
گذشتہ دنوں عید الضحی پر ریلیز ہونے والی ہارر فلم (ڈراؤنی) ’دیمک‘ کی جھلکیاں دیکھنے کا موقع ملا اور اس فلم کے نام کی طرح جھلکیوں نے بھی مایوس نہیں کیا۔اس فلم کی کاسٹ میں سونیا حسین، فیصل قریشی، جاوید شیخ، ثمینہ پیرزادہ اور بشری انصاری شامل ہیں جبکہ اس کی کہانی ایک ایسے خاندان کے بارے میں ہے جس پر ’جن کا سایہ‘ ہے جو سب کو پریشان کیے ہوئے ہے۔بطور فلم رائٹر، یہ عائشہ مظفر کی پہلی فلم ہے جبکہ رافع راشدیکی تیسری۔ اس فلم کی جھلکیاں دیکھ کر پہلا خیال یہ آیا کہ اس کا آئیڈیا کیسے ممکن ہوا؟بی بی سی اردو نے فلم کے ڈائریکٹر رافع راشدی کو تلاش کیا جو کینیڈا کے شہر اوکویل میں ملے۔ ان سے پہلا سوال یہی پوچھا کہ انھیں ’ہارر فلم‘ بنانے کی ہی کیوں سوجھی کیونکہ ماضی میں پاکستان میں جب ایسا تجربہ ’ذبح خانہ‘ نامی فلم کی شکل میں 15 برس پہلے کیا گیا تھا تو سنیما ہال سے قہقہوں کی آوازیں زیادہ آ رہی تھیں۔رافع نے بتایا کہ ’دیمک بنانے کا خیال چار، پانچ سال پہلے آیا تھا، ’یقین‘ کے نام سے۔ میں سپر نیچرل فلموں کا شیدائی ہوں اور بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں۔ میں کوئی سپر نیچرل فلم اپنے لوگوں کے لیے بنانا چاہتا تھا، مگر ویب سیریز ’بادشاہ بیگم‘ کی پروڈکشن میں مصروف ہو گیا۔ شارٹ فلم ’جامن کا درخت‘ بنانے لگا تو ٹائم نہیں ملا۔‘’اِن پراجیکٹس کو نمٹانے کے بعد ’ہارر‘ کی طرف آیا۔ کہانی میں منتخب کر چکا تھا کیونکہ جب میں موضوع کی تلاش میں تھا، تب میں نے مقامی رائٹرز کے ناول پڑھے تھے اور مجھے عائشہ مظفر کی کتابیں ’ابو جنز‘ اور ’جنستان‘ پسند آئیں۔ میں نے انھیں تلاش کیا اور پھر ان سے دو، تین سال تقریباً مسلسل گفتگو رہی۔‘کہیں یہ فلم کاپی تو نہیں؟انڈیا میں حال ہی میں ایسی کوششیں ہوئیں۔ ’ہانٹڈ‘، ’1920‘، ’راز تھری ڈی‘، ’ڈرنا منع ہے‘ وغیرہ۔ہارر فلموں کی کامیابی کے حوالے سے یہ کہنا ہی کافی ہے کہ گذشتہ ایک، ڈیڑھ سال سے پاکستان کے ویران سنیما گھروں کو چلانے کے لیے باہر سے ڈب کی ہوئی ہارر فلموں کو ہی لایا جا رہا ہے۔ تو یہ آئیڈیا کیا اِن فلموں کو دیکھ کر آیا؟اس پر رافع راشدی نے کہا کہ ’میری کہانی تو کافی پہلے سے تیار ہے۔ عائشہ مظفر کی کتابیں پڑھنے کے بعد مجھے لگا تھا کہ ان کے پاس وہ سٹائل تھا کہ وہ کہانی کے ساتھ انصاف کر سکیں گی۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ ان کے پاس ایک واقعہ تھا جو ہم نے اس فلم کے سکرپٹ اور سکرین پلے کے لیے ڈیویلپ کیا۔ ایک اصلی واقعہ۔ میں چاہتا تھا کہ کہانی ایسی ہو جو ہمارے اپنی ثقافتی جڑوں کو فالو کرے، اپنے گھر کی کہانی ہو، جنات پر مبنی ہو۔‘انھوں نے کہا کہ ’فلم کی کہانی ایک فیملی کے گرد گھومتی ہے جہاں یہ واقعات ہونا شروع جاتے ہیں۔ پیرانورمل اور بلیم گیم شروع جاتی ہے اور ہر شخص دوسرے پر جادو ٹونے کے الزام لگانے لگتا ہے۔‘ ’کیا ڈرامہ ہے‘: وہ شو جس کے نقادوں کے تبصرےڈرامے سے زیادہ وائرل ہو جاتے ہیںمیرے پاس ’فی الحال‘ تم ہو: پاکستانی فنکار اور دوسری شادی کا خبطصنم تیری قسم 2: ہرش وردھن کا ماورا کے ساتھ کام کرنے سے انکار، پاکستانی اداکارہ کا ’سستی شہرت‘ کا الزامقرضِ جاں ڈرامے میں ریپ اور قتل کے مجرم کا ’سافٹ امیج‘: ’مجرم نادم ہو تو مارجن دینا پڑتا ہے‘وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں تو ڈب فلمیں اب لگنا شروع ہوئی ہیں، جب میں نے کام شروع کیا، اس وقت ایسا کوئی سین نہیں تھا۔ جس طرح میں نے کہا میں ہارر فلمیں دیکھتا بھی ہوں اور مجھے مزہ بھی آتا ہے لیکن اس کو پاکستانی آڈینس کے لیے ڈیولپ کرنا ایک الگ چیز ہے کہ ہم کس طرح سے ایسی کہانی بنائیں اور اس کی نمائش کریں جو کم سے کم ہمارے روٹس کو فالو کریں۔‘رافع نے بتایا کہ ’دیمک‘ کی پوسٹ پروڈکشن کینیڈا سے ہی کروائی گئی ہے، جہاں سے انھوں نے اُس کمپنی سے اپنی فلم کے وی ایف ایکس پر کام کروایا جس نے ’ڈیتھ ریس‘ اور ’تھری تھاوسنڈز‘ جیسی فلموں پر کام کیا ہے۔ہارر فلم کی ’نان فلمی‘ کاسٹپاکستانی فلموں میں اکثر ایک ہی کاسٹ ایک ساتھ چار فلموں میں نظر آتی ہے۔تو جب رافع سے پوچھا کہ انھوں نے روایت سے ہٹ کر فلم کی کاسٹ کو کیسے چُنا، تو انھوں نے کہا کہ ’اداکاروں کو کام کے لیے رضامند کرنے کا طریقہ وہی پرانا تھا۔ پراڈکٹ بیچنے کے پرانے اصولوں پر عمل کیا اور ہر اداکار سے مل کر کردار اور کہانی بتائی۔‘’ہر اداکار نے اپنا اپنا پارٹ پڑھا۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ ثمینہ پیزادہ نے سب سے پہلے سکرپٹ کو قبول کیا، جس کا فائدہ بقیہ سب کو کاسٹ کرنے میں ملا۔‘ ان کے مطابق ’فیصل قریشی آئے جو کوئی 25 سال بعد کسی فلم میں کام کر رہے ہیں، پھر سونیا اس کے بعد، اور یوں پیکج بنتا گیا۔ بشریٰ انصاری کا رول چھوٹا ضرور ہے مگر انھیں پسند آیا۔‘رافع ہالی وڈ کے سٹیون اسپیل برگ سے متاثر ہیں۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ’فلم میکرز کو ہمیشہ فلم اپنے آڈیئنس کے لیے بنانی چاہیے۔‘رافع کے مطابق وہ سات سال کے تھے جب انھوں نے فلم ’شانی‘ سنیما میں دیکھی تھی اور اس کے بعد سعید رضوی ہی کی ’سر کٹا انسان‘ اور ’طلسمی جزیرہ‘ نے انھیں فلم میکر بننے پر مجبور کیا۔’دیمک‘ صرف ایک ہارر فلم نہیں بلکہ اس میں خاندانی رشتوں کی الجھنیں، معاشرتی مسائل اور ماورائی عناصر بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس بار بقر عید پر اس فلم کے مقابلے پر ہمایوں سعید اور ماہرہ خان کی ’لوو گرو‘ بھی لگ رہی ہے جو ایک کمرشل فلم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ چند بنگلہ دیشی اور ترک ہارر فلموں کو بھی ریلیز کیا جا رہا ہے۔ تو ایسے میں اب دیکھنا یہ باقی ہے کہ کیا شائقین کو بھی فلم ’دیمک‘ پسند آئے گی یا نہیں۔’کیا ڈرامہ ہے‘: وہ شو جس کے نقادوں کے تبصرےڈرامے سے زیادہ وائرل ہو جاتے ہیںصنم تیری قسم 2: ہرش وردھن کا ماورا کے ساتھ کام کرنے سے انکار، پاکستانی اداکارہ کا ’سستی شہرت‘ کا الزامقرضِ جاں ڈرامے میں ریپ اور قتل کے مجرم کا ’سافٹ امیج‘: ’مجرم نادم ہو تو مارجن دینا پڑتا ہے‘’سوشل میڈیا پر جو دکھاتی ہوں وہ میری نیچرل لائف ہے، باقی 70 فیصد پرائیویٹ رکھتی ہوں‘: ایمن خان میرے پاس ’فی الحال‘ تم ہو: پاکستانی فنکار اور دوسری شادی کا خبط