
Getty Imagesپاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک بھر میں پیٹرول پمپس پر ادائیگیوں کو ڈیجیٹلائز کرنے سے متعلق ایک منصوبے کو حتمی شکل دینے کی غرض سے سات رُکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔یہ کمیٹی ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت کے لیے نقد رقم کی بجائے کارڈ کے ذریعے یا آن لائن ادائیگی کی حوصلہ افزائی کو یقینی بنانے کے سلسلے میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔اس کمیٹی سے منسلک ممبران کا کہنا ہے کہ حکومت کا اس اقدام کا مقصد پاکستان میں کیش اکانومی کی حوصلہ شکنی کر کے دستاویزی معیشت کو فروغ دینا ہے۔حکام کے مطابق پاکستان میں کیش ادائیگی کے بجائے ڈیجیٹیل ادائیگی کے حوالے سے پہلے سے کام جاری ہے اور اس ضمن میں ڈیجیٹل ادائیگی کرنے والے صارفین کو مراعات دینے پر بھی کام ہو رہا ہے۔حکومتی کمیٹی میں کون کون شامل اور یہ کب تک سفارشات مرتب کرے گی؟حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق یہ کمیٹی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی ہدایت پر قائم کی گئی اور اس کی سربراہی چیف ڈیجیٹل آفیسر شرجیل مرتضیٰ کریں گے۔ کمیٹی میں ایف بی آر میں ڈیجیٹل اصلاحات کے مشیر علی جان خان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی، آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سینیئر نمائندے شامل ہیں۔’کرنداز پاکستان‘ اس کمیٹی کو تکنیکی اور سیکریٹریٹ معاونت فراہم کرے گا اور ایک حتمی تجویز ایف بی آر اور وزارت خزانہ کو پیش کرے گا۔آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کے چیئرمین عادل خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ کمیٹی ملک میں کیش اکانومی کی حوصلہ شکنی کے ساتھپیٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے تجاویز پر بھی غور کرے گی۔انھوں نے کہا کہ اس کمیٹی کے آئندہ اجلاسوں میں اس منصوبے کو کوئی حتمی صورت دی جا سکے گی۔ Getty Imagesکیا ’ڈیجیٹل ادائیگی‘ سے صارفین کو سستا پیٹرول مل سکے گا؟بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس کمیٹی کے ایک ممبر نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے پیٹرول پمپس پر پیٹرول و ڈیزل کی خریداری کے لیے ڈیجیٹل طریقوں سے ادائیگی کے لیے جو تجاویز اس وقت زیر غور ہیں ان کے مطابق ملک بھر کے پیٹرول پمپس نقد ادائیگی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل ادائیگی کے اختیارات بھی فراہم کریں، جن میں کیو آر کوڈز، ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز اور موبائل پیمنٹ سروسز شامل ہوں گی۔اس کمیٹی کے پہلے اجلاس کے دوران پیش کی گئی سرکاری دستاویز کے مطابق یہ اقدام حکومت کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت آئندہ بجٹ میں مختلف اقدامات متعارف کروا کر کیش اکانومی کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ اس حکومتی دستاویز میں پیش کی گئی تجویز کے مطابق مختلف شعبوں بشمول ایندھن کی قیمتوں میں نقد اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کے لیے الگ الگ ٹیکس اور لین دین کی شرح متعارف کروائی جا سکتی ہیں۔ اس کا مقصد کیش اکانومی کو بتدریج کماور آخر کار تکنیکی طور پر ممکنہ حد تک کیش لیس معیشت میں تبدیل کرنا ہے۔اس دستاویز کے مطابق ڈیجٹیل ادائیگی پر صارفین کو مراعات دی جا سکتی ہیں جبکہ کیش کی صورت میں ادائیگی پر انھیں زیادہ قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔کمیٹی کے ایک ممبر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ مثال کے طور پر اگر ایک صارف پیٹرول کی خریداری ڈیجیٹیل ادائیگی کی صورت میں کر رہا ہے تو اسے کیش ادائیگی کرنے والے کے مقابلے میں چند روپوں کی رعایت ملے گی تاکہ اسے ڈیجیٹل ادائیگی کی ترغیب دی جا سکے تاہم انھوں نے واضح کیا کہ فی الحال یہ تجویز ہے جس پر مزید غور و غوص ہونا باقی ہے۔اس منصوبے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟عادل خٹک نے بتایا کہ ’کمیٹی عید کی چھٹیوں کے بعد اپنے اجلاس میں اس پر مزید کام کرے گی۔تیل و گیس کے شعبے کے ماہر زاہد میر نے اس سلسلے میں بی بی سی کو بتایا کہ اس اقدام کے تحت حکومت کیش ٹرانزیکشن کو کم کرنا چاہتی ہے اور معیشت کو دستاویزی بنانا چاہتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’اگر پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی مارکیٹ کا جائزہ لیا جائے تو سالانہ بنیادوں پر اس کا حجم تقریباً پانچ ہزار ارب روپے ہے جس میں صرف پانچ فیصد کی ادائیگی ڈیجیٹل طریقے سے ہوتی ہے جبکہ باقی 4500 ارب روپے کی ادائیگی نقد میں ہوتی ہے جو بڑی رقم ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’اس نقد ادائیگی کو ڈیجیٹلائز کرنے سے معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں بھی مدد حاصل ہو گی جس کے لیے کیش ادائیگی کو ڈیجیٹل دائیگی کے مقابلے میں مہنگا کرنے کی تجاویز زیر غور ہیں۔‘Getty Imagesپٹرول پمپس کو ڈیجیٹلائز کرنے سے سمگلنگ کیسے رکے گی؟ایک جانب حکومت پیٹرول پمپس پر پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری پر ڈیجیٹیل ادائیگیوں کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہے تو اسی طرف ملک بھر کے پٹرول پمپس پر تیل کی سپلائی کو بھی ڈیجیٹلائز طریقے سے ٹریک کرنے پر کام کر رہی ہے تاکہ اس کے ذریعے ایسے پیٹرول پمپس پر سمگل شدہ تیل کی فروخت کی روک تھام کی جا سکے جو کوالٹی میں ناقص ہونے کے ساتھ حکومتی خزانے میں بھی نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔عادل خٹک نے اس سلسلے میں بتایا کہ سمگل شدہ ایرانی تیل سے حکومت کو ریونیو کی مد میں ایک ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ملک کے قانونی طریقے سے کام کرنے والے شعبے کو بھی اس سے نقصان پہنچتا ہے۔ انھوں نے کہا ’پٹرول پمپس پر فیول سپلائی کو ڈیجیٹلائز کرنے سے پتا چلے گا کہ کون سی ریفائنری سے کتنا تیل ایک کمپنی نے خریدا اور اسی طرح کتنا تیل اس نے امپورٹ کیا۔‘انھوں نے کہا ’اس کمپنی کے پیٹرول پمپس پر اس کمپنی کا کتنا تیل سپلائی کیا گیا اور کس پمپ نے کتنا فروخت کیا، یہ سارا سسٹم ڈیجیٹلائز کرنے سے تیل کی سپلائی اور اس کی فروخت کا پورا نظام ٹریک اور ٹریس ہو سکے گا جس سے اس شعبے میں سمگلنگ کی روک تھام ہو سکے گی۔‘زاہد میر نے کہا ملک پٹرول پمپس پر تیل سپلائی کے دو طریقے ہیں۔ ’ایک مقامی ریفائنری میں بننے والی تیل مصنوعات کی ان کی پمپس پر سپلائی اور دوسرا درآمد ہونے والی پٹرولیم مصنوعات کی ان پمپس پر فراہمی ہے۔‘انھوں نے کہا ’ان کی سپلائی سے لے کر پیٹرول پمپس کے ٹینک میں ان کو ذخیرہ کرنے سے لے کر ان کی فروخت کو ڈیجیٹلائز کیا جائے گا تاکہ سپلائی اور فروخت کے اصل اعداد و شمار کے ذریعے پتا لگایا جا سکے کہ ان پمپس پر قانونی طریقے سے سپلائیہونے والا تیل فروخت ہو رہا ہے یا سمگل شدہ تیل بھی اس کے ساتھ فروخت کیا جا رہا ہے۔‘