
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خاندانی کاروبار نے ایک نئے تجارتی منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت وہ "ٹرمپ" برانڈ کے تحت ایک نیا سمارٹ فون اور موبائل فون سروس متعارف کروا رہے ہیں۔ اس اقدام کو ناقدین ٹرمپ کی صدارت کے دوران ذاتی مالی فائدہ حاصل کرنے کی ایک اور کوشش قرار دے رہے ہیں۔
ٹرمپ آرگنائزیشن، جسے ان کے بیٹے چلاتے ہیں، نے کہا ہے کہ یہ نیا گولڈن کلر والا "امریکہ میں تیار کردہ" سمارٹ فون 499 ڈالر میں فروخت ہوگا، جبکہ ماہانہ موبائل سروس فیس 47.45 ڈالر رکھی گئی ہے. یہ اعداد و شمار اس بات کی علامت ہیں کہ ٹرمپ امریکہ کے 45ویں اور 47ویں صدر رہے ہیں۔
مفادات کا ٹکراؤ؟
واشنگٹن میں قائم ایک نگراں تنظیم "سِٹیزنز فار ریسپانسبلٹی اینڈ ایتھکس" (CREW) کی ترجمان میگھن فالکنر نے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، "یہ ناقابل یقین بات ہے کہ ٹرمپ خاندان نے ایک اور راستہ نکال لیا ہے جس سے وہ اپنے عہدے کے دوران بھی ذاتی فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔"
اگرچہ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے تجارتی مفادات کو ایک ٹرسٹ میں منتقل کر دیا ہے، جو ان کے بچوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے، تاہم ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس نئی سروس سے ایک بار پھر وہی سوالات اٹھ رہے ہیں: کیا یہ کاروبار ایسے صارفین کو متوجہ کرے گا جو صدر پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں؟ اور کیا ٹرمپ ایسی پالیسی سازی کریں گے جو اس صنعت کو فائدہ دے جس میں ان کا براہِ راست مفاد موجود ہے؟
امریکہ میں فون کی تیاری، ایک خواب؟
ٹیکنالوجی ماہرین نے "امریکہ میں تیار کردہ" فون کے دعوے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ مکمل طور پر امریکی پرزوں سے سمارٹ فون بنانا موجودہ حالات میں تقریباً ناممکن ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں آپریشنز مینجمنٹ پڑھانے والے پروفیسر ٹنگ لونگ ڈائی کا کہنا تھا، "ان کے پاس کوئی مکمل نمونہ بھی نہیں ہے، یہ دعویٰ انتہائی غیر یقینی ہے۔"
ماہرین کا ماننا ہے کہ شاید فون امریکہ میں اسمبل کیا جائے گا، جبکہ اس کے تمام پرزے بیرونِ ملک سے منگوائے جائیں گے۔ CCS انسائٹ کے تجزیہ کار لیو گیبی کے مطابق، "یہی ایک ممکنہ راستہ ہے جس سے وہ 'امریکی خودمختاری' کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔"
تفصیلات غائب، شفافیت پر سوال
ٹرمپ آرگنائزیشن نے ابھی تک اس سروس کے حقیقی پارٹنر کا نام ظاہر نہیں کیا، اور نہ ہی اس تنقید کا جواب دیا ہے جس میں کاروباری مفادات اور صدارتی حیثیت کے ممکنہ ٹکراؤ پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اعلان میں کہا گیا کہ "محنتی امریکیوں کو ایک سستی، قابلِ اعتماد اور ان کی اقدار کی عکاسی کرنے والی وائرلیس سروس کی ضرورت ہے۔" کمپنی نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ فوجی اہلکاروں کے خاندانوں کو بین الاقوامی کالز پر خصوصی رعایت دی جائے گی، اور سروس کے صارفین کو امریکہ میں موجود کسٹمر سپورٹ مہیا کی جائے گی۔
ٹرمپ کا بڑھتا ہوا مالی فائدہ
یہ منصوبہ ٹرمپ کی پرانی حکمت عملی کا تسلسل ہے، جس کے تحت وہ اپنے نام کو ہوٹلوں اور گالف کورسز کے مالکان کو لائسنس کے ذریعے استعمال کرنے کی اجازت دے کر کماتے رہے ہیں۔ تاہم سیاست میں آنے کے بعد ان کے برانڈ کی مالی قدر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ٹرمپ کی حالیہ مالیاتی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال انہوں نے 600 ملین ڈالر سے زائد کمائے، جن میں ٹرمپ بائبلز، گھڑیاں، جوتے اور خوشبوؤں سے ہونے والی آمدن بھی شامل ہے۔ مارچ میں فوربز نے ان کی مجموعی دولت 5.1 ارب ڈالر بتائی، جو پچھلے سال سے دو گنا ہے۔
یہ اضافہ جزوی طور پر ٹرمپ کے وفادار حامیوں کی وجہ سے ہے، جن کی حمایت سے ان کی سوشل میڈیا کمپنی "ٹروتھ سوشل" کی قدر میں اضافہ ہوا، اور یہی کمپنی اب ان کی کل دولت کا بڑا حصہ سمجھی جا رہی ہے۔
مقابلہ سخت، مارکیٹ محدود
امریکہ میں موبائل سروسز کا بڑا حصہ تین بڑی کمپنیوں AT&T، Verizon، اور T-Mobile کے پاس ہے، جو 40 ڈالر سے کم میں سروس فراہم کرتی ہیں۔ چھوٹے نیٹ ورکس بھی موجود ہیں جو مخصوص صارفین کو رعایت یا خاص سہولیات کے ساتھ متوجہ کرتے ہیں، لیکن ان کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔
Mint Mobile جیسی سروس، جسے اداکار ریان رینالڈز کی حمایت حاصل تھی، 2023 میں T-Mobile نے 1.35 ارب ڈالر میں خرید لی۔ اندازے کے مطابق، اس وقت اس سروس کے دو سے تین ملین صارفین تھے، اور رینالڈز کی 25 فیصد شراکت کے بدلے انہیں 300 ملین ڈالر تک کا ممکنہ منافع حاصل ہوا۔
ٹرمپ کے تازہ ترین تجارتی اقدام نے ایک بار پھر یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا سابق صدر کی کاروباری سرگرمیاں ان کی سیاسی حیثیت سے متصادم ہیں یا نہیں۔ جہاں ایک طرف ان کے حمایتی اسے "امریکی اقدار" سے جوڑ رہے ہیں، وہیں ناقدین اسے اقتدار سے ذاتی فائدہ اٹھانے کا تسلسل قرار دے رہے ہیں۔