
مئی کے وسط میں پاکستان کے زیرِ انتظام گلگت بلتستان کے شہر سکردو میں ریسکیو حکام کو اطلاع ملی کہ صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے چار سیاح کچھ روز سے لاپتہ تھے۔ ریسکیو اہلکاروں کو اِن سیاحوں کی لاشیں سکردو میں دریا کنارے سے ملی ہیں۔گجرات کے رہائشی اِن تین کزنز اور ایک دوست کی تلاش کے لیے ان کے لواحقین نے نہ صرف پولیس سے رابطہ کیا بلکہ ایک مہم بھی شروع کی تھی۔سکردو ریسکیو 1122 کے اہلکاروں، پولیس اور لواحقین نے سکردو جانے والے تمام مقامات اور راستوں پر تلاش شروع کی۔ انھیں خدشہ تھا کہ اِن سیاحوں کو راستے میں کوئی حادثہ پیش آیا ہوگا۔21 مئی کی صبح نو بجے چار ریسکیو اہلکاروں کو سکردو سے ڈیڑھ گھنٹے دور واقع استک نالے سے اطلاع ملی کہ بظاہر پتھروں پر سے کوئی چیز لگ کر نیچی کھائی میں گِری ہے۔ریسکیو اہلکار رسی کی مدد سے نیچے گئے تو انھیں وہاں حادثے کا شکار کار اور چار لاشیں ملیں۔ حکام کے مطابق یہ چار سیاح ممکنہ طور پر ایک کار حادثے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ’کھائی میں نیچے اترنے کا کوئی راستہ نہیں تھا‘ریسکیو 1122 سکردو کے ترجمان غلام رسول نے بی بی سی کو بتایا کہ ان چاروں سیاحوں کی تلاش کے لیے 21 مئی سے بھرپور آپریشن جاری تھا مگر کوئی کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ 'ان کی لوکیشن کا پتا نہیں چل رہا تھا کہ گلگت سے لے کر جس مقام استک نالہ پر حادثہ پیش آیا ہے، وہاں پر کوئی بھی انٹری پوائنٹ نہیں تھا۔'ان کا کہنا تھا کہ جس جگہ پر حادثہ پیش آیا ہے وہاں پر انٹری پوائنٹ تقریبا دو کلو میٹر دور تھا۔ جبکہ اس کار کا اندراج نہیں ہوا تھا۔غلام رسول کا کہنا تھا کہ حادثے کا مقام پیچیدہ تھا۔ ’گاڑی ایک پہاڑ کے پیچھے تھی اور روڈ سے دیکھنے پر نظر نہیں آتی تھی۔ نیچے جا کر دیکھنا خطرناک تھا کیونکہ وہاں پر نیچے جانے کا کوئی راستہ نہیں۔'ہمارے اہلکاروں نے جب روڈ اور سائٹ پر تھوڑی سی غیر معمولی صورتحال دیکھی تو انھوں نے تھوڑا سا نیچے جا کر دیکھا۔ انھیں پتھروں کو دیکھ کر گاڑی نیچے گِرنے کا تاثر ملا جس پر انھوں نے ہیڈ آفس کو مطلع کیا۔'’لندن روڈ‘: یورپی سیاحوں کے لیے پاکستان کا دروازہ سمجھی جانے والی سڑک جو ’ڈنکی روٹ‘ بن گئیکارگل کی جنگ، دنیا کا سب سے پرخطر سفر اور شاہراہ ریشم کے ’آخری تاجر کا خزانہ‘’پاکستان کی حمایت کرنے پر برہم‘ انڈیا ترکی کو کیسے نشانہ بنا رہا ہے؟ناران سے رتّی گلی کا پیدل ٹرِپ جس نے کراچی کے ایک ٹیلی کام انجینیئر کو ٹریول سٹارٹ اپ کا بانی بنا دیاان کا کہنا تھا کہ اطلاع ملنے پر مزید اہلکار اور مشینری موقع پر بھیجی گئی۔ ’مسئلہ یہ تھا کہ گاڑی تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ چار اہلکاروں کو رسی کے ذریعے نیچے اتارا گیا جنھوں نے بتایا کہ تین لاشیں گاڑی میں اور ایک باہر نیچے پڑی ہے۔ یہ لاشیں دریا سندھ سے کچھ فاصلے پر تھیں۔‘غلام رسول کا کہنا تھا کہ یہ کار قریب پانچ سو فٹ نیچے جا گری تھی اور خدشہ تھا کہ ’اگر یہ کسی رکاوٹ سے نہ رُکتیں تو یہ دریائے سندھ میں بہہ سکتی تھیں۔‘انھوں نے بتایا کہ لاشوں کو رسی کی مدد سے اوپر لایا گیا اور ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ جبکہ گاڑی کو اوپر لانے کے لیے اتوار کو کوششیں کی جائیں گی۔یہ حادثہ کیسے ہوا اور ہلاک ہونے والے سیاح کون تھے؟روندو سکردو کے مقامی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او علی کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق بظاہر ڈرائیو تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کر رہے تھے۔ ’جہاں پر حادثہ ہوا وہاں پر لینڈ سلائیڈنگ کا ملبہ گرا ہوا تھا جس کو صاف کر دیا گیا۔ اس مقام پر موڑ بھی تھا، (بظاہر) یہ وہاں سے تیز رفتاری سے آئے اور نیچے کھائی میں گِر گئے۔‘علی کا کہنا تھا کہ گاڑی کو توقع سے کم نقصان ہوا ہے۔ ’گاڑی کے اگلے اور پچھلے شیشے ٹوٹے ہیں جبکہ گاڑی کی چھت پر کوئی پتھر گرا ہے۔‘اسسٹنٹ کمشنر روندو سکردو محمد حسین بٹ کا کہنا تھا کہ ’سیاحوں کو چاہیے کہ وہ اس علاقے میں آتے ہوئے ہر قسم کے حفاظتی اقدامات اختیار کریں۔ تیز رفتاری سے تو بالکل گریز کریں۔‘ان کا کہنا تھا کہ گلگت سے سکردو اچھا روڈ بنا ہوا ہے مگر ’اس روڈ میں موڑ ہیں اور اس روڈ پر جو لوگ ریگولر ڈرائیونگ نہیں کرتے انھیں نہیں پتا ہوتا ہے کہ کہاں موڑ ہیں۔ جب وہ اچھا روڈ دیکھ کر تیز رفتاری کریں گے تو پھر حادثے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔‘محمد حسین بٹ کا کہنا تھا کہ ریسکیو اہلکاروں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ایک کامیاب آپریشن کیا۔ ’یہ مشکل آپریشن تھا جس میں ریسکیو اہلکاروں نے بہت ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ چاروں لاشوں کو نکال لیا گیا ہے اور جلد ہی لواحقین کے حوالے کر دی جائیں گی۔‘ریسکیو ترجمان کے مطابق حادثہ ایسی جگہ پر ہوا جہاں زیادہ آبادی نہیں اور نہ ہی موبائل سگنلز ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ’حادثہ ممکنہ طور پر رات کے وقت ہوا جس وجہ سے کسی کو پتا نہیں چل سکا۔‘ان کے مطابق یہاں خطرناک موڑ موجود ہیں اور لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوتی ہے۔ غلام رسول کا کہنا تھا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ حادثہ تیز رفتاری یا ڈرائیور کے تھکے ہونے کے باعث پیش آیا ہو۔وہ گلگت بلتستان آنے والے سیاحوں کو احتیاط برتنے کی تجویز دیتے ہیں۔ہلاک ہونے والے چار افراد میں نصراللہ شامل ہیں جو کہ پانچ سال بعد اٹلی سے پاکستان آئے تھے۔ ان کے دو دیگر کزن عمر احسان، واصف شہزاد اور مشترکہ دوست عثمان ڈار شامل ہیں۔عمر احسان ایک طالب علم تھے جنھوں نے حال ہی میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان دیا تھا۔ ان کے سوگواروں میں والدین شامل ہیں۔ تیسرے کزن واصف شہزاد نے سوگواروں میں دو کم عمر بچے اور ایک بیوہ چھوڑی ہے۔ وہ زمینداری کے کاروبار سے منسلک تھے۔ان تینوں کے مشترکہ دوست عثمان ڈار نے بھی سوگواروں میں والدین چھوتے ہیں۔تین کزنز کے قریبی عزیز محمد عثمان کے مطابق نصراللہ نے پاکستان واپس آنے سے پہلے ہی اٹلی میں ان تینوں کے ساتھ مل کر پروگرام بنایا تھا کہ وہ گلگت بلتستان جائیں گے۔ خیال ہے کہ یہ چاروں اس سے پہلے بھی یہاں آ چکے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ 'سب سے پہلے ہنزہ گئے تھے۔ وہاں پر کچھ دن رکنے کے بعد یہ واپس گلگت آئے تھے اور ان کا پروگرام تھا کہ یہ گلگت سے سکردو جائیں گے۔'محمد عثمان کا کہنا تھا کہ 'میری ان سے سولہ مئی کو بات ہوئی تھی۔ یہ اس وقت گلگت میں تھے اور بتا رہے تھے کہ اب انھوں نے سکردو جانا ہے۔'اس کے بعد ان کے موبائل بند ہوگئے تھے اور ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔'’پاکستان کی حمایت کرنے پر برہم‘ انڈیا ترکی کو کیسے نشانہ بنا رہا ہے؟ہائبرڈ نظام کی معاشی شکل اور فوج کا کردار: زراعت اور سیاحت سے متعلق ’ایس آئی ایف سی‘ کے منصوبوں پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟ناران سے رتّی گلی کا پیدل ٹرِپ جس نے کراچی کے ایک ٹیلی کام انجینیئر کو ٹریول سٹارٹ اپ کا بانی بنا دیاکارگل کی جنگ، دنیا کا سب سے پرخطر سفر اور شاہراہ ریشم کے ’آخری تاجر کا خزانہ‘’لندن روڈ‘: یورپی سیاحوں کے لیے پاکستان کا دروازہ سمجھی جانے والی سڑک جو ’ڈنکی روٹ‘ بن گئی