
Getty Imagesایران اسرائیل کشیدگی چوتھے روز میں داخل ہو گئی ہے اور اس دوران ایران اور اسرائیل نے ایک دوسرے پر متعدد فضائی حملے کیے ہیں۔ جمعے سے جاری حملوں میں اب تک ایران میں کم از کم 224 شہری ہلاک جبکہ اسرائیل میں از کم 24 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔تہران میں اسرائیلی حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور بی بی سی نے ایران میں موجود پاکستانی شہریوں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ لوگ وہاں اسرائیل کے حملوں کے بعد کیا سوچ رہے ہیں، کیا تہران میں خوف کی فضا ہے اور ملک میں معمولات زندگی کیسے ہیں۔ایران کے دارالحکومت تہران میں موجود ایک پاکستانی طالب علم سخی عون محمد بتاتے ہیں کہ کسی بھی مقام پر بمباری کے بعد پورے شہر میں خاموشی چھا جاتی ہے۔تہران یونیورسٹی آف سائنسز میں فائنل ایئر کے طالبعلم سخی کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تہران میں ’دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں مگر لوگوں میں خوف کم ہی دیکھا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ایرانی شہریوں کو دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے تہران کے لوگ ’ان (اسرائیلی) حملوں کے لیے پہلے سے تیار تھے۔‘ایران میں پاکستانی سفارتخانے کے مطابق اسرائیل کے ایران پر حملے کے وقت چار ہزار سے پانچ ہزار کے قریب زائرین موجود تھے، جن کی کچھ تعداد واپس پہنچ چکی ہے اور کچھ واپسی کے راستوں پر ہے۔پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے ایک بیان کے مطابق ایران سے پاکستان کا ہوائی سفر بند ہے تاہم 51 طالبعلم اور 500 کے قریب زائرین پیر تک پاکستان واپس پہنچ جائیں گے۔ایران کی مختلف یونیورسٹیوں میں ایک ہزار پاکستانی طلبا زیر تعلیم ہیں۔ اوورسیز پاکستانی فاونڈیشن کے مطابق سال 2023 میں 35 ہزار پاکستانی ایران میں رہائش پذیر تھے۔ ان میں سے چند دہرے شہری ہیں۔ پاکستانی شہری تعلیم، کاروبار یا ملازمت کے لیے ایران میں مقیم ہیں۔Getty Images’ہم تہران میں میزائل گِرتے دیکھ رہے تھے‘سخی اور ان کے ساتھی پاکستان واپسی کا سفر کر رہے ہیں اور انھیں پیر کو بلوچستان سرحد پر واقع تفتان بارڈر پہنچنے کی امید ہے۔ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو 13 جون کی شام کا وہ وقت یاد ہے جب اسرائیل نے تہران پر میزائل اور ڈرون حملے شروع کیے تھے۔سخی بتاتے ہیں کہ تہران میں کئی دنوں سے یہ بازگشت تھی کہ اسرائیل ’کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے۔‘سخی عون محمد یونیورسٹی آف سائنسز تہران کے فردوسی ہاسٹل میں مقیم تھے۔ جہاں پر دیگر پاکستانی اور بین الاقوامی طالب علم بھی رہائش پذیر تھے۔سخی عون محمد کا کہنا تھا کہ 13 جون کو ایران کے سرکاری وقت کے مطابق رات تقریباً آٹھ بجے ایک زور دار دھماکہ ہوا تو ’ہم سب سمجھ گئے کہ اسرائیل نے حملہ کر دیا ہے۔ اس کے بعد متعدد دھماکوں اور سائرن کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ ہم پر ہاسٹل سے نکلنے کی سخت پابندی تھی مگر ہم ہاسٹل سے دیکھ سکتے تھے کہ ایران کا دفاعی نظام میزائل اور ڈرون روک رہا تھا جبکہ کچھ زمین پر گر بھی رہے تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ یہ سلسلہ 13جون کے بعد بھی جاری رہا۔ ’ہمارے ہاسٹل کے سامنے ایک عمارت پر بھی ڈرون گرا تھا۔ ہم اپنے سامنے ڈرون اور میزائل دیکھ سکتے تھے۔‘سخی عون محمد کا کہنا تھا کہ ’تہران میں مرکزی سڑکوں، بازاروں پر لوگ کم نکلتے تھے۔ مگر اس کی وجہ خوف نہیں تھا بلکہ احتیاط تھی۔ تہران کے لوگ اپنی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کر رہے تھے جبکہ گلی محلوں میں لوگ باہر نکلتے تھے۔ اصل میں تہران کے لوگ اس حملے کے لیے تیار تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ان دھماکوں سے ہاسٹل میں موجود بین الاقوامی طالب علموں خوف میں مبتلا ہوئے مگر یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ان طلبا کا حوصلہ بلند رکھنے کی کوشش کی اور ان کا پورا ساتھ دیا۔کیا ایران چند ماہ میں ایٹمی طاقت بننے والا تھا؟اسرائیلی حملوں میں فوجی قیادت کی ہلاکتوں پر ’انتقام‘ کا اعلان: ایران کے نئے فوجی کمانڈر کون ہیں؟اہم شخصیات کی ہلاکتیں اور جوہری تنصیبات پر حملے: اسرائیل کا ایران میں ’ریجیم چینج‘ کا ممکنہ آخری داؤ جو ایک جُوا ہو سکتا ہےاسرائیل کی ایران کا ایٹمی پروگرام روکنے کی کوشش جو مشرقِ وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی ’نئی دوڑ شروع کر سکتی ہے‘محمد عارف کراچی کے رہائشی ہیں اور برسوں سے کاروبار کے لیے تہران میں اپنے خاندان کے ہمراہ مقیم ہیں۔عارف کہتے ہیں کہ ’میں نے ابھی تک تہران میں ایسی بے چینی کی صورتحال نہیں دیکھی ہے۔ یہاں پر خوف کی فضا بھی نہیں دیکھی ہے۔ میں نے فضا میں دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔ مگر اس کا تہران کے لوگوں پر زیادہ اثر نہیں دیکھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’تہران میں کافی تعداد میں پاکستانی آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر اپنے کاروبار سے منسلک ہیں۔‘ان کے بقول ان سمیت دیگر پاکستانی کاروباری افراد نے خود یہ فیصلہ کیا ہے کہ ’ابھی ایسی صورتحال نہیں کہ ہم تہران چھوڑیں۔ میں اور دیگر بہت سے پاکستانی کاروباری افراد تہران نہیں چھوڑ رہے ہیں۔‘محمد عارف کا کہنا تھا کہ ایران اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران ان کے کاروباری معمول پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ’میں ان حالات میں تہران کو نہیں چھوڑ سکتا ہوں اور کئی پاکستانیوں کا یہی فیصلہ ہے۔ مستقبل میں دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تک بنیادی اشیا کی کوئی قلت نہیں مگر پیٹرول پمپس پر معمول سے زیادہ رش ضرور ہے۔عارف کے مطابق تہران میں دیگر علاقوں سے آئے لوگ واپس چلے گئے ہیں اور سڑکوں پر رش کم ہے کیونکہ اس وقت شہر میں اکثر مقامی رہائشی رہ گئے ہیں۔’پبلک ٹرانسپورٹ چلنا بند ہو چکی ہے‘امیر عالم ایک سالار ہیں اور خیبر پختونخوا سے زائرین کے قافلے لے کر ایران جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 13جون کی شام جب اسرائیل نے تہران پر حملہ کیا تو ان کا قافلہ ایران کے شہر قم میں تھا۔'اسرائیلی حملے کے بعد ہم نے وہاں پر جذباتی مناظر دیکھے، دنیا بھر سے آئے ہو زائرین بڑے جذباتی تھے۔ اس موقع پر کئی غیر ملکی زائرین جن میں پاکستانی بھی شامل تھے وہ واپس نہیں جانا چاہتے تھے۔ مگر ایران کی انتظامیہ نے زائرین سے کہا کہ وہ واپس جائیں جبکہ ہمارا جب پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ قائم ہوا تو ہمیں بھی سفارت خانے نے ہدایت کی کہ جلد سے جلد نکل جائیں۔‘امیر عالم کا کہنا تھا کہ قم سے انھوں نے 14جون کو اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ان کے قافلے میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں اور اب وہ تفتان پاکستان بلوچستان کے بارڈر کے قریب پہنچ چکے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پیر کی شام تک وہ بلوچستان ہوں گے۔انھوں نے بتایا کہ راستے میں ایران سے نکلنے والی گاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ’قم اور دیگر علاقوں میں پیڑول حاصل کرنے والوں کی لمبی لائنیں تھیں۔اس طرح ہم نے دوکانوں پر بھی لمبی لائنیں دیکھی تھیں۔‘امیر عالم کا قافلہ تو پاکستان پہچنے والا ہے۔ مگر پنجاب سے جانے والا زائرین کا ایک قافلہ جس میں چالیس مرد و خواتین اور بچے شامل ہیں وہ ٹرانسپورٹ نہ ملنے کے باعث قم ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔Getty Imagesقافلے کے سالار نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرنے سے انکار کر دیا مگر قافلے میں موجود لاہور کے رہائشی سید عصنفر کا کہنا تھا کہ 'ہم لوگ 13تاریخ کی رات کو قم پہنچے تھے۔ راستے میں اسرائیل کے ایران پر حملہ کا علم نہیں ہوا، ہمیں 14 جون کو پتا چلا کہ ایران پر حملہ ہو گیا ہے۔ اس موقع پر سارے قافلے نے کہا کہ حملہ تو تہران پر ہوا ہے اور ایسا اسرائیل کرتا رہتا ہے۔ ہم بہت دور سے زیارتیں کرنے کے لیے آئے ہیں۔ ہمیں زیارتیں کرنا چاہیں۔ ویسے بھی قم میں حالات معمول کے مطابق ہی لگ رہے تھے۔سید عصنفر کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہم لوگوں نے زیارتیں کیں تو پتا چلا کہ بہت سے قافلے یہاں سے واپس نکل رہے ہیں۔ ہم لوگوں نے سالار سے پوچھا تو اس نے کہا کہ آپ جیسا چاہتے ہیں جس پر قافلے میں شریک افراد نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم اس وقت سالار نے ہمیں بتایا کہ گاڑیوں کے ڈرائیور واپس نہیں جارہے ہیں۔سید عصنفر کا کہنا تھا کہ 'ممکنہ طور پر گاڑیوں کے ڈرائیور خوفزدہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ راستے میں کسی بھی مقام پر حملہ ہوسکتا ہے اور وہ پھنس سکتے ہیں۔'ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے سالار کے ساتھ مل کر واپسی کے لیے گاڑیاں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے مگر گاڑیاں دستیاب نہیں ہو رہی ہیں۔سالار کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی سفارت خانے سے رابطے میں ہے اور گاڑیوں کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہوسکتا ہے کہ گاڑیوں کا انتظام ہوجائے مگر اب زائرین چاہتے ہیں کہ وہ واپس پاکستان چلے جائیں۔'سید عصنفر کا کہنا تھا کہ قم میں کھانے پینے کی کوئی قلت نہیں ہے۔ چھوٹی گاڑیاں روڈ پر نظر آتی ہیں مگر بڑی گاڑیاں نظر نہیں آرہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ قم میں یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ آئندہ کچھ دونوں میں کھانے پینے کی قلت ہوسکتی ہے۔مشہد میں ریستوران کے کاروبار سے منسلک پاکستانی اسد عباس کا کہنا تھا کہ مشہد میں صورتحال معمول کے مطابق ہے۔ شہر میں ٹرانسپورٹ اور اشیا خوردو نوش بھی دستیاب ہیں جبکہ زائرین واپسی کی راہ بھی لے چکے ہیں۔Getty Images’تعلیمی مستقبل داؤ پر لگانا کو دل نہیں مانتا‘ایک اور پاکستانی نوجوان یاسر شہزاد، ایران عراق بارڈر پر واقع شہر علم میں، علم میڈیکل یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ وہ بھی اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد واپس پاکستان کی طرف سفر کر رہے ہیں۔یاسر شہزاد کہتے ہیں کہ علم میں پہاڑوں پر ڈرون گرتے دیکھے ہیں۔ وہاں سے کچھ معمولی دھماکوں کی آوازیں آئی ہیں۔ یہ شہر بارڈر پر واقع ہے جس وجہ سے اس شہر میں کافی افواہیں تھیں کہ اسرائیل اس شہر پر بھی حملہ کرسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کے پیش نظر والدین کے کہنے پر تقریباً تمام ہی طالب علموں نے فیصلہ کیا کہ وہ واپس پاکستان جائیں گے جس کے لیے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ قائم کیا اور انھوں نے ہماری واپسی کا انتظام کیا۔تاہم کچھ پاکستانی طالب علم ایسے بھی ہیں جنھوں نے ایران میں ہی رکنے کا فیصلہ کیا ہے۔حیدر علی نقوی، سیمنان کی میڈیکل یونیورسٹی میں میڈیکل کے آخری سال کے طالب علم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا صرف ایک سمسٹر رہتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس موقع پر مجھے مستقبل خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ جنگ میں عموماً ہاسٹل، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا ہے اور نہ ہی بنانا چاہیے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میرے والدین نے اپنا پیٹ کاٹ کر میری فیسیں جمع کرائیں اور اخراجات اٹھائے۔ اب تعلیمی مستقبل داؤ پر لگانے کو دل نہیں مانتا۔`سخی محمد عون بھی اس خطرے کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی طالب علموں نے اپنی اپنی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ سے گزارش کی ہے کہ ان کی کلاسیں اور امتحان آن لائن لیا جائے مگر اس پر ابھی کوئی جواب نہیں ملا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’اب کئی یونیورسٹیوں میں امتحان ہونے والے ہیں اگر ہمارے امتحان آن لائن نہیں ہوئے تو اس سے سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے اور پہلے ہی ہم بھاری فیسیں ادا کر رہے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ اس اہم مسئلہ پر حکومت ایران سے سفارتی سطح پر بات کرے۔اسرائیلی حملوں میں فوجی قیادت کی ہلاکتوں پر ’انتقام‘ کا اعلان: ایران کے نئے فوجی کمانڈر کون ہیں؟اہم شخصیات کی ہلاکتیں اور جوہری تنصیبات پر حملے: اسرائیل کا ایران میں ’ریجیم چینج‘ کا ممکنہ آخری داؤ جو ایک جُوا ہو سکتا ہےکیا ایران چند ماہ میں ایٹمی طاقت بننے والا تھا؟’آئرن ڈوم‘ اور دیگر اسرائیلی دفاعی نظام کیا ہیں اور یہ کیسے کام کرتے ہیں؟اسرائیل، ایران اور تیل: آبنائے ہرمز بند ہو جائے تو کیا ہو گا؟