
پاکستان کا ایٹمی قوت بننا نہ صرف قومی سلامتی اور خودمختاری کی ضمانت ہے بلکہ یہ اسلامی دنیا کے لیے بھی اُمید کا نشان ہے۔ پاکستان نے 28 مئی 1998کو چاغی کے پہاڑوں میں یکے بعد دیگرے 5 ایٹمی دھماکے کر کے ہمسایہ اور دشمن ملک بھارت کی برتری کا غرور خاک میں ملا دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا ساتواں اورعالم اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔بھارت نے 11 مئی 1998 کو ایٹم بم کے دھماکوں کے بعد پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے لیے خطرات پیدا کردیے تھے اور علاقے میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے سے بھارت کے جارحانہ عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔ اس عدم توازن کا بھارتی گھمنڈ توڑنے کے لیے پاکستانی عوام کے علاوہ عالم اسلام کے پاکستان دوست حلقوں کی طرف سے سخت ترین دباؤ ڈالا جارہا تھا کہ پاکستان بھی ایٹمی تجربہ کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دے۔پاکستان کے اس اقدام کو امریکا اور یورپ کی تائید حاصل نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی صدر کلنٹن، برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی وزیراعظم موتو نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ پاکستان ایٹمی دھماکا نہ کرے ورنہ اس کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ دوسری طرف بھارت نے ایٹمی دھماکا کرنے کے علاوہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر فوج جمع کر دی تھی۔ اس طرح پاکستان بھارت جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔بھارت کے تکبر اور غرور کا یہ عالم تھا کہ اس کے سائنسدانوں کی طرف سے یہاں تک کہا گیا کہ CTBT بھارت کے لیے نہیں کمزور ممالک کے لیے ہے۔ اُدھر بھٹو نے 1966ء میں تجدید اسلحہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارت نے ایٹم بم بنا لیا تو چاہے ہمیں گھاس کھانا پڑے، ہم بھی ایٹم بم بنائیں گے ۔28 مئی 1998ء کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نگرانی اور دوسرے قومی سائنسدانوں کی معیت میں جب اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کیے تو پورا ملک خوشی و مسرت سے جھوم اٹھا۔امریکا نے وزیراعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کے لیے اپنی کوششیں آخری وقت تک جاری رکھیں، مگر وزیراعظم نواز شریف نے ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری پر کسی قسم کی سودے بازی سے صاف انکار کر دیا۔وزیراعظم نے ایٹم بم بنانے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نشان پاکستان کا اعزاز دیا ۔ پاکستان کاایٹمی پروگرام آج بھی پاکستان کے دفاع اور سلامتی کا ضامن ہے ۔