
Getty Imagesجنوبی ایشیا نے گذشتہ ماہ کے آغاز میں رواں صدی کے دوران اب تک ہونے والی سب سے بڑی فوجی کشیدگی کا سامنا کیا جس کے دوران انڈیا اور پاکستان ’باقاعدہ جنگ‘ کے دہانے پر پہنچے اور دونوں ممالک میں اس تنازعے کے ایٹمی جنگ میں بدل جانے سے متعلق خدشات کا اظہار بھی کیا گیا۔اس کشیدگی کا آغاز انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو سیاحوں پر ہوئے شدت پسندوں کے ایک ایسے حملے سے ہوا جس میں 26 لوگوں کی ہلاکت ہوئی اور اس تناظر میں 6 مئی سے 10 مئی کے دوران دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان میزائل اور ڈرون حملوں کا تبادلہ ہوا اور بلآخر عالمی دباؤ کے تحت جنگ بندی ممکن ہوئی۔باقاعدہ کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب چھ اور سات مئی کی درمیانی شب انڈیا نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا۔ پے در پے پیش آنے والے واقعات کے اس ڈرامائی سلسلے میں دونوں جانب سرحد اور کنٹرول لائن پر آباد شہری کراس فائر میں بھی پھنسے جس سے ہلاکتیں اور تباہی ہوئی۔بی بی سی اُردو اور ہندی کی ٹیمیں اس چار روزہ کشیدگی کے دوران پاکستان اور انڈیا کے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے زیر انتظام کشمیر میں تعینات رہیں اور جو کچھ انھوں نے دیکھا وہی اس رپورٹ میں تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے۔Getty Imagesسات مئی: انڈیا کا ’آپریشن سندور‘آدھی رات کے کچھ دیر بعد یہ خبر بریک ہوئی۔ فون بجنے لگے اور دونوں ممالک میں مقامی ٹی وی چینلز کی سکرینیں سُرخ اور ’بریکنگ نیوز‘ سے بھر گئیں اور سوشل میڈیا ’آپریشن سندور‘ کی اصطلاح جا بجا نظر آنے لگی۔صبح دو بجے کے لگ بھگ انڈین حکومت نے ایک سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے تصدیق کی انڈین مسلح افواج نے ’پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کے نو مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں سے انڈیا کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی اور ہدایت کی گئی۔‘ انڈین حکومت نے یہ بھی بتایا کہ ’آپریشن سندور‘ پہلگام حملے کے جواب میں شروع کیا گیا ہے۔پہلگام حملے کے بعد سے ہی پاکستان میں یہ خدشہ موجود تھا کہ انڈیا جلد یا بدیر ’سرجیکل سٹرائیکس‘ کر سکتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسا کہ پلوامہ حملے کے بعد ہوا تھا۔پاکستان میں حکام پہلے ہی بتا چکے تھے کہ اس تناظر میں تینوں مسلح افواج ہائی الرٹ پر تھیں اور کسی بھی صورتحال کے تیار۔انڈین موقف کے مطابق ان نو میں سے پانچ اہداف پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں تھے جبکہ باقی چار پاکستانی پنجاب میں واقع تھے۔ ان چار میں سے دو مقامات ورکنگ باؤنڈری یا بین الاقوامی سرحد کے قریب تھے، جو انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کو پاکستانی پنجاب سے جدا کرتی ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کے اندرونی علاقوں میں مریدکے اور بہاولپور پر بھی حملے کیے گئے، جنھوں نے خاصی توجہ حاصل کی کیونکہ پاکستانی پنجاب کے اتنے اندر آخری بار حملے 1971 کی پاکستان، انڈیا جنگِ کے دوران کیے گئے تھے۔دوسری جانب پاکستان کی جانب سے سرکاری طور پر بتایا گیا کہ ملک میں سات مقامات پر ہوئے انڈین حملوں میں 40 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ان حملوں میں مساجد اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔دوسری جانب انڈیا میں اس بات کا خدشہ تھا کہ رات گئے ہونے والے انڈین حملے کا سرحد پار سے ردعمل کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔پاکستان شہروں اور اس کے زیر انتظام کشمیر پر ہوئے میزائل حملوں کے فورا بعد بی بی سی اُردو کی ٹیم اسلام آباد سے مظفرآباد بذریعہ سڑک روانہ ہوئی جبکہ دہلی میں موجود بی بی سی ہندی کی دو رپورٹنگ ٹیموں کی مشکل یہ تھی کہ ایئرسپیس بند ہونے اور فلائٹس منسوخ ہونے کے بعد وہ یہ سوچ رہے تھے کہ جموں کشمیر تک کا 12 گھنٹے کا سفر کیسے ممکن بنایا جا سکے۔BBCمسجد بلالBBCپنجاب کے شہر مریدکے میں وہ مقام جہاں میزائل حملہ کیا گیادہلی میں موجود ایک ٹیم نے بذریعہ ریل گاڑی جبکہ دوسری ٹیم نے بذریعہ ٹیکسی سروس اس سفر کا آغاز کیا۔بی بی سی اُردو کی ٹیم صبح آٹھ بجے شہر میں موجود اُس مسجد تک پہنچی جسے حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔یہ حملہ سیدنا بلال نامی مسجد پر اُس وقت ہوا تھا جب اس مسجد کے ارد گرد گھروں میں لوگ رات گہری نیند میں تھے۔ یکے بعد دیگرے دھماکوں کی آوازوں نے شہریوں کو حیرت، خوف اور غصے میں مبتلا کر دیا۔حملے کے بعد اس علاقے میں فوج کی نفری تعینات تھی اور پولیس کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ مسجد کی جانب جانے والے راستے کو سیل کر دیا گیا تھا اور میڈیا سمیت کسی بھی شخص کو وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی۔شہر میں خوف کا سا سماں تھا، مارکیٹس اور تعلیمی مراکز بند کر دیے گئے تھے۔ وہاں ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ شیلنگ کے خوف سے لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقے سے مظفر آباد شہر آ گئے تھے مگر انھیں توقع نہیں تھی کہ شہر کے اندر بھی میزائل حملے کیے جائیں گے۔مسجد مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی اور قریبی گھروں کی کھڑکیاں اور دیواریں بھی متاثر ہوئی تھیں۔ مقامی افراد نے بتایا کہ جیسے ہی پہلا دھماکہ ہوا، لوگ ننگے پاؤں، سہمے ہوئے گلیوں میں دوڑ پڑے۔ ان میں سے کئی افراد صبح واپس لوٹے تاکہ اپنے گھروں کو تالے لگا سکیں۔ ہم نے شہر کے مختلف حصوں سے لوگوں کو مسجد کی جانب آتے دیکھا جو صرف یہ دیکھنے آئے تھے کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔اسی روز بی بی سی کی دیگر ٹیموں نے مریدکے اور بہاولپور سے بھی رپورٹ کیا جہاں صورتحال خاصی پریشان کن تھی۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ان میزائل حملوں سے مختلف مقامات کو نشانہ بنایا اور انڈیا کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ ہدف کالعدم جماعتوں سے منسلک ’دہشت گردی کے مراکز‘ تھے۔بی بی سی اُردو کی ٹیم جب مریدکے پہنچی تو وہاں مقامی افراد بڑی تعداد میں اس مقام پر جمع تھے جہاں گذشتہ رات فضائی حملہ کیا گیا تھا۔جنرل انیل چوہان کے انٹرویو پر انڈیا میں ردِعمل: ’بلومبرگ ٹی وی پر نقصانات کا اعتراف کر سکتے ہیں تو اپنے ملک میں خاموشی کیوں؟‘الیکٹرانک سگنیچر: انڈیا اور پاکستان کے ایک دوسرے کی سرحدی حدود میں طیارے مار گرانے کے دعوؤں کی تصدیق کیسے ممکن ہے؟پاکستان کا انڈین براہموس میزائل ’ہدف سے بھٹکانے‘ کا دعویٰ: کیا تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںوہاں موجود ایک شخص نے بتایا کہ ’میں اپنی چھت پر لیٹا ہوا تھا۔ جب دو میزائل آئے اور ہمارے اُوپر سے گزرے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک میزائل زمین سے ٹکرایا اور اس کے بعد ایک منٹ کے لیے پورے علاقے میں لائٹ چلی گئی۔ پھر بجلی بحال ہوئی تو دوسرا میزائل بھی گر گیا۔ بہت شور تھا اس کا، میزائل گرنے کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان کا رنگ سُرخ ہو گیا۔‘پاکستانی فوج کے ترجمان کا دعویٰ تھا کہ حملہ شہری علاقوں پر ہوا جس میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا اور یہ کہ انڈیا کا یہ دعویٰ کہ اس نے دہشت گرد کیمپوں کو نشانہ بنایا ہے ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ ہے۔بی بی سی ہندی کو پہلی رپورٹ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے موصول ہوئی جس میں مبینہ پاکستانی شیلنگ کے نتیجے میں تباہ ہونے والے گھروں اور عمارتوں کو دکھایا گیا۔ کچھ ہی دیر میں انڈیا نے تصدیق کی کہ پاکستان کی جانب سے کی گئی کارروائی کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔BBCانڈیا کے زیر انتظام جموں میں گھروں کو نقصان پہنچاسرینگر کے قریب واقع بارہمولا ہسپتال میں بی بی سی نے کئی زخمی افراد کو دیکھا جو شیلنگ کے باعث زخمی ہوئے تھے اور زیر علاج تھے۔ ضلع اُڑی میں متاثر ہونے والے چند مکانوں اور عمارتوں سے اُس وقت بھی دھواں بلند ہو رہا تھا جب بی بی سی کی ٹیم وہاں پہنچی۔اُس روز دوپہر تک پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے مشرقی اور شمال مغربی فضائی حدود کو بند کرتے ہوئے ہوائی جہازوں کے لیے انتباہی نوٹس جاری کر دیے۔ لاہور، راولپنڈی اور کراچی کی فضا میں لڑاکا طیاروں کی پروازیں دیکھی گئیں، اور اسلام آباد کی اہم سڑکوں پر فوجی گاڑیوں کی غیر معمولی نقل و حرکت شروع ہو گئی۔اسی دوران وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ہنگامی اجلاس وزیرِ اعظم ہاؤس میں بلایا اور سرکاری اعلامیے میں کہا گیا کہ وزیرِ اعظم نے مسلح افواج کو 'وقت اور جگہ کا تعین خود طے کر کے انڈیا کی اشتعال انگیزی کے خلاف جوابی کاروائی' کی اجازت دے دی ہے۔شام ڈھلتے ہی لائن آف کنٹرول کے متعدد سیکٹرز سے شدید گولہ باری، شیلنگ اور فوجی پوسٹوں اور رہائشی علاقوں پر فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔آٹھ مئی: جنوبی ایشیا کی پہلی ڈرون جنگGetty Imagesپاکستانی حکام مبینہ انڈین ڈرون کا ملبہ اکٹھا کرتے ہوئےرات بھر لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف موجود بی بی سی کی ٹیموں کو گولہ باری اور شیلنگ کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں اور صبح ہوتے ہی اس خطے یعنی جنوبی ایشیا کی پہلی ڈرون جنگ شروع ہو چکی تھی جبکہ کشیدگی کم کروانے کی غرض سے سفارتی کوششوں کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔ہر گھنٹہ نئی پیشرفت لا رہا تھا اور خطہ ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑا دکھائی دے رہا تھا۔مختلف شہروں میں شہریوں نے اپنے گھروں کی چھتوں پر ڈرونز اڑتے دیکھے اور سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہونا شروع ہو گئیں۔انڈیا نے ایک بیان جاری کیا کہ اس نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب پاکستان کی جانب سے ڈرون اور میزائلوں کے ذریعے شمالی اور مغربی انڈیا میں متعدد فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے جبکہ پاکستان میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے فضائی دفاعی نظام نے ملک کے مختلف علاقوں میں گھس آنے والے دو درجن سے زائد انڈین ڈرونز کو مار گرایا ہے۔لاہور، گوجرانوالہ، چکوال اور راولپنڈی اور کراچیجیسے شہروں میں یہ ڈرونز حسّاس مقامات کے قریب گرتے دیکھے گئے جبکہ کچھ مقامات پر شہریوں نے آسمان میں دھوئیں کی لکیریں بنتے اور سائرن بجتے سنے۔دوپہر کے وقت پاکستان میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی گئی جس میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے میڈیا کو بتایا کہ انڈیا کی جانب سے لگائے گئے الزامات ’من گھڑت اور بے بنیاد‘ ہیں۔پاکستان نے ایک بار پھر پہلگام واقعے کی عالمی سطح پر انکوائری کا مطالبہ کیا اور اس بات کو دہرایا گیا کہ اگر ’اشتعال انگیزی بڑھی تو جواب ضرور دیا جائے گا۔‘دوسری جانب انڈین خارجہ سیکریٹری وکرم مصری نے کہا کہ 'ہم کشیدگی کو بڑھاوا نہیں دے رہے بلکہ ہم جوابی کارروائی کر رہے ہیں۔'بی بی سی کی ٹیم نے شہر کے وسطی علاقوں میں شہریوں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ اگرچہ جانی نقصان کی اطلاع نہیں تھی، لیکن خوف اور بے چینی کی فضا چھائی ہوئی تھی جبکہ تعلیمی ادارے بند کیے جا چکے تھے۔راولپنڈی میں ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک ڈرون مبینہ طور پر کرکٹ سٹیڈیم کے قریب مار گرایا گیا۔ اس کے بعد پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا شیڈول میچ ملتوی کر دیا گیا اور بعد میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے باقی میچز کو متحدہ عرب امارات منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور بعدازاں اس فیصلے کو بدلتے ہوئے باقی میچز پاکستان میں کروائے گئے۔Getty Imagesپاکستان حکام کے مطابق راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم کے قریب ایک انڈین ڈرون گرنے سے نقصان ہواشام ہوتے ہی بین الاقوامی سفارتی کوششیں تیز ہو گئیں۔ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان اور انڈیا میں اعلی حکام پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکیں۔دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ایک سخت بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر موجودہ صورتحال کو نہ روکا گیا تو جوہری جنگ ’حقیقی اور موجود خطرہ‘ بن جائے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو دفاع کا حق ضرور استعمال کرے گا۔آٹھ مئی کو دونوں ممالک نے اپنی عسکری صلاحیتیں کھل کر استعمال کیں، اور ساتھ ہی بین الاقوامی قوتیں بھی میدان میں آئیں تاکہ اس خطرناک تصادم کو روکا جا سکے۔آٹھ مئی کی رات مظفر آباد کے قریبی سیکٹرز میں گولہ باری جاری رہی اور لائن آف کنٹرول پر لوگ بنکرز میں قید رہے۔ یہ گولہ باری اتنی شدید تھی کہ مظفر آباد میں اس ہوٹل سے دیکھی جا سکتی تھی جہاں بی بی سی اُردو کی ٹیم ٹھہری ہوئی تھی۔ شہر میں بلیک آوٹ کی ہدایات تھیں اور سیاح کشمیر سے واپس جا چکے تھے۔ یہاں ہوٹلوں میں میڈیا کی اکا دکا ٹیمز کے علاوہ کوئی موجود نہیں تھا۔دوسری جانب شام گئے بی بی سی ہندی کی ٹیم بالآخر پونچھ ضلع پہنچی اور ان لوگوں سے ملاقات کی جنھوں نے گذشتہ رات ہونے والی جھڑپوں، فائرنگ اور شیلنگ پر بات کرتے ہوئے اسے ’قیامت کی رات‘ کہا۔جیسے ہی اندھیرا چھا گیا سرحدی علاقوں میں فضائی حملے کے سائرن بجائے گئے۔ انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر اورپنجاب اور راجستھان کے سرحدی علاقوں میں بلیک آؤٹ نافذ کر دیا گیا۔پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول کے قریب مختلف علاقوں میں تعینات بی بی سی ہندی کی ٹیموں نے ڈرون سے نکلنے والی ٹمٹماتی روشنیاں دیکھیں اور دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنیں۔بعدازاں انڈین فوج نے تصدیق کی کہ پاکستان نے تین فوجی اڈوں جموں، پٹھانکوٹ، ادھم پور پر حملہ کیا تھا اور تمام حملوں کو ناکام بنا دیا گیا تھا۔Getty Imagesانڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے اڑی میں ایک بزرگ شہری کراس بارڈر شیلنگ اور گولہ باری سے تباہ ہونے والے اپنے گھر کو دیکھ رہا ہےنو مئی: تنازعے کا تیسرا دناس کشیدگی کے دوران نو مئی کا دن سول اور عسکری حکام کی جانب سے آنے والے بیانات، پریس کانفرنسز اور پس پردہ سفارتی کوششوں کے نام رہا۔دونوں ملک ایک دوسرے پر اشتعال انگیزی کے الزامات لگاتے رہے اور دونوں ہی طرف ڈرونز کی لڑائی نو مئی کو بھی جاری رہی۔لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب موجود بی بی سی ہندی کی ٹیم کے لیے گذشتہ رات کافی سخت تھی۔ ضلع پونجھ میں موجود ٹیم کو وہ رات بنکر میں گزارنا پڑا اور صبح جب وہ لوگ باہر نکلے تو ہر طرف تباہی کے مناظر تھے۔ وہ خاندان جن کے پیارے شیلنگ اور گولہ باری کے نتیجے میں مارے گئے تھے وہ غم زدہ تھے اور غصے سے بھرے ہوئے تھے۔وہاں بی بی سی ہندی کی ٹیم کو ایک نوجوان لڑکی ملی جس کے والد ایک دھماکے میں مارے جا چکے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ آپریشن پہلگام میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے تھا، اب میرے والد کے لیے کیا کیا جائے گا؟ مجھے انصاف کیسے ملے گا؟‘BBCانڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں شیلنگ سے مارے جانے والے ایک شخص کے اہلخانہ آہ و زاری کر رہے ہیںوہاں موجود کئی خاندانوں نے یہ شکایت بھی کی کہ انھیں حکام کی طرف سے بروقت خطرے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ایک ادھیڑ عمر خاتون،جن کا بھانجا اور بھانجی، کراس فائر میں مارے گئے تھے، انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’اگر ہمیں انڈیا کی جانب سے حملے کے آغاز سے قبل یہاں سے بحفاظت نکال لیا جاتا تو شاید آج ہمارے بچے زندہ ہوتے۔‘جیسے ہی شام ڈھلی تو انڈیا اور پاکستان میں سرحد اور لائن آف کنٹرول کے ساتھ بلیک آؤٹس کا نفاذ کیا گیا جبکہ سرحدی علاقوں سے لگاتار ڈرونز اور شیلنگ کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔اُسی شام راولپنڈی میں فوجی ہیڈکوارٹرز میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نےبین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کے سامنے ایک طویل پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس پریس کانفرنس میں پاکستان ایئرفورس کے ایئروائس مارشل اورنگزیب بھی شریک ہوئے۔ اس بریفنگ کے دوران پہلی بار پاکستان نے سات مئی کی رات ہونے والے انڈین حملے کی تفصیل بتائیں اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ کیسے اُس رات پاکستانی ایئرفورس نے انڈین طیارے مار گرائے۔ اس پریس کانفرنس میں الیکٹرانک سگنیچرز کی بات کی گئی اور وہ ’شواہد‘ پیش کیے گئے جو طیارے گرائے جانے کے ضمن میں کیے جا رہے تھے۔Getty Imagesپاکستان کا دعویٰ ہے کہ فضائی حملے کے دوران انڈیا کے چھ فوجی طیارے مار گرائے تھے اسی دوران وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بی بی سی اور جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، لیکن اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا اس کی مجبوری ہے۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بیک چینل رابطے کھلے ہوئے ہیں مگر انڈیا کی جانب سے تاحال کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نہیں آئی۔اسی دوران پس پردہ سفارتکاری نے شکل اختیار کرنا شروع کی اور متعدد ممالک کے سول اور فوجی حکام نے دونوں جانب اعلی رہنماؤں سے رابطہ کیا اور کشیدگی کو نہ بڑھانے سے متعلق بیانات جاری کیے گئے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک بار پھر پاکستان اور انڈیا میں حکام سے بات کی۔ان سفارتی کوششوں کے بیچ نو مئی کو تقریبا تمام بڑی ایئرلائنز نے پاکستان کے اپنے آپریشنز کو روک دیا تھا۔ تاہم آٹھ مئی کی طرح اس دن دونوں جانب کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا۔لیکن دس مئی کو حالات تیزی سے تبدیل ہوئے اور بات ایک بار پھر جنگ کی نہج پر پہنچ گئی۔دس مئی: پاکستان کا ’آپریشن بنیان المرصوص‘نو اور دس مئی کی رات انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا سب سے خطرناک مرحلہ ثابت ہوئی۔ جبدونوں جوہری طاقتوں کے درمیان فوجی جھڑپیں ہوئیں، جوہری ہتھیاروں کا بالواسطہ حوالہ دیا گیا مگر بلآخر بین الاقوامی دباؤ کے تحت ایک جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہوا۔اُسی رات تقریباً 1:45 بجے پاکستان کے فوجی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ انڈیا نے چھ میزائل فائر کیے، جو تمام کے تمام بھارتی پنجاب میں گرے۔تاہم اگلی صبح یعنی دس مئی کو انڈین حکام نے بریفنگ میں دعویٰ کیا کہ رات گئے پنجاب میں کئی فضائی اڈوں پر حملے کیے گئے۔تقریباً رات ڈھائی بجے انڈیا کی جانب سے نور خان ایئربیس کو نشانہ بنایا گیا، جو راولپنڈی کے قریب چکلالہ کے وسیع فوجی چھاؤنی کا حصہ ہے۔ دھماکے اتنے شدید تھے کہ قریبی پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے رہائشیوں نے بھی سُنے اور محسوس کیے۔نور خان ایئربیس اُن کم از کم گیارہ مقامات میں سے ایک تھا، جنھیں 9 اور 10 مئی کی درمیانی شب بھارت نے نشانہ بنایا۔ابتدائی حملوں میں نور خان، رفیقی، رحیم یار خان اور سکھر کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد انڈین فضائیہ کے مطابق، سرگودھا، بھولاری اور جیکب آباد کے فضائی اڈوں پر حملے کیے گئے۔ان حملوں کے بعد پاکستان نے ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کیا، جسے ’آپریشن بنیان المرصوص‘ کا نام دیا گیا۔ اس کارروائی میں جموں، اودھم پور، اور پٹھان کوٹ میں واقع انڈین فوجی اڈوں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے۔اسی دوران دوپہر کے وقت عالمی سفارتی کوششیں شدت اختیار کر گئیں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نائب صدر جے ڈی وینس نے براہ راست پاکستان اور انڈیا کے رہنماؤں سے رابطہ کیا اور تحمل اور مذاکرات پر زور دیا۔اور بلآخر صدر ٹرمپ کی ٹروتھ سوشل پر وہ پوسٹ سامنے آئی جس میں انھوں نے اعلان کیا 'امریکہ کی ثالثی سے ہونے والی طویل رات کی بات چیت کے بعد، میں یہ اعلان کرتے ہوئے خوش ہوں کہ انڈیا اور پاکستان نے فوری اور مکمل جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔'پاکستان کے وزیرخارجہ کی جانب سے جنگ بندی کی تصدیق کی گئی اور چند ہی منٹ بعد امریکی وزیر خارجہ روبیو نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں نے فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے اور وہ ایک غیرجانبدار مقام پر مختلف مسائل پر جامع مذاکرات کا آغاز کریں گے۔‘اور اس کے بعد دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان رابطے بھی بحال ہو گئے۔تاہم جنگ بندی کے فوری بعد اس کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات سامنے آئیں۔ سری نگر اور جموں میں گولہ باری اور کراس بارڈر فائرنگ کی خبریں آئیں، اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔ انڈین حکام نے پاکستانی کارروائیوں کی مذمت کی جبکہ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی اور جنگ بندی پر عمل درآمد کے عزم کا اظہار کیا۔الیکٹرانک سگنیچر: انڈیا اور پاکستان کے ایک دوسرے کی سرحدی حدود میں طیارے مار گرانے کے دعوؤں کی تصدیق کیسے ممکن ہے؟جنرل انیل چوہان کے انٹرویو پر انڈیا میں ردِعمل: ’بلومبرگ ٹی وی پر نقصانات کا اعتراف کر سکتے ہیں تو اپنے ملک میں خاموشی کیوں؟‘پاکستان کا انڈین براہموس میزائل ’ہدف سے بھٹکانے‘ کا دعویٰ: کیا تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیں