
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال سے ایران میں موجود پاکستان سمیت دیگر ممالک کے شہریوں کے لیے مشکلات تو پیدا ہوئی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عراق میں موجود غیرملکی شہری بھی فضائی حدود کی بندش کے باعث پھنس گئے ہیں۔ ان میں غیرملکی کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی بھی شامل ہیں۔ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے بعد پاکستان کی حکومت نے سب سے پہلے ایران میں موجود پاکستانی شہریوں اور طلبہ کو وہاں سے نکالنے کا فیصلہ کیا، اور ان کے انخلا کے لیے خصوصی پروازوں اور زمینی راستوں کے ذریعے انخلا کو یقینی بنایا۔ اس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد پاکستانی ایران سے نکالے جا چکے ہیں۔حکومت پاکستان نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ایران میں موجود سفارتی عملے کے اہل خانہ اور غیرضروری سفارتی عملے کو واپس بلایا جائے گا۔اس عمل کے دوران عراق میں پھنسے سینکڑوں پاکستانی شہریوں کو بھی وطن واپس لایا گیا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق عراق سے 268 پاکستانی شہریوں کی دو خصوصی پروازوں کے ذریعے کراچی اور اسلام آباد واپسی ہوئی ہے جبکہ یہ پروازیں بصرہ سے چلائی گئیں۔ترجمان نے بتایا کہ وزارت خارجہ عراق میں موجود باقی پاکستانی شہریوں کی محفوظ اور بروقت واپسی کے لیے سرگرم عمل ہے۔شہریوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپ ڈیٹس کے لیے بغداد میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطے میں رہیں۔یہ تو وہ پاکستانی ہیں جو محدود مدت کے ویزے پر عراق گئے تھے لیکن عراق میں 50 ہزار سے ایک لاکھ پاکستانی مختلف کمپنیوں کے ساتھ بطور ملازم کام کرتے ہیں۔ان میں سے بیشتر ایران اور عراق کے سرحدی علاقوں بالخصوص بصرہ میں قیام پذیر ہیں۔ ایران کی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے وہ اگرچہ میزائل حملوں سے ابھی تک متاثر نہیں ہوئے لیکن دہشت کے اس ماحول میں وہ ہر وقت موت کے خوف میں مبتلا رہنے لگے ہیں۔ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں موجود 13 پاکستانی جنہیں چھٹی پر ملک واپس آنا تھا اور ایک مہینے بعد واپس بصرہ پہنچنا تھا، فضائی حدود کی بندش کے باعث پھنس کر رہ گئے ہیں۔راولپنڈی کے رہائشی رمیض سعید بھی ان پاکستانیوں میں سے ایک ہیں۔ کمپنی پالیسی کے مطابق وہ 28 دن فیلڈ میں ڈیوٹی کرتے ہیں اور 28 دن انہیں چھٹی ہوتی ہے۔ جس دن یہ جنگ شروع ہوئی اس سے اگلے روز انہیں پاکستان کے لیے روانہ ہونا تھا لیکن فضائی حدود کی بندش کے باعث وہ سفر نہ کر سکے۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق عراق سے 268 پاکستانی شہریوں کی دو خصوصی پروازوں کے ذریعے کراچی اور اسلام آباد واپسی ہوئی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)رمیض نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’بصرہ ایران کی سرحد کے بالکل ساتھ ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے میزائل گرتے دیکھے ہیں۔ اس بات کا بھی یقین نہیں کہ رات کو سوئیں گے تو صبح اٹھ سکیں گے یا نہیں کیونکہ میزائل چند کلومیٹر بھی ادھر ادھر گرا تو ہمارا کام تمام ہو جائے گا۔‘ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کے وقت بھی وہ پاکستان میں موجود تھے اور جب نور خان ایئربیس کے قریب میزائل حملہ ہوا تو اس آواز سے ہی شہری خوف و ہراس کا شکار ہو گئے تھے۔ یہاں ایران کی سرحد کے قریب رہتے ہوئے تو ہم میزائل گرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اس وجہ سے پریشانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔’اس وقت ہم مسافر اور ورکر کی حیثیت سے دوسرے ملک میں موجود ہیں، اس لیے ہم اور ہمارے ساتھی موت کے خوف میں مبتلا ہیں جبکہ گھر والوں کو الگ سے پریشانی لاحق ہے۔‘انہوں نے کہا کہ صرف یہی پریشانی نہیں ہے کہ ہم یہاں سے نکل نہیں پا رہے بلکہ جن ورکرز نے ہماری جگہ آ کر ڈیوٹی سنبھالنی تھی وہ بھی نہیں پہنچ پا رہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے یا ان کے ساتھیوں میں سے کسی نے پاکستانی سفارت خانے یا حکومت کے کسی ادارے سے رابطہ کیا ہے؟ تو رمیض کہنا تھا کہ ’چونکہ ہم ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ یہاں موجود ہیں تو کمپنی خود سے چارٹرڈ طیارے کے ذریعے ہمیں دبئی منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اسی پرواز پر ہی متبادل ورکرز یہاں پہنچیں گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ہم بذریعہ سڑک کویت میں داخل ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی پاکستانی پاسپورٹ والوں کو ویزا آن ارائیول نہیں دیتا۔‘’صورت حال دیکھیں گے اور اگر کمپنی کچھ نہ کر سکی اور صورت حال خراب ہوتی نظر آئی تو ہم حکومت اور وزارت خارجہ سے رابطہ کریں گے۔‘رمیض سعید نے کہا کہ ’میزائل چند کلومیٹر بھی ادھر ادھر گرا تو ہمارا کام تمام ہو جائے گا۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)رمیض سعید نے مزید بتایا کہ 13 پاکستانی تو وہ ہیں جنہوں نے ابھی چھٹی پر جانا تھا جبکہ اس کے علاوہ بھی متعدد پاکستانی ورکرز اس کمپنی میں کام کرتے ہیں، اور اگر صورت حال خراب ہوتی ہے تو ان کے لیے یہاں رکنا بھی مشکل ہو جائے گا۔بصرہ میں موجود ایک اور پاکستانی محمد یونس نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ گذشتہ ایک برس سے عراق میں موجود ہیں۔ ابھی واپس جانے کی تیاریاں کر ہی رہے تھے کہ صورت حال بدل گئی۔ پہلے تو چھٹی پر جانے کی خوشی تھی اور اب یہ لگ رہا ہے کہ یہاں سے نکلیں تو کیسے؟ جس بھی ایئرلائن سے رابطہ کریں تو ان کی جانب سے یہی جواب ملتا ہے کہ فی الحال پروازیں بند ہیں اس لیے انتظار کریں۔انہوں نے کہا کہ مختلف ممالک خصوصی پروازوں کے ذریعے اپنے شہریوں کو نکال رہے ہیں۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں ایران اور عراق کے سرحدی علاقوں میں صورت حال خراب ہونے کا امکان ہے۔محمد یونس کا کہنا تھا کہ ’ایک تو غلطی سے ہونے والے حملوں کا خدشہ ہے لیکن دوسری جانب یہ خوف بھی ہے کہ ایران، عراق میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا تو ایسے میں بہت سی ایسی کمپنیاں جو غیرملکی ہیں وہ بھی نشانے پر آ سکتی ہیں جن میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ کئی ممالک کے لوگ بطور ورکر کام کرتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی ان کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین خوف کا شکار ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ وہ پاکستانی تو پھر بھی پُرامید ہیں کہ اگر حالات خراب ہوئے تو ان کی کمپنی انہیں یہاں سے دبئی یا کسی اور ملک منتقل کر دے گی لیکن وہ پاکستانی جو غیرقانونی طریقے سے عراق میں رہ رہے ہیں ان کے لیے آنے والے دن صورت حال خراب ہونے کی صورت میں پریشان کن ثابت ہو سکتے ہیں۔وزارت خارجہ کے مطابق اگر صورت حال خراب ہوئی اور عراق میں موجود پاکستانیوں کو نکالنا پڑا تو اس کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)اس حوالے سے وزارت خارجہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر ایران میں موجود پاکستانیوں کو نکالنے کے لیے تمام تر اقدامات کیے جا رہے ہیں اور پاکستانی سفارت خانہ اور قونصل خانے متحرک ہیں۔ عراق میں فی الحال فضائی حدود کی بندش کے علاوہ امن و امان کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود جن پاکستانیوں کے ویزے کی معیاد ختم ہو رہی تھی انہیں نکال لیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اگر صورت حال خراب ہوئی اور عراق میں موجود پاکستانیوں کو نکالنا پڑا تو اس کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔