
سندھ حکومت کی جانب سے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے لیے اجرک کے ڈیزائن والی نئی نمبر پلیٹس کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ بظاہر ایک مثبت اور ثقافتی شناخت کو اجاگر کرنے کی کوشش ہے، لیکن کراچی سمیت سندھ بھر میں اس کے اطلاق نے شہریوں کے لیے شدید انتظامی اور مالی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ 4 جولائی 2025 تک کی صورتحال یہ ہے کہ نمبر پلیٹس کی فراہمی، ٹریفک پولیس کی سخت کارروائیوں اور محکمہ ایکسائز کی سست روی نے عام شہریوں کو ایک سنجیدہ نوعیت کے بحران میں دھکیل دیا ہے۔محکمہ ایکسائز کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق سندھ میں دسمبر 2024 تک رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 65 لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی اور صرف کراچی میں ہی 33 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلیں اور 23 لاکھ دیگر گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں۔گاڑیوں کی اس قدر بڑی تعداد کے لیے نئی نمبر پلیٹس جاری کرنا ایک بہت بڑا انتظامی چیلنج ہے، جس کے لیے موجودہ حکومت بالکل تیار دکھائی نہیں دیتی۔سندھ حکومت نے نئی نمبر پلیٹس کے نفاذ کے لیے ابتدائی طور پر 3 اپریل 2025 کی تاریخ مقرر کی تھی، جو شہریوں کے دباؤ کے باعث پہلے 15 مئی اور پھر 30 جون تک بڑھا دی گئی۔وزیر ایکسائز مکیش کمار چاولہ کے مطابق 30 جون کے بعد صرف نئی نمبر پلیٹس ہی قابلِ قبول ہوں گی، جبکہ پرانی نمبر پلیٹس والی گاڑیوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی، جن میں جرمانے اور گاڑیوں کی ضبطی شامل ہے۔تاہم، اس ڈیڈ لائن کے فوری بعد شروع ہونے والے پولیس آپریشن نے انتظامیہ کی تیاری اور نیت دونوں پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔شہریوں کے مطابق سوک سینٹر اور دیگر ایکسائز دفاتر میں نمبر پلیٹس کے لیے طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں۔آن لائن اپلائی کرنے کے باوجود نہ نمبر پلیٹس وقت پر موصول ہو رہی ہیں، نہ ہی شکایتوں کا کوئی فوری ازالہ کیا جا رہا ہے۔بعض شہریوں نے شکایت کی کہ کئی دنوں کے انتظار کے بعد جب وہ دفتر پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ نمبر پلیٹ تاحال تیار ہی نہیں ہوئی۔حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت 80 ہزار سے زائد نمبر پلیٹس تیار پڑی ہیں۔ (فوٹو: ایکس)گزشتہ 10 دنوں میں صرف کراچی میں 6 ہزار سے زائد شہری نمبر پلیٹس کے لیے سوک سینٹر پہنچے، لیکن متعلقہ عملے نے واضح طور پر جواب دے دیا کہ نمبر پلیٹس کی فوری فراہمی ممکن نہیں۔ان حالات میں ایک طرف نمبر پلیٹس دستیاب نہیں تو دوسری جانب ٹریفک پولیس نے بغیر کسی اضافی مہلت کے سخت کارروائیاں کرنا شروع کر دی ہیں۔کراچی میں سڑکوں پر شہریوں کو روک کر پرانی نمبر پلیٹ رکھنے پر موقع پر ہی چالان جاری کیے جا رہے ہیں، جب کہ ہزاروں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو ضبط بھی کیا جا چکا ہے۔ذرائع کے مطابق صرف چند دنوں کے دوران 12 ہزار سے زائد گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں پولیس نے قبضے میں لی ہیں، اور لاکھوں روپے کے چالان کیے گئے ہیں۔سیاسی حلقوں اور شہری تنظیموں نے اس مہم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے الزام لگایا ہے کہ ’نمبر پلیٹس کے نام پر ٹریفک پولیس شہریوں سے بھتہ وصول کر رہی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ جب تک تمام شہریوں کو نمبر پلیٹس مہیا نہ کی جائیں، اس نوعیت کی کارروائی غیر منصفانہ اور غیر قانونی ہے۔شہریوں کی بڑی تعداد سوشل میڈیا پر بھی سراپا احتجاج ہے اور اس اقدام کو ’انتظامی نااہلی کا شاہکار‘ قرار دے رہی ہے۔دوسری جانب، مالی بوجھ بھی عوام کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایکسائز عاطف علی بھٹی کے مطابق موٹر سائیکل کے لیے اجرک کے ڈیزائن والی نئی نمبر پلیٹ کی فیس 1850 روپے اور کار کے لیے 2450 روپے مقرر کی گئی ہے۔کراچی کے شہری اس وقت دو طرح سے پس رہے ہیں، ایک طرف ایکسائز دفاتر کی ناقص کارکردگی، اور دوسری جانب ٹریفک پولیس کی سختی۔ (فوٹو: ایکس)ان کا کہنا ہے کہ محکمہ شہریوں کو سہولیات فراہم کررہا ہے، جدید فیچرز کی حامل ان نئی نمبر پلیٹس سے ناصرف سیف سٹی پروجیکٹ میں فائدہ ہوگا بلکہ شہریوں کے لیے بھی آسانی ہوگی۔البتہ شہریوں کو اعتراض ہے کہ پہلے ہی رجسٹریشن کے وقت یہ فیس وصول کی جا چکی تھی۔ اب دوبارہ اس مد میں رقم لینا عوام کے ساتھ زیادتی ہے، خاص طور پر جب سہولت فراہم کرنے کے بجائے سڑکوں پر پولیس کی دھمکیاں اور گاڑیوں کی ضبطی کا سامنا ہو۔حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت 80 ہزار سے زائد نمبر پلیٹس تیار پڑی ہیں، اور یومیہ 22 ہزار سے زائد گاڑیوں کی رجسٹریشن کر کے انہیں نمبر پلیٹس جاری کی جا رہی ہے، جو پہلے محض 3 سے 4 ہزار یومیہ جاری کی جا رہی تھیں۔یہ اعدادوشمار اگرچہ مثبت دکھائی دیتے ہیں، لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہانی بیان کرتے ہیں۔کراچی کے شہری اس وقت دو طرح سے پس رہے ہیں، ایک طرف ایکسائز دفاتر کی ناقص کارکردگی، اور دوسری جانب ٹریفک پولیس کی سختی۔شہریوں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ محکمہ ایکسائز جگہ جگہ موبائل کیمپس قائم کرے تاکہ رش کم ہو اور نمبر پلیٹس کی فوری فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ اسی طرح آن لائن اپلائی کرنے والوں کو نمبر پلیٹس بذریعہ کوریئر گھر تک پہنچائی جائیں تاکہ دفتر کے چکر اور ایجنٹ مافیا سے نجات ملے۔ اس کے علاوہ فیسوں پر نظرثانی کی جائے اور پرانی فیس ادا کرنے والوں کو رعایت دی جائے۔اجرک کے ڈیزائن والی نمبر پلیٹ بلاشبہ سندھ کی ثقافت کا ایک خوبصورت اظہار ہے، لیکن جب اس طرح کے فیصلے عوامی مشاورت، عملی منصوبہ بندی اور شہری سہولت کے بغیر نافذ کیے جاتے ہیں تو وہ انتظامی ناکامی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔اس وقت صورتحال یہی ہے کہ ایک بہتر نیت سے کیا گیا فیصلہ اب عوامی ردعمل اور تنقید کی زد میں ہے۔ حکومت اگر واقعی چاہتی ہے کہ شہری اس تبدیلی کو خوش دلی سے قبول کریں تو اسے فوری طور پر اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرتے ہوئے شہریوں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہوگی۔