
اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے نظرثانی کی درخواست دائر کر دی ہے، جس میں فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کی اجازت دینے کے فیصلے کو واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے۔ سابق چیف جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے آئینی بینچ سے درخواست کی ہے کہ سپریم کورٹ نے حقائق اور قانون کا درست جائزہ نہیں لیا۔ نظرثانی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اگر فیصلے میں غلطی کی نشاندہی ہو جائے تو تصحیح کرنا عدالت کی ذمہ داری ہے۔درخواست کے مطابق فیصلے میں ایف بی علی کیس پر انحصار درست نہیں کیونکہ یہ فیصلہ 1962 کے آئین کے مطابق تھا جس کا اب وجود نہیں۔ اکیسویں ترمیم میں فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے نتیجے میں قائم کی گئی تھیں جبکہ موجودہ کیس میں کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوئی، اس لیے فیصلے پر انحصار بھی درست نہیں۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تضادات کا مجموعہ ہے، ایک جانب کہا گیا کہ فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب لکھا گیا کہ بنیادی حقوق یقینی بنانے کیلئے اپیل کا حق دیا جائے۔ 9 اور 10 مئی واقعات پر سپریم کورٹ کی آبزرویشن سے ٹرائل متاثر ہوں گے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالتوں میں زیر التواء مقدمات پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کا مؤقف فیصلے کا حصہ بنایا، جبکہ آئینی بینچ نے فیصلے میں شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا۔