ادب، سیاست اور ایوان اقتدار کے دلچسپ مشاہدات: عامر خاکوانی کا کالم


انتظار حسین نے اپنے ایک کالم میں نامور مصور شاکرعلی کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا، لکھتے ہیں کہ 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ کے دنوں میں وہ شاکر علی سے ملے، پوچھا کہ آج کل کیا کر رہے ہیں؟ انتظار صاحب کی شاید مراد یہ تھی کہ بہت سے پاکستانی شاعر ادیب جنگ کے حوالے سے ملی نغمے، ترانے اور دوسری تخلیقات کر رہے تھے، شاکر صاحب بھی کچھ کر رہے ہیں؟شاکر علی نے کمال معصومیت سے جواب دیا، میں چاند پینٹ کر رہا ہوں۔ انتظار حسین یہ سن کر بھونچکا کر رہ گئے کہ جنگ کے دنوں میں چاند پینٹ کرنے کا کیا مطلب بنا۔ شاکر صاحب نے کہا میں چاند پینٹ کر رہا ہوں جو ہر جگہ چمکتا ہے، پاکستان میں بھی، انڈیا میں بھی۔تو بھیا جی بات یہ ہے کہ ہر طرف جنگیں چھڑی ہوئی ہیں، ان جنگوں پر بھی کچھ نہ کچھ ہم لکھ ہی دیتے ہیں، مگر اس دوران کتابیں پڑھنے کا کام جاری ہے اور سچی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہر واقعے کے بارے میں اتنا کچھ آناً فاناً آ جاتا ہے کہ دیکھ کر جی اوبھ جاتا ہے۔ ایسے میں کتاب کی کشش اور دلآویز خوبصورتی مسحور کر دیتی ہے۔پروفیسر فتح محمد ملک کی خودنوشت ’آشیانہ غربت سے آشیاں در آشیاں‘ پڑھ رہا ہوں۔ یہ ویک اینڈ اسی مطالعے میں گزرا۔ 332 صفحات کی کتاب بہت دلچسپ اور متنوع مواد لیے ہوئے ہے۔ اس میں بیان کیے گئے واقعات اور مشاہدات دلچسپ ہیں۔پروفیسر فتح محمد ملک مُلک کے نامی گرامی دانشور، محقق، استاد اور ادیب ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ماہر اقبالیات ہیں۔ کئی اعلیٰ مغربی یونیورسٹیوں میں بھی پڑھایا۔ پاکستان میں بھی اہم ادبی، علمی عہدوں پر فائز رہے۔انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر اور مقتدرہ قومی زبان کے صدرنشیں بھی رہے۔ آج بھی ماشااللہ سے ذہنی طور پر متحرک اور فعال ہیں۔ فتح محمد ملک صاحب کی خودنوشت علم وادب، سیاست اور بھٹو دور میں ایوان اقتدار کے مشاہدات کا دلچسپ مرقع ہے۔بھٹو صاحب ان کا احترام کرتے تھے، وزیراعلیٰ پنجاب حنیف رامے سے ان کی قریبی دوستی تھی، پیپلزپارٹی کے ترقی پسند حلقے میں ان کی تکریم کی جاتی تھی۔ اسی وجہ سے کتاب میں بہت کچھ آ گیا۔فتح محمد ملک نے اپنی خودنوشت میں ایک دلچسپ انکشاف کیا کہ مشہور سکالر علامہ غلام احمد پرویز نے لاہور کے گورنر ہاؤس میں وزیراعظم بھٹو کو مشورہ دیا تھا کہ زمینداروں کی تائید وحمایت حاصل کرنے کے لیے مشہور فیوڈل سردار محمد حیات ٹمن کو اپنا مشیر بنا لیں کہ ان کا جاگیرداروں میں بڑا اثرورسوخ ہے۔ بھٹو صاحب نے یہ مشورہ فی الفور قبول کر لیا۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ غلام احمد پرویز ترقی پسندانہ سوچ رکھتے تھے اور فیوڈلز کے مخالف تھے، ان کے لیے یہ بات شاید تعجب انگیز ہو۔قدرت اللہ شہاب کے بارے میں ملک صاحب نے دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ حلقہ ارباب زوق پنڈی نے ان کے اعزاز میں تقریب رکھی، تب وہ صدر ایوب کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔ مدح میں تقاریر اور مضامین پڑھے گئے، فتح محمد ملک نے اپنے مضمون کے آخری حصے میں شہاب صاحب پر تنقید کی تو کئی لوگ شورمچانے لگے کہ مضمون کا یہ حصہ ادبی نہیں سیاسی ہے، نہ پڑھا جائے۔قدرت اللہ شہاب نے فتح محمد ملک کے مضمون میں اپنے اوپر تنقید پر تعریفی کلمات کہے (فوٹو: وکی پیڈیا)ملک صاحب نے پڑھنے پر اصرار کیا تو شور بڑھ گیا، اتنے میں شہاب صاحب کھڑے ہوئے، انتہائی ناگواری کے ساتھ اپنے حامیوں کو چپ کرایا اور مضمون سننے کی تلقین کی۔ مضمون ختم ہوا تو شہاب صاحب نے تعریفی کلمات کہے اور کہا کہ میں ان سوالات پر غور کروں گا۔فتح محمد ملک کو حیرت ہوئی جب تین دن بعد ممتاز مفتی نے ان سے مضمون کی نقل مانگی اور کہا کہ شہاب صاحب کی خواہش ہے کہ یہ مضمون نقوش میں شائع ہوا۔ شہاب صآحب پر لکھا گیا وہ تنقیدی مضمون پھر ایک حرف بھی تبدیل کیے بغیر نقوش کے اگلے شمارے میں شائع ہوا۔آگے جا کر ایک اور دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ بھٹو دور میں شہاب صاحب کچھ عرصہ کے لیے وزارت تعلیم میں سیکریٹری جنرل رہے۔ انہی دنوں ایک سیمینار میں شہاب صاحب نے فتح محمد ملک کو بتایا کہ 1948 کی ایک سہ پہر وزیراعظم لیاقت علی خان اور وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان نے انہیں وزارت امور کشمیر کے سیکریٹری کے طور پر طلب کیا۔ وہ کمرے میں تھے۔وزیراعظم نے جنرل اکبر خان کو بلایا اور کہا کہ کشمیر میں جنگ بندی کے لیے حکومت برطانیہ کا شدید دباؤ ہے، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ فوراً جنگ بند کر دی جائے اور یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی وساطت سے حل کیا جائے۔میجر جنرل اکبر خان نے جنگ بندی کی تجویز کے خلاف دلائل دیے اور جب وہ بے اثر ہوتے دیکھے تو وزیراعظم سے اپیل کی کہ اگر یہی آخری فیصلہ ہے تو جنگ بندی کے لیے آج رات کے بجائے کل رات کا کوئی وقت مقرر کیا جائے۔شہاب صاحب کے بقول انہیں لگا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان جنرل اکبر کی یہ بات مان گئے ہیں اور زبان کھولنے ہی والے ہیں کہ سر ظفراللہ خان آگ بگولا ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور براہ راست جنرل اکبر خان کو ڈانٹنے ڈپٹنے لگے کہ تمہیں یہاں آرڈر کی تعمیل کرنے کے لیے بلایا ہے، تم یہاں بحث کرنے کے لیے نہیں بلکہ احکامات کی تعمیل کے لیے ہو، گیٹ آؤٹ۔ جنرل اکبر خان کمرے سے باہر چلے گئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان حیران پریشان بیٹھے دیکھتے رہے۔بھٹو صاحب نے فیض احمد فیض کو اپنا کلچرل ایڈوائزر مقرر کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)فتح محمد ملک لکھتے ہں کہ برسوں بعد جب میں نے شہاب نامہ پڑھا تو یہ واقعہ کہیں نظر نہیں آیا، میں اب بھی کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس ناقابل فراموش واقعے کو شہاب صاحب کیسے بھول گئے؟ خود نوشت کے اس چیپٹر کا نام بھی ملک صاحب نے ’شہاب نامہ کا ایک گمشدہ باب‘ رکھا ہے۔حنیف رامے وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو فتح محمد ملک کو اپنے ساتھ وزارت اطلاعات میں ذمہ داری سونپی۔ ان دنوں نئی موٹر گاڑیوں کی خریداری پرمٹ کے ذریعے ہو رہی تھی۔ اوپن مارکیٹ میں بھی گاڑیاں بک رہی تھیں، جن کی قیمت پرمٹ سے خریدی جانے والی گاڑی سے 10 ہزار روپے زیادہ تھی۔ (تب 10ہزار روپے بھی خاصی اہمیت رکھتے تھے)۔فتح محمد ملک کو اطلاع ملی کہ مولانا مودودی، مجید نظامی اور شورش ملک اوپن مارکیٹ سے گاڑی خریدنا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے ان تینوں حضرات سے درخواست کی کہ وہ دو سطروں کا ایک نوٹ لکھ بھیجیں، پرمٹ ان کے گھر پہنچا دیا جائے گا، دس ہزار کا خرچ بچ جائے گا یہ پرمٹ آپ کا حق ہے، احسان نہیں۔ تینوں شخصیات نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔شورش کاشمیری سے ملک صاحب کی ذاتی راہ و رسم تھی، وہ شورش کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پرمٹ دے آئے۔ شورش کاشمیری نے شاید وضع داری میں اس وقت تو پرمٹ رکھ لیا مگر اگلے روز ڈاک سے یہ لکھ کر واپس بھیج دیا کہ اس وقت مجھے انکار کی جرات نہ ہوئی، اب واپس ارسال خدمت ہے۔بھٹو صاحب نے فیض احمد فیض کو اپنا کلچرل ایڈوائزر مقرر کیا تھا، بھٹو نے بڑی حیرت انگیز رفتار کے ساتھ کلچر کے مختلف ادارے قائم کرنے کی فیض صاحب کی تجاویز پر عمل درآمد کیا تھا۔ فتح محمد ملک نے بڑی دل گرفتی سے لکھا کہ پھر وہ وقت آیا کہ وزیراطلاعات عبدالحفیظ پیرزادہ نے فیض صاحب سے سردمہری کا سلوک کرنا شروع کر دیا۔فیض صاحب نے بھٹو صاحب تک پیرزادہ کی شکایت پہنچانے کے بجائے مستعفی ہو کر لاہور جا بیٹھنا مناسب جانا۔ بعد میں فیض صاحب نے حکومت میں کام کرنے کے بجائے کراچی میں ہارون فیملی کے قائم کردہ تعلیمی ادارے کے سربراہ بن کر کام کرنے کو ترجیح دی۔پروفیسر فتح محمد ملک صاحب بھٹو صاحب کے بڑے مداح ہیں (فوٹو: اے ایف پی)پروفیسر فتح محمد ملک صاحب بھٹو صاحب کے بڑے مداح ہیں، انہوں نے بھٹو صاحب کے حوالے سے کئی واقعات رقم کیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک بار لاہور کے معروف ہفت روزہ جریدے ’زندگی‘ میں بھٹو صاحب کی والدہ کے حوالے سے ایک بہت سخت تحریر شائع ہوئی جس میں کئی پست الزامات عائد کئے گئے تھے، اگلے روز بھٹو صاحب نے پنڈی میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا۔خطاب کے بعد پنڈی کے ایک ہوٹل فلیش مینز میں بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی کے چند سرکردہ رہنما اور ایک دو صحافی آ بیٹھے۔ جریدے ’زندگی‘ کی وہ تحریر زیربحث آئی۔ بات غیظ و غضب سے شروع ہوئی اور خاموشی پر آ تمام ہوئی ۔ فیصلہ ہوا کہ اس تحریر کا بہترین جواب خاموشی ہے۔ ایسے میں بھٹو صاحب نے اپنی آنسوؤں میں ڈبڈبائی آنکھوں سے اپنے ایک سوشلسٹ ساتھی کو دیکھا اور کہنے لگے، ’جو لوگ کہتے ہیں کہ غریبوں سے میری محبت ایک سیاسی چال ہے، انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ میری ماں بہت غریب تھی۔‘ اس پر خاموشی چھا گئی اور مفحل برخاست ہوگئی۔‘ملک صاحب نے اکتوبر 1973 کا واقعہ لکھا جب بھٹو صاحب بہاولپور اور ملتان ریجن کے دورے پر آئے۔ ایک تقریب میں بھٹو صاحب پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر ملک معراج خالد اور صوبائی سیکریٹری جنرل تاج محمد لنگاہ (بعد میں پاکستان سرائیکی پارٹی کے سربراہ بنے) سے گفتگو کر رہے تھے۔تاج محمد لنگاہ اپنے دورۂ چین کی روداد سنا رہے تھے۔ گفتگو کے دوران تاج لنگاہ نے چین کی تعریف کرتے کرتے روس کی مذمت شروع کر دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب روس اور چین کے مابین (مارکس ازم میں) ترمیم پسندی اور بنیاد پرستی کے موضوع پر لفظی جنگ زوروں پر تھی۔ بھٹو صاحب نے انہیں ٹوک دیا، کہنے لگے، ’لنگاہ ، ہمیں چین کی دوستی پر ناز ہے مگر روس کی مذمت بے جا ہے۔ جب ہمارے چینی دوست ترمیم پسندی کا چلن اختیار کریں گے تو روس کو بہت پیچھے چھوڑ دیں گے۔‘ فتح محمد ملک لکھتے ہیں کہ ’آج جب میں (چینی سسٹم میں یکسر تبدیلیاں آنے کے حوالے سے) بھٹو صاحب کی بصیرت کا خیال کرتا ہوں تو حیرت میں گم ہوجاتا ہوں۔‘فیض صاحب جنرل ضیا کے دور میں کئی برس تک جلاوطن رہے (فوٹو: اے ایف پی)فیض صاحب جنرل ضیا کے دور میں کئی برس تک جلاوطن رہے۔ انہیں انڈیا کی یونیورسٹیوں کی جانب سے بلند مناصب پیش کیے گئے، فیض صاحب نے ایسی کوئی پیش کش قبول کی اور نہ احمد فراز کو ایسا کرنے کا مشورہ دیا۔وزیراعظم اندرا گاندھی نے فیض صاحب کی سالگرہ کی شاندار تقریب منعقد کی تو فیض صاحب نے اپنی گفتگو میں یہ کہہ کر انڈینز کو مایوس کر دیا کہ میری یہ پذیرائی درحقیقت میرے پیارے وطن پاکستان کی پزیرائی ہے۔اس تقریب کی خبر پاکستان پہنچی تو جنرل ضیا الحق نے فیض صاحب کو دعوت بھیجی کہ آپ وطن واپس آ جائیں۔ فیض صاحب نے حکومت سے پہلے یہ گارنٹی لی کہ مجھے آزادانہ اپنی مرضی سے روس یا کسی دوسرے ملک آنے جانے کی اجازت ہوگی، پھر وہ واپس آ گئے۔ ان کے اعزاز میں ایک تقریب ہوئی۔تقریب کے بعد فیض صاحب کے چند اشتراکی دوست مایوسی کی باتیں کرتے ہوئے بار بار کہتے کہ بس اس ملک میں کچھ نہیں ہو سکتا۔ فیض صاحب خاموش بیٹھے مایوسی کی یہ باتیں سنتے رہے، پھر اچانک کہنے لگے، ہٹاؤ بھئی، آپ کو اپنی تازہ غزل سناتے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنی وہ مشہور غزل سنائی:ستم سکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتاصنم دکھلائيں گے راہِ خدا، ایسے نہیں ہوتاہر اک شب ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا ہےمگر ہر صبح ہو روزِ جزا ایسے نہیں ہوتارواں ہیں نبضِ دوراں گردشوں میں آسماں سارےجو تم کہتے ہو سب کچھ ہو گیا ایسے نہیں ہوتا

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

گورنر سندھ کے وکیل عابد زبیری ایڈووکیٹ نے سندھ ہائیکورٹ کافیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ،

وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس، اہم فیصلے متوقع

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاو ل بھٹو زرداری کی ایران پرحملے کی مذمت

وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کی اہم بیٹھک

گورنرسندھ کامران خان ٹیسوری حج کی سعادت حاصل کرنےکے بعد واپس پہنچ گئے

ادب، سیاست اور ایوان اقتدار کے دلچسپ مشاہدات: عامر خاکوانی کا کالم

خیبر پختونخوا میں پری مون سون بارشوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک، پانچ زخمی

پاکستان کا ایران سے اظہار یکجہتی، فوری جنگ بندی کا مطالبہ

وزیر اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر کے درمیان ٹیلیفونک بات چیت

جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیز ہے، اسحاق ڈار

اسلام آباد، ریلی میں طلباء، خواتین اور بچوں سمیت ہر طبقے نے شرکت کی

جب صہیونی حکومت اپنا دفاع نہیں کر پائی تو امریکا کو میدان میں لایا گیا، ایرانی سفیر

جب تیل سے مالا مال دبئی، ابوظہبی اور عمان پاکستان یا انڈیا کا حصہ بنتے بنتے رہ گئے

پانی کے لیے جنگ کرنی پڑی تو کرینگے اور بھارت کو پھر شکست دیںنگے، بلاول بھٹو زرداری

خطے کی موجودہ صورتحال، قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی