئی تھی۔فروری 2025 میں جلو پارک میں عملے کی غفلت سے ایک شیر پنجرے سے نکل آیا تھا جسے بے ہوش کر کے واپس منتقل کیا گیا۔ اس واقعے میں پارک کے ملازم شریف مستی کو جان بوجھ کر دروازہ کھلا چھوڑنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔رجب بٹ کو غیرقانونی طور پر شیر کا بچہ اور اسلحہ رکھنے پر ایک برس کی کمیونٹی سروس کی سزا سنائی گئی۔ (فوٹو: سکرین گریب)حالیہ واقعہ جوہر ٹاؤن کے شاہ دی کھوئی میں پیش آیا جہاں شیر نے تین افراد پر حملہ کیا جن میں دو بچے شامل تھے۔ اس واقعے میں شیر کے مالک سمیت تین ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ شیر کو محفوظ مقام پر منتقل کرتے ہوئے وائلڈ لائف ایکٹ سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔پنجاب میں 584 کے لگ بھگ پالتو شیرترجمان محکمہ وائلڈ لائف محمد رمضان نے اردو نیوز کو بتایا کہ گرفتار ملزمان کے پاس شیر رکھنے کا کوئی لائسنس موجود نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے شہریوں کو بگ کیٹس کے لائسنس بنوانے کا حکم دیا گیا تھا تاہم اب تک لائسنس نہیں بنایا گیا۔ محکمے کی جانب سے آج سے سخت کریک ڈاؤن شروع ہو گیا ہے جس کے نتائج اگلے دو دن میں سامنے آ جائیں گے۔‘محمد رمضان کے مطابق محکمے نے پہلے مالکان کو وارننگ دی تھی کہ وہ جنگلی جانوروں کے لیے مناسب ماحول بنائیں، معیار بہتر کریں اور انہیں انسانی آبادی سے دور منتقل کریں۔’غیرقانونی جانور پالنے سے متعلق کریک ڈاؤن پہلے سے جاری تھا لیکن اب اسے مزید شدت کے ساتھ نافذ کیا جا رہا ہے۔‘ترجمان محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق پورے پنجاب میں تقریباً 584 کے قریب شیر لوگوں کے پاس موجود ہیں جنہیں لوگوں نے خود ڈکلیئر کیا ہے۔’ان میں سے کچھ شیروں کے لائسنس نہیں ہیں جبکہ کچھ رجسٹرڈ بریڈنگ فارمز بھی ہیں جہاں شیروں کو بریڈ کیا جاتا ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف اب ان کی تصدیق کرے گا اور دیکھے گا کہ ان کا معیار درست ہے یا نہیں۔ اس کے بعد کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور لائسنس فراہم کیے جائیں گے۔‘وائلڈ لائف رینجرز اور پولیس نے مشترکہ آپریشن کے ذریعے شیر کے مالک، ان کے بیٹے اور بھائی کو گرفتار کر لیا ہے۔ (فوٹو: محکمہ وائلڈ لائف)’شیروں کا ڈی این اے تبدیل‘شہری آبادی میں شیروں کے پنجرے سے نکلنے کے واقعات ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں تاہم اس حوالے سے موثر قانون سازی کی عدم موجودگی کے باعث اب کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں کی جا رہی تھی، جس کے بعد حکومت پنجاب نے بگ کیٹس کو وائلڈ لائف ایکٹ 1974 کے جدول دوئم میں شامل کر کے ان کے لیے لائسنس لازمی قرار دیا۔ماہر وائلڈ لائف فہد مالک شیر پالنے کو ’اشرافیہ کا شوق‘ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’حال ہی میں حکومت نے انسانی آبادی میں خونخوار یا جنگلی جاندار رکھنے پر پابندی عائد کی تھی لیکن اثر و رسوخ کی وجہ سے کئی لوگ اب بھی ان جانوروں کو صرف شوق کی خاطر رکھ رہے ہیں۔‘ان کے مطابق ’یہ مسئلہ صرف لاہور تک محدود نہیں بلکہ پورے پنجاب اور پاکستان میں موجود ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قانون بننے کے باوجود اس پر عمل درآمد میں تاخیر ہوتی ہے تاہم اب قانون کافی سخت ہو چکا ہے اور حالیہ واقعے کے بعد دیگر افراد کو وارننگ مل جائے گی کہ وہ جلد از جلد ان جانوروں کو انسانی آبادی سے دور منتقل کریں۔‘پنجاب میں نجی طور پر 584 کے لگ بھگ شیروں کی موجودگی اور محکمہ وائلڈ لائف کی استعداد کے حوالے سے فہد مالک نے کہا کہ سینکڑوں جنگلی جاندار لوگوں نے گھروں میں رکھے ہوئے ہیں لیکن محکمہ وائلڈ لائف کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ہر خونخوار جاندار کو اپنی تحویل میں لے۔’پاکستان میں پالتو شیر یا دیگر بڑی بلیوں کی نسل مقامی نہیں ہے اور مکس بریڈنگ کی وجہ سے ان کا اصل ڈی این اے تبدیل ہو چکا ہے۔ اس لیے انہیں جنگلوں یا ان کے اصل مسکن میں منتقل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر انہیں افریقہ منتقل کیا جائے تو بھی کامیابی کی امید کم ہے اور نقصانات ہو سکتے ہیں۔‘فہد مالک کے مطابق جنگلی جانور اور خاص طور پر شیر رکھنا ایک سوشل میڈیا ٹرینڈ بن چکا ہے۔ (فائل فوٹو: عثمان بلٹ انسٹاگرام)انہوں نے تجویز دی کہ جن لوگوں کے پاس یہ جانور ہیں وہ انہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق انسانی آبادی سے دور رکھیں اور اگر معیار پورا نہ ہو تو ان کے خلاف کارروائی عمل میں لاتے ہوئے جرمانہ کیا جائے۔یوٹیوبر رجب بٹ کو تحفے میں ملنے والے شیر کے بعد صارفین نے اسے ٹرینڈ قرار دیا۔ اس حوالے سے فہد مالک بتاتے ہیں کہ جنگلی جانور اور خاص طور پر شیر رکھنا ایک سوشل میڈیا ٹرینڈ بن چکا ہے۔’سرمایہ دار طبقہ سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور تصاویر بنانے کے لیے ان جانوروں کو پالتا ہے تاکہ اپنا شوق پورا کرے۔ یہ رجحان نہ صرف انسانوں کی جانوں کے لیے خطرہ ہے بلکہ جانوروں کی فلاح و بہبود اور وائلڈ لائف قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔‘